حسین عزالدین؛

جنرل سلیمانی مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کی توجہ مرکوز کرنا چاہتے تھے

لبنانی رکن پارلیمان کا کہنا تھا: الحاج قاسم مسئلۂ فلسطین پر عالم اسلام کی توجہ مرکوز کرنا چاہتے تھے / وہ محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی حمایت کی راہ میں کسی بھی سرخ لکیر کو تسلیم نہیں کرتے تھے / انھوں نے شام کی جنگ میں روس کے شامل ہونے میں بنیادی کردار ادا کیا / وہ محور مقاومت کا ستون تھے / شہدائے فتح (حاج قاسم اور حاج ابو مہدی المہندس) کی حکمت عملی بدستور نافذالعمل ہے

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: لبنانی کے رکن پارلیمان اور الوفاء للمقاومۃ بلاک کے رکن جناب حسین عزالدین نے العالم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا:
شہید الحاج قاسم سلیمانی نے محور مقاومت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا اور ان کے عظیم اقدامات کے آثار لبنان، فلسطین، شام اور عراق میں بخوبی دکھائی دے رہے ہیں۔
شہید الحاج قاسم سلیمانی علاقے کے تمام جزئیات سے واقفیت رکھتے تھے اور اپنے سیاسی افکار اور حکمت عملیوں کی روشنی میں آگے بڑھتے تھے اور ہر لحاظ سے ایک سیاستدان تھے۔
شہید الحاج قاسم خطے میں بہت ہر دلعزیز تھے اور اسی مقبولیت کی وجہ سے امریکہ انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لئے منصوبہ بندی کرتا تھا، ان کی شہادت کی کیفیت ان کی عظمت کی علامت ہے۔
شہید الحاج قاسم کی انسان دوستی کسی ملک تک محدود نہیں تھے بلکہ ان کے انسان دوستانہ اقدامات کا دامن ایران سے شام، فلسطین اور لبنان تک پھیلا ہؤا تھا۔ انھوں نے قدس فورس کی کمان سنبھالی جو امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کے افکار کا تسلسل سمجھی جاتی ہے۔ امام خمینی ابتدائے انقلاب سے ہی دو کروڑ رضا کار فورس کے قیام کے خواہاں تھے، جو فلسطین کی آزادی میں کردار ادا کر سکے، کیونکہ اسلامی جمہوریہ کے نزدیک فلسطین کا مسئلہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
عرب دنیا اور شمالی افریقہ پر شہید الحاج قاسم کی خصوصی نگاہ
شہید الحاج قاسم الحاج قاسم سلیمانی نے عرب دنیا کے فوجی اور سلامتی کے میدان میں جو کردار ادا کیا اس کا مقصد یہ تھا کہ عرب زیادہ سے زیادہ طاقتور اور متحد ہوں تاکہ ان کی قوت مسئلۂ فلسطین پر مرکوز ہو سکے۔ اقریقہ میں بھی عربی مغرب، شمالی افریقہ اور مصر کو خصوصی توجہ دیتے تھے کیونکہ یہ ممالک تزویراتی مسائل کو ترجیح دیتے ہیں اور فلسطین کے مسئلے کو اپنے قومی مسائل سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔
لبنان اور فلسطین میں مقاومتی محاذ کو تقویت پہنچانے میں شہید الحاج قاسم کا کردار
ہم دیکھتے ہیں کہ شہید الحاج قاسم سلیمانی حتی غزہ کی پٹی میں پہنچے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس تھا فلسطینی کاز، فلسطینی قوم اور فلسطینی تنظیموں کے سپرد کیا ہے کہ وہ اپنے مجاہدین کی تعداد، جنگ کے لئے تیاریوں میں، اسلحے کی فراہمی اور ہمہ جہت امداد و حمایت کے سلسلے میں، ان کی مدد کی۔ شہید الحاج قاسم سلیمانی تمام تر چیلنجوں کے باوجود، کسی بھی جغرافیائی خطے میں کفر و استکبار اور صہیونیت کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے فعال تنظیموں کی امداد کرتے تھے اور اس راستے میں کسی بھی چیز کو رکاوٹ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے؛ جن میں فلسطینی تنظیمیں سرفہرست تھیں اور دوسری اقوام کے پامال شدت حقوق کی بحالی کے لئے سرگرم مجاہد تنظیمیں بھی ان میں شامل تھیں۔
