حماس رہنما کا العالم کے ساتھ مکالمہ؛ تیسرا حصہ

حماس کے خلاف برطانوی فیصلہ نسل پرستانہ اور فسطائی فیصلہ ہے

ہم برطانیہ میں ایک پرامن اور قانونی تحریک کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ وہ عرب اور مسلم مہاجرین جو برطانوی شناختی کارڈ کے حامل ہیں، اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف عدالتوں سے شکایت کریں کیوں کہ یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین سے تضاد رکھتا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حماس کے رہنما اسماعیل رضوان کے ساتھ خصوصی گفتگو کا تیسرا حصہ؛

سوال: تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ برطانوی اقدام برطانیہ سمیت یورپی ممالک کی اکثریتی آبادی نیز حرت پسندوں کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جو صرف اور صرف جانسن کی قیادت میں دائیں بازو کی انتہاپسند برطانوی حکومت کا ذاتی یا جماعتی موقف ہے؟

جواب: یہ برطانوی فیصلہ ایک فاشسٹ اور نسل پرست حکومت کا نسل پرستانہ اور فسطائی [Fascistic] فیصلہ ہے؛ برطانیہ میں حالت یہ ہے کہ اس میں رہائش پذیر عرب اور مسلمان باشندے بھی نسلی امتیاز پر مبنی پالیسیوں اور رویوں کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
ہم برطانیہ کے حریت پسند عوام کو دعوت دیتے ہیں کہ اس فیصلے کو مسترد کریں اور بالفور کے اعلامیے سے لے کر آج تک کے برطانوی جرائم اور مظالم کی مذمت کریں اور برطانوی پارلیمان میں اس فیصلے سے پسپائی اور اس کی عدم منظوری پر زور دیں، کیونکہ یہ فیصلہ برطانیہ عالم عرب اور عالم اسلام کے مد مقابل لا کھڑے کرے گا، وجہ یہ ہے کہ عالم عرب سمیت دنیائے اسلام فلسطین کے مسئلے سے دلچسپی رکھتی ہے، اسلامی محاذ مزاحمت سے محبت کرتی ہے اور دنیا بھر کے مسلمان جانتے ہیں کہ حماس عرب اور مسلم دنیا کا ایک اہم ستون سمجھی جاتی ہے، اور فلسطینی آبادی کا ایک بڑا حصہ حماس ہے۔
چنانچہ اسی سلسلے میں ہم فلسطینی اور اسلامی جماعتوں، تحریک مزاحمت اور فلسطینی قوم کے تمام طبقوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں حماس کو گلے لگایا، اس کی حمایت کی اور برطانوی حکومت کے فیصلے کی مذمت کی کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ برطانیہ کا اصل نشانہ فلسطینی قوم ہے۔ حماس شفاف انتخابات کے نتیجے میں میدان میں اتری ہے اور پوری دنیا نے اس کی شفافیت کو دیکھا اور محسوس کیا۔ برطانیہ اس اقدام کے ذریعے فلسطینی عوام کو ان کے انتخابوں [choices] کے سلسلے میں الجھاؤ اور پریشانی سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ یہ ظالمانہ فیصلہ اس مقدس سرزمین پر رہنے والے ہر فلسطینی فرد کے خلاف اعلان جنگ اور آزادی اور جمہوریت کی مخالفت کا اعلان ہے۔ چنانچہ ہم برطانیہ کی حریت پسند قوم کو دعوت دیتے ہیں کہ اس نسل پرستانہ فیصلے کو مسترد کریں کیونکہ اس فیصلے کی صورت میں ان کے ملک اور حکومت کو ہمارے تمام عرب اور مسلمان برادران کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہم عرب اور مسلم اقوام کو برطانوی مصنوعات کے مقاطعے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ برطانیہ کو اپنے جرائم کا ادراک کرسکے اور جان لے کہ فلسطین دنیا بھر کے عربوں اور مسلمانوں کے دلوں میں رہتا ہے اور صہیونیوں کے ساتھ سازباز کرنے اور مبینہ طور پر حالات معمول پر لانے والی کمزور اور بلا ارادہ عرب حکومتیں، عربوں اور مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتیں؛ ایسی غیر منتخب حکومتیں جو اپنی سرحدوں کے اندر رہنے والے عوام کی ترجمانی نہیں کرتیں؛ یہ حکومتیں زوال کی ڈھلان پر لڑھک رہی ہیں جس طرح کہ یہودی ریاست بھی رو بہ زوال ہے۔ عرب اور مسلم اقوام کے دل فلسطین کی محبت وحمایت کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مسلمانان عالم صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے رجحان کو مسترد کرتے ہیں۔ اور ہم دنیا بھر کے عرب اور مسلم قانون دانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ قانونی جنگ لڑ کر اس برطانوی اقدام سے نمٹ لیں۔
