ڈاکٹر رجبی دوانی:

حسینی تعلیمات اور عاشورائی فکر کی رو سے اسلامی انقلاب کا مشن کیا ہے؟

اگر دوسرے ممالک اس سبق کو اچھی طرح سیکھتے تو وہ بھی تمام تر تباہیوں، سازشوں اور یلغاروں کا جم کر مقابلہ کرنے کی ہمت و جرات حاصل کرتے۔

فاران؛ گزشتہ سے پیوستہ؛

سوال: قیام امام حسین علیہ السلام کی تشریح کے سلسلے میں معاصر دینی علماء امام خمینی، امام خامنہ ای، شہید مطہری وغیرہ کے کردار کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
جواب: امر مسلّم ہے کہ اگر نامی گرامی علماء اور فقہاء شیعہ معاشروں میں اپنے مقام و منزلت کے ناطے، صحیح معنوں میں قیام امام حسین علیہ السلام کی تشریح کی سعی کریں تو ان کی کوششیں فلسفۂ قیام کے صحیح ادراک پر منتج ہوتا ہے اور لوگ اس قیام کو نمونۂ عمل قرار دے سکتے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی شخصیت ہے۔ وہ اسلامی انقلاب کے دوران، سیرت حسینیہ کی پیروی کرتے ہوئے طاغوت کے خلاف جدوجہد کے میدان میں اترے اور لوگوں کی راہنمائی کرکے اسی راہ پر گامزن کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے قیام کی روش اور آپ کی استقامت کی بنیاد پر اس تحریک کا آغاز کیا؛ چنانچہ جو لوگ روایتی عزاداری کے عادی ہوچکے تھے۔ انقلاب اسلامی کے دوران طاغوت کے خلاف عظیم ترین تحریک کا حصہ بن گئے اور پہلوی کی فاسد سلطنت کو اسی فکر اور تحریک نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جس کا آغاز امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے کیا تھا اور اسی فکر و قیام نے حکومت کا دھڑن تختہ کیا۔
شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تقاریر میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اسباب کریدتے ہوئے، اس مہم کے طرف اشارہ کیا تھا، تاہم شہید مطہری کا خطاب معاشرے کے عالم و دانشور طبقے سے تھا جن کی تعداد انقلاب سے پہلے کے [طاغوتی] دور اور انقلاب کے بعد کے پہلے برسوں میں، میں کم تھی اور ان لوگوں کا اثر و رسوخ بھی ان ادوار میں کچھ زیادہ نہ تھا؛ لیکن رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ تعالی کی تقاریر اور خطبات علماء اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ، عام لوگوں پر بھی اثر رکھتے تھے اور امام حسین علیہ السلام کی عاشورائی-کربلائی تحریک کی تشریح میں ان کا کردار بہت زیادہ مؤثر تھا جس نے مشہد سمیت ایران کے مختلف شہروں میں عظیم انقلابی لہریں پیدا کیں۔ انقلاب اسلامی کے بعد بھی – امام جمعہ کے عنوان سے بھی اور صدر اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب کے قائد و امام کے لحاظ سے بھی، بہت عمدہ اور قابل قدر تجزیوں کے سانچے میں مختلف زاویوں سے انقلاب امام حسین علیہ السلام کی تشریح کی اور ان کی یہ تشریح نہ صرف ایران میں بلکہ پوری دنیا میں بہت مؤثر تھی اور لوگوں نے اس انقلاب کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیا۔ عالمی اسلامی مزاحمت تحریک اس کا ایک نمونہ ہے۔
سوال: آپ کی نظر میں حسینی تعلیمات اور عاشورائی فکر کی رو سے اسلامی انقلاب کا مشن کیا ہے؟ آج کے معاشرے کے لئے عاشورا کے اسباق اور عبرتوں پر روشنی ڈالئے۔
