حماس رہنما کا العالم کے ساتھ مکالمہ؛ پہلا حصہ

حماس کے خلاف برطانوی فیصلہ ناگزیر ناکامی کی راہ پر: اسماعیل رضوان

حماس کے خلاف برطانوی فیصلہ ناگزیر ناکامی کی راہ پر/ عرب اور مسلم اقوام برطانوی مصنوعات کا مقاطعہ کریں / صہیونی-یہودی ریاست معرکۂ "سیف القدس" کے بعد تنہا رہ گئی ہے

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فلسطین کی اسلامی مقاومت تنظیم حماس نے العالم چینل کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا: برطانیہ جنگی جرائم اور درندگیوں کی بنا پر صہیونی حکمرانوں پر مقدمہ چلانے کے بجائے، ظالم کو نوازتا ہے اور مظلوم کو سزا دیتا ہے۔
مورخہ 2 نومبر، کو یہودی-صہیونی ریاست کے قیام کی خاطر، برطانوی تاریخ کے شرمناک ترین “اعلامیہ بالفور” کے 104 برس پورے ہوئے؛ مگر برطانیہ نے اپنے اس شرمناک اقدام کی مذمت اور ملت فلسطین و دنیائے اسلام سے معافی مانگنے کے بجائے، اپنے ظلم و استعمار کی یاد میں ایک نیا استعماری اقدام کرتے ہوئے حماس کے نام کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں درج کیا۔
اسی مناسبت سے العالم چینل نے حماس کے ایک راہنما اسماعیل رضوان کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا۔ مکالمے کا متن درج ذیل ہے:
سوال: حماس کو دہشت گرد قرار دینے کے حوالے سے برطانوی فیصلے کے پہلؤوں پر روشنی ڈالئے۔
جواب: ابتدا میں تو میں اس نوجوان کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرتا ہوں جس نے قدس کے باب السلسلہ کے مقام پر شجاعت کا ثبوت دیتے ہوئے محلہ الشیخ جراح اور بیت المقدس میں ہماری قوم کے خلاف صہیونی ریاست کے مظالم کے جواب میں کاروائی کی۔ ہمارے خیال میں یا کاروائی اس حقیقت کا اظہار ہے کہ قدس اور مغربی پٹی مزاحمت کا سرچشمہ ہیں؛ اور جب تک کہ بیت المقدس کا اسلامی اور عربی تشخص ثابت نہ کروایا جائے، ان کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ کاروائی – جس میں ایک صہیونی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے – در حقیقت برطانوی جرم کا جواب سمجھی جاتی ہے جس نے غاصب ریاست کی جانبداری کرکے حماس کو دہشت گرد تنظیموں کے زمرے میں شمار کیا۔ برطانیہ نے یہ اقدام کرکے فلسطین کے خلاف اپنے سابقہ سازشوں اور اقدامات کے ریکارڈ میں ایک اور اضافہ کیا اور اپنی استعماری سوچ کا ثبوت دیا۔ فلسطین اور قبلۂ اول کے خلاف انگریزی سازشوں کا آغاز بالفور کے معاہدے سے ہؤا؛ انگریزوں نے ایسی سرزمین کو – جو ان کی سرزمین نہ تھی – ایسی جماعت کے سپرد کیا جو اس سرزمین کی مالک نہ تھی اور دینے اور لینے والے کا اس سرزمین پر کوئی حق نہ تھا۔ انھوں نے اس سرزمین پر قبضہ کرکے اور اس کا سرپرست بن کر، اپنے جرائم کا آغاز کیا اور اسے صہیونیوں کے سپرد کرکے اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھا۔
برطانیہ نے ملت فلسطین کے خلاف بے شمار جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، ہر قسم کے مصائب کے پہاڑ ہمارے عوام کے سر پر ڈھا دیئے ہیں، ہمارے عوام کا قتل عام کیا ہے، انہیں جبر و ستم کا نشانہ بنایا ہے، اپنے وطن سے زبردستی چلے جانے پر مجبور کیا ہے، ہمارے آبا‏ء و اجداد کو ان کے اپنی سرزمین سے نکال باہر کیا ہے اور آج بجائے اس کے، کہ اپنے جرائم کے عوض ملت فلسطین سے معافی مانگے، اپنی پیدا کردہ تباہیوں کا ازالہ کرے، اور صہیونی ریاست کو سزا دلوائے، بالفور معاہدے کے مہینے [نومبر] میں ایک نئے جرم کا مرتکب ہؤا ہے۔ جی ہاں، برطانیہ نے آج بھی اپنی نسل پرست نوآبادیاتی ذہنیت کی تصدیق کی ہے۔
ہم اس استعماری فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ یہ اقدام در حقیقت فلسطینی عوام کے خلاف تمام تر نئے صہیونی جرائم کے لئے ہری بتی دکھانے کے مترادف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ برطانیہ یہ اقدام کرکے غاصب ریاست کے موجودہ اور آئندہ جرائم میں شریک ہوچکا ہے؛ ہم انگریزی حکومت سے کہتے ہیں کہ اس کا یہ اقدام اسلامی مزاحمت کو اپنے راستے سے منحرف نہیں کرسکے گا؛ مقبوضہ سرزمین میں مزاحمت بدستور جاری ہے اور ہمارے مجاہدین کی جدوجہد اس انگریزی اقدام کا حقیقی جواب ہے؛ کیونکہ ہماری مزاحمت بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق بالکل جائز ہے۔
ہم اپنی مزاحمت (مقاومت) جاری رکھیں گے؛ انگریز نے حماس کو نئے ظلم کا نشانہ اس لئے بنایا کہ حماس تحریک، اسلامی مزاحمت کے تیر کی نوک سمجھی ہے۔ انگریزوں نے صرف اور صرف فلسطینی مزاحمت کو نشانہ بنایا ہے، لیکن ہم کہتے ہیں کہ برطانوی فیصلہ ایک کاغذ پر لگی کچھ روشنائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