ہم بین الاقوامی حلقوں کو دعوت دیتے ہیں کہ انگریزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف موقف اپنائیں، کیونکہ یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، اور بین الاقوامی قوانین نے قابض قوتوں کے خلاف جدوجہد کو جائز قرار دیا ہے، اور جب تک کہ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ جاری رہے گا، مزاحمت جاری رہے گی۔
علاوہ ازیں، برطانیہ پر – بالفور معاہدے کے تحت کئے گئے مظالم اور جرائم کی بنا پر – مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔ اس زمانے [یعنی بیسویں صدی کی دوسری دہائی] میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا اور اسے صہیونیوں کی تحویل میں دے دیا۔ برطانیہ کا دوسرا بڑا جرم اس کا حالیہ فیصلہ ہے جو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مصائب، کشت و خون اور ہلاکت خیز المیوں کا سبب بنے گا۔
برطانیہ، جس نے ہمارے خطے کے ممالک پر قبضہ کرکے عرصے تک بہت سی قوموں پر ظلم و جبر روا رکھا، آج ایک نئے جرم کا مرتکب ہؤا ہے اور ان جرائم سے اس کو باز آنا چاہئے اور علاوہ ازیں اپنی ماضی کی غلطیوں اور جرائم کا ازالہ کرنا چاہئے۔
اتحاد و اتفاق اس فیصلے سے نمٹنے اور فلسطین کاز کو درپیش تمام چیلنجوں اور خطروں کا مقابلہ کرنے کی اہم ترین ضمانت ہے
ہم نے خود مختار فلسطینی اتھارٹی سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اس فیصلے کی مخالفت کو آگے بڑھانے کے لئے اپنا رد عمل ظاہر کرے؛ کیونکہ یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے اور کئی ممالک میں فلسطینی اتھارٹی کے سفارت خانے اور نمائندہ دفاتر ہیں اور وہ – فلسطین اور اس کے عوام کے خلاف جنگی جرائم اور غیر انسانی اقدامات کے الزام میں – برطانیہ پر مقدمہ کے لئے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے شکایت کرسکتی ہے۔
نیز ہم عرب اور اسلامی حکومتوں اسلامی تحریک مزاحمت کے حامی عرب اور اسلامی ممالک سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے کی منسوخی کے لئے برطانوی حکومت پر دباؤ ڈالیں اور سیاسی و قانونی اقدامات عمل میں لائیں۔
اسلامی اور عرب ممالک کے عوام سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اس فیصلے کے خلاف اسلامی تحریک مزاحمت کی مدد کو آئیں اور برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ کیونکہ جب برطانوی اس یقین تک پہنچیں کہ اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا جس کی وجہ سے ان کے ملک کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تو مسلم ممالک کے عوام کا یہ فیصلہ ممکن ہے کہ برطانویوں کو اپنے فیصلے سے پسپائی پر مجبور کرسکتا ہے؛ نیز محور مقاومت (Axis of the Resistnce) کو بھی چاہئے کہ برطانیہ کا سیاسی مقاطعہ کرلیں، جو صہیونی ریاست کا حامی اور امریکہ کے بعد اس علاقے میں شر اور بدی کی علامت ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی تمام قانون دانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ سیاسی اور قانونی تحریکوں کا آغاز کرکے اس فیصلے کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں اور فلسطین، حماس اور اسلامی مزاحمت کے جھنڈے اٹھا کر اس فیصلے کی مخالفت کریں۔
ہم برطانیہ میں ایک پرامن اور قانونی تحریک کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ وہ عرب اور مسلم مہاجرین جو برطانوی شناختی کارڈ کے حامل ہیں، اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف عدالتوں سے شکایت کریں کیوں کہ یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین سے تضاد رکھتا ہے۔
برطانیہ اس وقت اسلامی مزاحمت اور حماس کے حوالے سے بین الاقوامی رائے عامہ میں تبدیلیوں کو نمایاں طور پر دیکھ رہا ہے اور حماس کے راہنماؤں سے بہت سے بین الاقوامی اور یورپی راہنماؤں کی ملاقاتوں کو دیکھ کر خطرہ محسوس کررہا ہے کیونکہ حماس مزاحمت کی پابند ہے اور صہیونی ریاست کے خلاف جدوجہد کی راہ میں اچھی خاصی پیشرفت کررہا ہے۔ چنانچہ برطانیہ اپنے خطے اور فلسطینی سرزمین میں میں اپنے مبینہ بیٹے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑا ہؤا ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ برطانوی فیصلہ منسوخ ہوگا اور اس کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ حماس اور فلسطینی مزاحمت، سرزمین فلسطین میں بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق قابض قوتوں کے خلاف جدوجہد کررہی ہے۔

جاری۔۔۔