شہید الحاج قاسم سلیمانی نہ تھکنے والے کمانڈر تھے، وہ سپاہ قدس کی کمان سنبھالنے کے بعد ہر روز صبح چھ بجے سے مجاہد کمانڈروں کے ساتھ بات چیت سمیت اپنے روزمرہ کے کام کا آغاز کرتے تھے اور رات گئے تھے مصروف عمل رہتے تھے۔ لبنان اور فلسطین کی مقاومت تنظیموں کے حوالے سے ان کی مصروفیات حالیہ برسوں میں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں۔
حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت کی پیشرفت روکنے کے لئے صہیونی غاصبوں کی ناکام کوششیں
صہیونی غاصب امریکی حمایت کے سائے میں حزب اللہ کی ترقی کا عمل کُند کرنا چاہتے تھے۔ وہ جان گئے تھے کہ حزب اللہ کے میزائل اور جدیدترین ہتھیار صہیونی دشمن کا توازن بگاڑ رہے ہیں چنانچہ انھوں نے اپنے تمام فوجی اور سیکورٹی اداروں اور تمام تر وسائل نیز امریکی حمایت سے فائدہ اٹھا کر حزب اللہ سمیت مقاومت کی علاقائی تحریکوں کی نشوونما روکنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ یہ وہی پیشرفت اور نشو و نمو ہے جس کو آج ہم فلسطین کے اندر اور مغربی کنارے میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ فلسطین میں نوجوانوں کی انتفاضہ تحریک جاری ہے، ان کے ارادے محکم ہیں، وہ فلسطین کی آزادی پر یقین کامل رکھتے ہیں، فلسطینی مائیں شہیدوں اور اسیروں کی قربانی دے کر بھی فلسطین کی آزادی کے لئے پرعزم اور با استقامت ہیں۔ اور پورے علاقے میں جتنے بھی واقعات رونما ہو رہے ہیں اور مقاومت تحریکوں کو جتنی کامیابیاں مل رہی ہیں، یہ سب شہید الحاج قاسم سلیمانی کے کردار کا ثمرہ ہیں۔
شہید الحاج قاسم سلیمانی نے روس کو میدان شام میں کودنے میں بنیادی کردار ادا کیا
شام میں صہیونی-مغربی فتنے کا آغاز ہؤا اور دہشت گرد شام میں داخل ہوئے تو شہید الحاج قاسم فکرمند تھے کہ کہیں وہ شام پر قابض نہ ہوجائیں۔ چنانچہ انھوں نے کئی سال تک بنیادی تزویراتی سرگرمیوں کے ذریعے شام پر دہشت گردوں کے قبضے اور اس ملک کے حصے بخرے ہونے کا راستہ روک لیا۔ کیونکہ شام کے ہاتھ سے جانے کی صورت میں مقاومت اسلامی کی حمایت بھی متاثر ہو سکتی ہے؛ اور اصولا مقاومت کو ناکام بنانا مغربی-صہیونی فتنے کا بنیادی مقصد بھی تھا، لہذا وہ فوری طور پر شام پہنچے اور اس ملک کو شکست سے بچایا؛ نیز شہید الحاج قاسم کی شخصیت کا سیاسی پہلو بھی نمایاں ہؤا اور انھوں نے روس کو بھی باور کرایا کہ خاموش رہنے کی صورت میں اسے ماسکو میں داعش سے نمٹنا پڑے گا، چنانچہ انھوں نے روس کو شام کے میدان میں کودنے پر آمادہ کیا۔
شہید الحاج قاسم سلیمانی نے مختصر مدت میں داعش کو کچل کر رکھ دیا
سنہ 2014ع‍ میں سب جانتے تھے کہ داعشی اور ان کے حامی بغداد کی فصیلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ عراقی کردستان کے مرکز اربیل پر داعش کا قبضہ بہت قریب تھا، اور عراق کے تمام سیاسی اور فوجی حکام جانتے ہیں کہ اگر الحاج قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو اربیل ہاتھ سے نکل جاتا اور عراق کی صورت حال بہت مختلف ہوتی۔
کوئی بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ ایک حساس مرحلے میں عراق کی دینی مرجعیت کے فتوے کی روشنی میں، الحاج قاسم سلیمانی اور الحاج ابو مہدی المہندس کی انقلابی حکمت عملیوں کا سہارا لینے کے بموجب الحشد الشعبی کا قیام عمل میں آیا۔ الحاج قاسم سلیمانی نے ہی مختلف الحشد الشعبی کو فوجی تربیت دلائی اور انہیں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے ہتھیاروں سے لیس کیا۔ اور عراقی قوم کی ضروریات کے تمام دفاعی وسائل فراہم کئے۔ چنانچہ سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ الحاج قاسم کے مؤثر کردار کے بدولت حاصل ہؤا۔