جواب: انقلاب اسلامی اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ امام حسین علیہ السلام کے مکتب سے سبق لے کر، درپیش خطروں سے خوفزدہ ہوئے بغیر، ظلم جبر، فساد، بدعنوانی، ظلم و ناانصافی، دین میں انحراف اور بدعت گذاری کے مد مقابل کھڑا ہونا چاہئے، خواہ انسان بالکل تنہا اور بےیار و مددگار ہی کیوں نہ ہو۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: “چاہے خمینی تنہا ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی راہ حق پر اپنی حرکت کو جاری رکھے گا اور ہم امام حسین علیہ السلام کی مانند، اس انقلاب کے میدان میں اترے اور اس راستے پر بدستور گامزن رہیں گے”۔
چنانچہ اسلامی انقلاب نے کیل کانٹے سے لیس طاقتوں کے رعب و ہیبت کو توڑ کر رکھ دیا اور ثابت کرکے دیکھایا کہ اگر کوئی قوم الہی اور دینی اقدار پر یقین اور عظیم سماجی ذمہ داریاں نبھانے کی ہمت رکھتی ہو تو وہ مسلح ترین قوتوں کے سامنے جم سکتی ہے، خواہ اس کے پاس مقابلے کے لئے کافی وسائل کی قلت ہی کیوں نہ ہو۔ جی ہاں! یقینا بہت ساری سختیوں سے گذرنا پڑتا ہے لیکن اس جماؤ اور ٹہراؤ کا ثمرہ فتح اور کامیابی ہی ہے۔ جس طرح کہ امام حسین علیہ السلام فتح یاب ہوئے اور بنی امیہ کی بساط آپ کے پاک خون کی برکت سے لپٹ گئی اور آج کوئی بھی بنی امیہ کو یاد نہیں کرتا۔ چنانچہ ہمارا مشن اور ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ جس طرح کہ ہم اپنے انقلاب میں امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرکے کامیاب ہوئے ہیں، دوسری اقوام کو بھی یہ سبق منتقل کریں۔ گوکہ اگر کوئی ہمارے اسلامی انقلاب کی 43 سالہ تاریخ کا مختصر سا مطالعہ کرچکا ہو، وہ بخوبی اس حقیقت کا ادراک کرسکتا ہے کہ دشمنان دین و انسان کی طرف کے تمام خطرات اور دھمکیوں کے مقابلے میں، اس نظام اور اس کے عالم و فاضل رہبر امام خامنہ ای حفظہ اللہ تعالی کی کامیاب اور نتیجہ خیز استقامت کا سرچشمہ مکتب عاشورا ہے اور اس نظام اور اس کے امام کی استقامت نے اپنے دیو صفت اور دیوقامت دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا ہے اور کسی بھی بیرونی پشت پناہی کے بغیر، ان تمام سازشوں کے مقابلے میں جم کر کھڑا ہے۔
اگر دوسرے ممالک اس سبق کو اچھی طرح سیکھتے تو وہ بھی تمام تر تباہیوں، سازشوں اور یلغاروں کا جم کر مقابلہ کرنے کی ہمت و جرات حاصل کرتے۔ ہم نے دیکھا کہ مصر میں مصری طاغوت (حسنی مبارک) کے خلاف، اسلامی اور دینی محرکات کی بنا پر ایک انقلاب کا آغاز ہؤا اور ایک نام نہاد اسلامی حکومت بھی قائم ہوئی؛ لیکن چونکہ اس انقلاب نے مکتب امام حسین علیہ السلام اور اسلامی انقلاب کے تجربے سے فائدہ نہیں اٹھایا، اور انقلاب کے کرتے دھرتے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے کہ “اپنی بقاء کے لئے امریکہ اور یہودی ریاست (اسرائیل) کے ساتھ رابطہ رکھنا ضروری ہے”، لہذا یہ حکومت ایک سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکی اور سرنگوں ہوئی، اور نابود ہوگئی، اور پھر وہی طواغیت اقتدار پر قابض ہوئے اور عوام کی اسلامی جدوجہد اکارت ہوئی، حالانکہ ہمارا اسلامی انقلاب اللہ کے فضل و کرم سے اور 43 سالہ عاشورائی تفکر کی برکت سے، بد ترین سازشوں کے خلاف کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر محمد حسین رجبی دوانی جامعہ کے استاد اور تاریخ اسلام کے محقق ہیں۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی