یہود اور فحاشی وعریانی کا پرچار؛

شیطان پرستانہ افکار مغرب میں بے لگام جنسی بے راہروی کی جڑ

جو کچھ شیطان پرستانہ فرقوں کے بارے میں ذکر ہؤا، ان کا پرچار مغرب میں بھی اور مشرق کے مغرب نواز ممالک (جنوبی کوریا اور جاپان) میں ـ پورنوگرافی ہی صورت میں ہی نہیں بلکہ سینماؤں میں دکھائی جانے والی فلموں کی صورت میں، ـ ہو رہا ہے، جن کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا۔ وہ مختلف النوع گناہ اور جرائم ـ جو مغربی معاشروں میں مقدس بن رہے ہیں، اور مغربی معاشروں کے آداب و رسوم بن گئے ہیں اور آج جو ان کبائر کی مخالفت کرے وہ سزا کا مستحق ٹہرتا ہے، ان کی جڑیں تھیلیما سمیت شیطان پرستی کے فرقوں کے افکار میں پیوست ہیں۔ گوکہ جنسی جادو صرف تھیلیما کے لئے مختص نہیں ہے بلکہ وکا (Wicca) نامی فرقے میں رائج ہے۔

فاران: عرصہ ہؤا کہ عالم اسلام کے مختلف ممالک کو بطور خاص، دشمنان اسلام کی چند پہلو ترکیبی یلغار کا سامنا ہے۔ یقینا اس جنگ کا ایک اہم ترین پہلو ثقافتی یلغار ہے۔ مغرب کی مقبول ابلاغیاتی اور تزویراتی مصنوعات ـ جن کے دیکھنے اور سننے والے ہمارے ممالک میں بھی کم نہیں ہیں ـ کا جائزہ لے کر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان مغربی مصنوعات کا مرکزی نقطہ “جنسی بے راہ روی” کی ترویج ہے۔ بے شک بے حیائی کا پرچار اور حجاب کے خلاف وسیع ابلاغیاتی جنگ اسی جنسی بے راہ روی کی تمہید ہے۔
ان مصنوعات کا اصل ذریعہ یا تو مغربی ممالک ہیں یا وہ ممالک اور ریاستیں ہیں جو مغرب کے فکری نوآبادیات میں شمار ہوتی ہیں جہاں فحش نگاری (پورنوگرافی) شرمناک ہی نہیں بلکہ ایک صنعت بن چکی ہے۔ امریکہ میں فحش نگاری کی صنعت سے حاصل آمدنی کا تخمینہ 15 ارب ڈالر ہے۔ جبکہ اسی صنعت سے ـ فلمیں فراہم کرنے والی کمپنی نیٹ فلکس (Netflix, Inc) کی ـ آمدنی 12 ارب ڈالر اور ہالی ووڈ کی آمدنی 11 ارب ڈالر ہے۔ (1)


البتہ “جنسی بے راہ روی” (Sexual corruption) کی برائی زائل کرنے کے لئے ہونے والے یہ اقدامات مرد اور عورت کے باہمی تعلق تک محدود نہیں ہیں بلکہ اکثر مغربی ذرائع ابلاغ محرم اور نامحرم مرد عورتوں کے مابین تعلق، مرد اور مرد اور عورت اور عورت کے مابین تعلق، مرد اور اشیاء اور عورت اور حیوانات وغیرہ کے مابین تعلق کو معمول بنا رہے ہیں۔ نہ صرف فحش نگاری پر مبنی فلموں (2) میں بلکہ ہالی ووڈ کی مشہور فلموں نیز گیم آف تھرونز (Game of Thrones) اور وایکنگز (Vikings) جیسے سلسلہ وار ڈراموں میں بھی ہم بے لگام جنسی بے راہ روی اور یقیناً ناجائز تعلقات کی ترویج دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ذہنی طور پر ناظرین، ہم جنس بازوں، جنسی زیادتی کرنے والوں اور زناکاروں کے کرداروں میں سما جانا، چاہنے لگتے ہیں۔ (3)
علاوہ ازیں 35 فیصد ڈاؤنلوڈ ہونے والی فلمیں فحش نگاری پر مبنی تھیں (4) اور امریکہ میں ـ جو مبینہ طور پر دنیا کا تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ملک ہے ـ ہر ثانیے میں ہزاروں افراد انٹرنیٹ پر پورنوگرافی دیکھتے ہیں، اور فحش نگاری پر مبنی مواد حاصل کرنے کے لئے 3000 ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ امریکہ میں روزانہ 37 پورن فلمیں بنتی ہیں اور فحش نگار ویب گاہوں سے رجوع کرنے والے چار کروڑ افراد میں سے کم از کم دو لاکھ افراد اس قسموں کی فلمیں دیکھنے کی لت میں مبتلا ہیں۔ (5) امریکہ میں البتہ فحش نگاری کے خلاف مہم بھی چلائی گئی لیکن بدقسمتی سے ناکام رہی۔
دریں اثناء پورن ہب (porn hub) ویب گاہ کی 2022ع‍ کی ایک رپورٹ مطابق، فحش نگاری پر مبنی فلمیں دیکھنے والے ممالک میں امریکہ ، برطانیہ، فرانس، جاپان، میکسیکو ، اٹلی جرمنی، اور کینیڈا پہلے سے آٹھویں نمبر تک ہیں۔
واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار اور رپورٹیں ان فلموں کے بارے میں ہیں جو براہ راست جنسی مواد پر مشتمل ہیں، اور ان فلموں، سیریل ڈراموں، کمپیوٹر گیمز، مقبول مزاحیہ پروگراموں اور موسیقی کے ویڈیو کلپس ـ جو جنسی مناظر پر مشتمل ہیں ـ کو پورنوگرافی کے زمرے میں شمار نہیں کیا گیا ہے۔
بدقسمتی سے اس مسئلے نے مشرقی ممالک کی انیمیشن صنعت تک بھی سرایت کی ہے اور متأسفانه این مسأله به صنعت-رسانه‌ی انیمه در شرق نیز سرایت کرده و علاوه بر چند ژانر مستقیم پورنو در انیمه‌ها، همجنس‌بازی به‌طور گسترده‌ای در انیمه‌ها تبلیغ و ترویج می‌شود.
بدقسمتی سے، یہ مسئلہ مشرقی اینیمی ابلاغی صنعت (Anime Media Industry) تک بھی سرایت کر چکا ہے، اور اینیمی میں متعدد براہ راست فحش مناظر کے علاوہ، اینیمیشن فلموں میں ہم جنس پرستی کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ (6)

مغرب میں جنسی بے راہ روی کا فروغ کیوں؟
اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ، یہ ہے کہ بے لگاہ جنسی بے راہ روی کی جڑوں کا سراغ لگانے کے لئے اس کی نظریاتی (Ideological) لحاظ سے دیکھا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا مذہب “نفس پرستی” یعنی “خود” (Self) نے خدا کی جگہ اور “نفس امارہ” نے “نفس لوامہ” کی جگہ لے لی ہے۔
یہ مغربی طرز عمل ـ (یعنی اخلاقی اور جنسی اخلاقیات سے عاری پن) جس کو وه کھلی آزادی (Libertinism)، [مبینہ] انسان پرستی (Humanism) یا لیبرٹی (Liberty) کا نام دیتے ہیں، ـ من حیث المجموع شیطان پرستی سے مستعار لیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ آلسٹر کرولی (Aleister Crowley = Edward Alexander Crowley) نے اپنے شیطانی دین کے تمام قوانین کا خلاصہ اپنی کتاب “جو چاہو [یعنی جو تمہارا نفس چاہے]، کرو” (Do what thou wilt) میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ بحیثیت مجموعی یہ “جنسی بے راہ روی” نفس اور شیطان کو مکمل آزادی دینے کا نتیجہ ہے۔
لیکن دلچسپ امر ہے کہ شیطان پرستی کے فرقوں میں مذہب تھیلیما (Thelema) ـ جو اپنے بعد کے عشروں میں مغربی دانشوروں اور شیطان پرست فرقوں کے درمیان بہت مقبول اور مؤثر واقع ہؤا ـ میں جنسی جادو (Sex magic) کے لئے ایک خصوصی فائل کھولی گئی ہے۔
اما جالب توجه است که در مکتب شیطانی «تلما» (Thelema) که در بین نخبگان غربی و فرقه‌های شیطان‌پرستی در دهه‌های بعد از خود بسیار مؤثر بوده است، پرونده‌ی ویژه‌ای برای «سکس مجیک» (Sex magic) یا «جادوی جنسی» باز شده است.