شہید الحاج قاسم سلیمانی مقاومت کا ستون ہیں
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ علاقے میں ہو رہا ہے وہ دو منصوبوں کا ٹکراؤ ہے: ایک منصوبہ امریکی ہے، جسے امریکہ اپنے علاقائی عوامل، اوزاروں اور گماشتوں کی مدد سے آگے بڑھانا چاہتا ہے اور دوسرا منصوبہ اسلامی جمہوریہ ایران کا ہے۔
امریکی منصوبہ خطے کے وسائل اور اس کی دولت کو لوٹنا اور ہر اس شخص کو سزا دینا ہے جو امریکی منصوبے اور اس کی تسلط پسندی کو مسترد کرتا ہے۔ امریکیوں کا ایک بڑا منصوبہ شام کی تقسیم اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے سے عبارت تھا۔ شامی حکومت کا تختہ الٹنے کی صورت میں اس ملک کی تقسیم آسان ہو جاتی؛ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا منصوبہ مقاومت اور مزاحمت ہے جو مضبوط، ناقابل شکست، مستحکم اور ناقابل تسخیر ہے، [امریکہ ممالک کو توڑنا چاہتا ہے اسلامی جمہوریہ ایران ان کی حفاظت کرتا ہے] اور شہید الحاج قاسم سلیمانی اس مقاومت و مزآحمت کا ستون ہیں۔
الحاج قاسم نے قدس فورس کی قیادت سنبھال کر لبنان، عراق، فلسطین اور شام کی پوری مقاومتی صلاحیتوں کو اکٹھا کرکے انہیں محور مقاومت کی شکل میں دشمن کے خلاف استعمال کیا۔ یہ ممالک استقلال اور خودمختاری کی راہ میں امریکی اطاعت اور تسلط پسندی کے دائرے سے خارج ہو گئے تاکہ قومی سطح پر بھی علاقائی اور بین الاقوامی دشمنوں کے خلاف قومی حکمت عملیاں اختیار کریں۔
الحاج قاسم سلیمانی نے محور مقاومت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا
شہید الحاج قاسم سلیمانی نے محور مقاومت (محاذ مزاحمت) میں بنیادی کردار ادا کیا، لبنان، شام اور عراق میں ان کے اقدامات کی نشانیاں بدستور، نمایاں اور محسوس ہیں؛ محور مقاومت نے الحاج قاسم سلیمانی کی مدد اور ان کی عسکری اور بنیادی اور ساختیاتی نیز تربیتی نشو و نما پائی، محور مقاومت میں ان کے کردار کو ایک ستون سے تشبیہ دی جا سکتی ہے اور یقینا ان کے بغیر محور مقاومت کی عمارت برپا نہیں ہو سکتی تھی۔
کیا فتح کے کمانڈروں کو دہشت گردی کا نشانہ بناکر، امریکہ اپنا مقصد حاصل کر سکا؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الحاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت خطے کے لئے بہت بڑا نقصان ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران طاقتور اور مستحکم ہے، شام اور لبنان بہت سخت مراحل سے گذرنے کے باوجود، بدستور طاقتور ممالک ہیں۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے ان دو کمانڈروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر محور مقاومت کے اقدامات کو روک سکا ہے، بہت بڑی خطا سے دوچار ہیں۔ کیونکہ الحاج قاسم اور الحاج ابو مہدی المہندس کی روش اور تزویراتی حکمت عملی بدستور قائم و دائم اور نافذ العمل ہے؛ جس کا بڑا ثبوت دریائے اردن کے مغربی کنارے میں صہیونی ریاست کے مقابلے میں فلسطینی مقاومت کے نہ رکنے والی کاروائیاں ہیں۔
مغربی کنارے کے آج کے واقعات، ایک حقیقی جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں؛ یعنی یہ کہ محور مقاومت روز بروز ترقی اور نشوونما کے مراحل سے گذر رہا ہے؛ معرکۂ سیف القدس اور محور مقاومت کی طرف سے جعلی یہودی ریاست پر مسلط کردہ نئے قواعد نے اس ریاست کو مجبور کیا ہے کہ مقاومت سے خوفزدہ رہے، تمام تر اقدامات مقاومت کے رجحانات کا ثمرہ ہیں، یہ محاذ فوجی لحاظ سے بھی اور سلامتی کے لحاظ سے بھی، مسلسل پیشقدمی کر رہی ہے، اور اس کے مقابلے میں، خطے میں امریکی منصوبہ مسلسل پسپا ہو رہا ہے۔