سازش کا نظریہ قبول کرنا لوگوں کے لئے حقیقت قبول کرنے سے زیادہ آسان

بہت سارے مسلمان بھی سازشوں سے دوچار ہوئے کیونکہ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ دوسرے مسلمان ایسا کام بھی کر سکتے ہیں! یہ مسئلہ یہودیوں اور ریاست ہائے متحدہ کے سلسلے میں دوسری سازشوں کا سبب بنا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: 11 ستمبر کے حملوں کے سلسلے میں ابھی تک سازش کے نظریئے پر زور کیوں دیا جا رہا ہے اور بعض لوگ اس کو کیوں قبول کرتے ہیں؟
جواب: بہت سارے لوگ ابھی تک تصور نہيں کر سکتے کہ اس طرح کا حملہ ممکن ہے! وہ کئی چیزوں پر یقین نہیں کر سکتے: 1۔ امریکہ اس قدر زد پذیر تھا؛ 2۔ حکومت اس قدر طاقتور نہ تھی اور یہاں تک کہ ان حملوں سے آگاہ نہ تھی؛ 3۔ دنیا کے لوگ امریکیوں سے اس قدر نفرت کرتے ہیں اور 4۔ اتنے سارے انسان اس انداز سے نشانہ بن گئے۔
بہت سارے مسلمان بھی سازشوں سے دوچار ہوئے کیونکہ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ دوسرے مسلمان ایسا کام بھی کر سکتے ہیں! یہ مسئلہ یہودیوں اور ریاست ہائے متحدہ کے سلسلے میں دوسری سازشوں کا سبب بنا۔
چونکہ اس طرح کے خیالات لوگوں میں سے بعض کے لئے ناقابل یقین ہیں، لہٰذا لوگوں کو اپنے ذہن کے لئے (حقائق) سے فرار ہونے کی ضرورت ہے۔ وہ ترجیح دیتے ہیں کہ ایک عجیب سازش کا یقین کر لیں اور یہ حقیقت ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ یہ حملہ ایک حقیقت ہے اور یہ مسئلہ ایک مختصر سے فوجی اقدام کے ذریعے قابل حل نہیں ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں – اسامہ بن لادن کی موت اور مشرق وسطیٰ میں داعش کی شکست کے باوجود – دہشت گردی پھر بھی دنیا میں ایک بڑے چیلنج کے طور پر کیوں باقی ہے؟
جواب: دہشت گردی دوسری بیماریوں کی علامت ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کے عمائدین کو منظر سے ہٹا کر ان تنظیموں کے اثرات کو تو کم کیا جاسکتا ہے لیکن دہشت گردی کی فکر اور محرکات کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ عراق اور شام میں استحکام کا قیام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے جو لوگوں کو یہ امکان فراہم کر سکتا ہے کہ وہ پاگل انتہاپسند ٹولوں کے بجائے ایک حقیقی حکومت پر اعتماد کریں۔
مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے عوام کی تعلیم و تربیت اور روزگار کی سہولیات کی فراہمی بہت اہم ہے؛ رفتہ رفتہ لوگ دیکھ لیں گے کہ معمول کا معاشرہ وہی چیز ہے جس کی انہیں ضرورت تھی، حہاں نہ تو خوف و ہراس ہے جو کہ داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد ٹولوں کا “مال تجارت” ہے۔ یہ دہشت گرد ٹولے صرف اس وقت کشش رکھتے ہیں جب لوگ محسوس کریں کہ حکومت، معاشرہ اور موجودہ مذہبی نیٹ ورکس – متعلقہ معاشروں کا حصہ ہیں – ان کے مسائل اور مشکلات سے بے رخی برتتے ہیں۔
کبھی ہم نوجوان مردوں کی نئی دنیا – جس میں عورتیں تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار ہیں – سے اس قدر ڈرتے ہیں کہ وہ اسلام کی انتہاپسندانہ تشریحات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں، اور معاشروں کو سینکڑوں برس قبل کے حالات میں پلٹانے کی کوشش کرنا شروع کرتے ہیں۔ یہ روش مؤثر نہیں ہے۔ اور آخرکار معاشرے مجبور ہوجاتے ہیں کہ ان بالغ دہشت گردوں کے – جو معاشرے میں واپس آنے کے روادار نہیں ہیں – اقدام کریں۔
ان میں سے کچھ لوگوں کی بحالی (rehabilitation) ممکن ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں ہوتی؛ بحالی کے حوالے سے دہشت گردوں کی خواتین اور بچوں کو ترجیح دینا چاہئے۔ خواتین اگلی نسل کی تریبت کرتی ہیں اور اگر ہم ان کی تعلیم و تربیت کے لئے بہتر راستہ تلاش نہ کریں ایک تین سالہ بچہ 10 سال کے عرصے میں دہشت گرد بن سکتا ہے۔ دہشت گردی کے طویل المدت خطرے سے نمٹنے کے لئے، ہمارے ممالک کی پالیسیوں کو زیادہ طویل المدت اور تزویراتی منصوبہ بندی کا اہتمام کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکالمہ: محمد حسن گودرزی، قرآنی خبر ایجنسی، اکنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ کیون آنون QAnon[a] (/ˈkjuː.əˌnɒn/) خفیہ امریکی حکومت کی طرف کی مبینہ “سازش کی تھیوری” جو امریکی اسٹیٹ-نیشن کے خلاف سرگرم عمل ہے۔۔۔ سنہ 2017ع‍ کے بعد سے امریکی انتہائی دائیں بازو کے سیاسی شعبے سے متعلق ایک امریکی سیاسی سازشی نظریہ اور سیاسی تحریک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سازش ایک نامعلوم فرد یا افراد نے تیار کی ہے جس کا نام Q ہے۔ ان دعؤوں کو تحریک سے وابستہ برادریوں اور بااثر افراد کے ذریعے پیش کرکے مکمل کیا گیا ہے۔ بنیادی QAnon تھیوری یہ ہے کہ شیطانی، آدمخوار جنسی بدسلوکی کرنے والے اور بچوں کی جنسی اسمگلنگ کرنے والے حلقے کے کرتے دھرتوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ کے خلاف سازش کی۔ کیو آنون کی براہ راست جڑیں (Pizzagate conspiracy theory) میں پیوست ہیں، ایک انٹرنیٹ سازشی تھیوری جو کیو آنون کے معرض وجود میں آنے سے ایک سال قبل ظاہر ہوئی تھی۔ اس میں کئی دیگر نظریات کے عناصر بھی شامل ہیں۔ بعض ماہرین نے کیو آنون کو ایک فرقہ قرار دیا ہے۔