یہ کچھ کتابیں ہیں جو جنسی جادو کے موضوع لکھی گئی ہیں

لیکن چونکہ مذہب تھیلیما آج کے زمانے کے شیطان پرست فرقوں کے لئے ایک نظریاتی بنیاد سمجھا جاتا ہے، اس فرقے کے بانی کے افکار کا تعارف ضروری ہے۔
کلی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ “عورت کی آزادی” کے عنوان سے اٹھنے والی تحریکوں کا مقصد انسان کو خدا سے دور کرکے “نفس امارہ” کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ اور یہ تحریکیں ـ ابتداء میں اصولوں کے اندر اور دوسرے مرحلے میں آداب اور رسومات کے اندر ـ مکمل اور بلاواسطہ طور پر ـ ان شیطانی رسومات و مکاتب کے زیر اثر ہیں۔
دوسرے لفظوں میں، اسلامی حجاب، محدود شدہ جنسی تعلقات وغیرہ جیسے مباحث و موضوعات نہ صرف دنیا کے تمام ادیان و مذاہب میں پائے جاتے ہیں بلکہ یہی مباحث متعلقہ مکاتب کے الٰہی یا شیطانی ہونے کو بھی نمایاں کرتے ہیں؛ اور کہیں دیکھا جائے کہ کہ کچھ لوگ “آزادی” کے نعرے کی آڑ میں بے حیائی، اخلاقی برائیوں اور جنسی بے راہ رویوں کے فروغ اور جنسی بے راہ رویوں کو معاشروں کا معمول بنانے کے درپے ہیں تو جان لینا چاہئے کہ وہ شیطان پرستانہ رسومات کی ترویج کے راستے پر گامزن ہوئے ہیں، خواہ وہ یہ سب جانتے ہوں خواہ نہ جانتے ہوں۔
جنسی جادو اور تھیلیما
جنسی جاود ایک عمل یا رسم ہے جو مغرب کے بہت سارے باطنی، جادوئی اور افسانوی فرقوں میں رائج ہے۔ مشرقی مندر تنظیم (Oriental Temple Organization [O.T.O]) نامی فرقے میں بھی تھیلمائی رسومات کے پیش نظر، یہ جنسی جادوئی اعمال و رسومات رائج ہیں۔ یہ فرقہ بہت سے ممالک میں ہے اور اس نے امریکہ میں بھی شور مچا رکھا ہے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں ـ جب معاشرتی روایات جنسی آزادی کے خلاف تھیں، تھیلیما نے جنسی اعمال کے سلسلے میں بہت سی حدود کو روند ڈالا۔ (7)

مشرقی مندر تنظیم [O.T.O] علامت
جیسا کہ ہم جانتے ہیں تھیلیما کی رسم کو السٹر کرولی نے [غیر مسلم] مشرقی اور مغربی فرقوں کے ساتھ اکٹھا کرکے، ایجاد کیا۔ کرولی فری میسنری، یہودی قبالہ، تانترا، یوگا اور بطور خاص قدیم مصر کی مشرکانہ رسومات سے متاثر تھا۔ (8) کرولی اپنی کتاب “کتاب قانون” (The Book of the Law) کو اس جملے سے شروع کیا ہے:
“جو کرنا چاہو کر لو، یہ قانون کے مطابق ہے”، پیار قانون ہے”، پیار ارادے کے تحت” (“Do what thou wilt shall be the whole of the law” – “Love ist the Law, Love under Will”) (9) ارادہ اس جملے میں نفس امارہ ہے، کرولی کا مبینہ پیار بھی “جنسی پیار” ہے۔ (10)

کرولی نے جنسی جادو پر مرکوز ہوکر، سیکس کو انسان کا سب سے اندرونی ذاتی حصہ قرار دیتا ہے۔ (11) اور اس کی رائے ہے کہ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ جس طرح کہ اس کی جبلت کا تقاضا اور اس کی جسمانی فعلیات (Physiology) کے لئے مناسب ہے، اسی طرح جنسی عمل کا اہتمام کرے۔ اس سلسلے میں واحد امر واجب یہ ہے کہ اس عمل کو ایک دینی رسم یا مقدس مناسک کے طور پر منایا جائے۔ (12)
کراولی کا خیال یہ ہے کہ “بابالون” (Babalon) ایک “مقدس فاحشہ عورت” کے طور پر اور “تھیریون” (Therion) ایک انتہائی پرانے وحشی جانور کے طور پر ایک جنسی جوڑے کو تشکیل دیتے ہیں۔
کرولی کہتا ہے کہ بابالون نہ صرف ایک بابلی فاحشہ عورت ہے جس کی طرف کتاب مقدس میں اشارہ ہؤا ہے، بلکہ وہ عورت کی مکمل جنسی آزادی [اور بے راہ روی] کی علامت بھی ہے۔ (13)

تھیلیما کی مؤنث شیطان تھیلیما کی مونث شیطان یا دیوی بابالون (Babalon Scarlet Woman) جس کو سرخ پوش فاحشہ اور پلیدیوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ بابالون تھیلیما فرقے میں جنسی جذبے کی ترجمانی کرتی ہے۔

تھیلیما فرقے کا مذکر شیطان
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ کرولی کئی مرتبہ “ارادے” کے بجائے [جو تھیلیما کے مرکزی مفہوم میں نفس امارہ ہی ہے] اس کو “مذکر کا آلہ تناسل” یا “مونث کا آلہ تناسل” کے عنوان سے بروئے کا لاتا ہے (14) جو اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر جنسی مسائل میں پوری طرح الجھا ہؤا ہے؛ اور پھر لفظ “ارادہ” کے لئے اس طرح کی چیزوں کو متبادل کے طور پر استعمال کرکے کرولی کے ہاں کے “ارادے” کی واضح تشریح سامنے آتی ہے۔
جنسی جادو اور کرولی
کرولی تھیلیمائی جنسی جادو کے اعمال میں مشرقی اور مغربی رسومات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ تھیلیما میں جنسی جادو کی تعریف “ایک فرد کے ارادے کا تیزرفتاری سے ظہو پذیر ہونا” ہے۔ (15)
یہاں پھر زور دے کر کہتے ہیں کرولی کے ہاں کا ارادہ درحقیقت “نفس امارہ” ہے جو خدا سے بالکل منقطع اور جدا ہے۔ کرولی جنسی لذت کے عروج کو “جادوئی قوتوں” کے حصول کا سنہری موقع سمجھتا ہے۔ (16) اس کے خیال میں اس لمحے انسان جنّی شیاطین کا سہارا بھی لے سکتا ہے اور ان پر مرکوز ہر ان موجودات خبیثہ کو حاضر کیا جا سکتا ہے۔ (17) باطنی شیطانی فرقے اپنے بعض جادوئی اعمال کو خون، ٹٹی اور منی جیسے نجاسات کے ساتھ تعلق جوڑ کر انجام دیتے ہیں۔
اور ہاں، کرولی جنسی جادو کو دو مخالف جنسوں کے ملاپ سے مختص نہیں سمجھتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ جنسی جادو جلق یا استمناء (masturbation) کے ذریعے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ “اگر جنسی عمل ایک ہم جنس کے ساتھ ہو تو اس کے تقدس میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا”۔ (18)


وہ اس شیطانی عمل کی انجام دہی کے لئے کچھ شرائط بھی متعین کرتا ہے، جیسا کہ اس شیطان رسم میں “روشنی کا کیک” (Cake of Light) کھایا جائے جو کہ ابرامیلین کے تیل (Abramelin oil) (مرد اور عورت کے سیال جنسی مادہ) سے اور حیض کے خون سے تیار کیا جاتا ہے۔ (19) وہ کہتا ہے کہ ان نجاستوں کا کھانا، عیسیٰ مسیح کے آخری کھانے (Last Supper) سے تشبیہ دیتا ہے جس کے دوران عیسائی مذہب کے پیروکار روٹی اور شراب استعمال کرتے ہیں۔ اور اس شیطانی مکتب میں اس کا خیال ہے کہ یہ روشنی کا کیک کھانے سے، اس کا جسم و روح تھیلمیائی خدا یعنی “ابلیس” سے مالامال ہو جاتا ہے۔ (20)

وہ نجاست، جو شیطان “روشنی کے کیک” کے طور پر اپنے پیروکاروں کو کھلاتا ہے
یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرولی کے ان شیطانی احکامات اور ہمجنس پرستی، نجاست خوری اور جنسی بے راہروی کو جائز قرا دینے کے ساتھ ساتھ، یہ شخص 22 سال کی عمر میں آکسفورڈ میں ایک جونیئر طالب علم کا فریفتہ ہو گیا تھا اور اس کے لئے شاعری بھی کی تھی۔ (21)
حقیقت یہ ہے کہ مغرب نہ چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے بھی، ہم جنسی پرستی، جلق، اور بقیہ جنسی بے راہ رویوں کی تشہیر و ترویج کرکے، تھیلیما نامی شیطان پرستانہ فرقے کو فروغ دے رہا ہے، اور مغرب ہی پوری دنیا میں شیطانی اعمال کے فروغ کے لئے ایک آلہ کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
خلاصہ
جو کچھ شیطان پرستانہ فرقوں کے بارے میں ذکر ہؤا، ان کا پرچار مغرب میں بھی اور مشرق کے مغرب نواز ممالک (جنوبی کوریا اور جاپان) میں ـ پورنوگرافی ہی صورت میں ہی نہیں بلکہ سینماؤں میں دکھائی جانے والی فلموں کی صورت میں، ـ ہو رہا ہے، جن کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا۔ وہ مختلف النوع گناہ اور جرائم ـ جو مغربی معاشروں میں مقدس بن رہے ہیں، اور مغربی معاشروں کے آداب و رسوم بن گئے ہیں اور آج جو ان کبائر کی مخالفت کرے وہ سزا کا مستحق ٹہرتا ہے، ان کی جڑیں تھیلیما سمیت شیطان پرستی کے فرقوں کے افکار میں پیوست ہیں۔ گوکہ جنسی جادو صرف تھیلیما کے لئے مختص نہیں ہے بلکہ وکا (Wicca) نامی فرقے میں رائج ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات و مآخذ:

1. https://www.theguardian.com/commentisfree/2018/dec/30/internet-porn-says-more-about-ourselves-than-technology
2۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی 20 ویب سائٹوں میں سے تین ویب گاہیں مکمل پورنو گرافی کے لئے مختص ہیں، جن میں سے بعض کچھ انجنز ہیں اور کچھ انسٹاگرام، ریڈٹ (Reddit) اور یوٹیوب ثقافتی فحاشی، ہمجنس پرستی اور جادوگری کی براہ راست ترویج میں مصروف ہیں۔
https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_most_visited_websites
3۔ ہم جنس پرستی پر بننی والی سینکڑوں فلموں میں سے کچھ کی فہرست اس لنک میں مندرج ہے:
https://en.wikipedia.org/wiki/Lists_of_television_programs_with_LGBT_characters
4. https://www.therecoveryvillage.com/process-addiction/porn-addiction/pornography-statistics
5. https://www.webroot.com/us/en/resources/tips-articles/internet-pornography-by-the-numbers
6. https://inaghd.ir/lgbt_in_anime
7. The Orgasmic Ordeal, Sexual magick in Thelema, By: Fr. In Sterquiliniis Invenitur
8. ibid, p. 4.
9. Do what thou wilt shall be the whole of the Law. Love is the law, love under will.
10. ibid, p. 4.
11. ibid, p. 4&5.
12. ibid, p. 5.
13. ibid, p. 6.
14. ibid, p. 8.
15- ibid, P. 9.
16. ibid, p. 9.
17. ibid, p. 10.
18. ibid, P. 11.
19. https://en.wikipedia.org/wiki/Cake_of_Light
20. ibid, P. 13.
21. https://www.theguardian.com/books/2014/may/09/occultists-poems-to-grace-london-antiquarian-book-fair
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