مسلمان معاشرے کے اکابر یزیدی انحراف کے سامنے کیوں خاموش تھے؟

حیران کن بات یہ ہے کہ اس زمانے کے خواص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سن چکے تھے کہ "بنی امیہ کی حکومت حرام ہے" اور "اگر تم معاویہ کو منبر پر بیٹھے دیکھا تو اسے اتار کر قتل کرو"، اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بھی صراحت کے ساتھ انہیں اس فرمان نبوی کی یاد دہانی کرا چکے تھے؛ تاہم معاشرے کے خواص جو سقیفہ کی سازش کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے راستے سے منحرف ہوچکے ہیں۔

فاران؛ گزشتہ سے پیوستہ

سوال: یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ افراد کے کچھ لوگوں، سفید ریش بزرگوں اور دوسرے لوگوں نے امام حسین علیہ السلام سے سفارش کررہے تھے کہ آپ مکہ سے باہر نہ نکلیں، ان لوگوں کے دلائل کیا تھا؟ بالفاظ دیگر معاشرے کے خواص اور اکابرین یزیدی انحراف کے سامنے خاموشی اور انفعالیت سے کیوں دوچار ہوئے؟
جواب: جب مدینہ میں یزید کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان نے امام حسین علیہ السلام کو بیعت کرنے یا قتل ہوجانے کے درمیان قرار دیا تو آپ نے مدینہ چھوڑ کر مکہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کے وقت ایسی کوئی مستند روایت ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ کوئی آپ کی راہ میں حائل ہؤا ہو، یا کسی نے کوئی سفارش کی ہو کہ آپ مدینہ سے ہجرت نہ کریں۔ لیکن مکہ میں آپ نے چار مہینے اور کچھ دن قیام کیا اور فیصلہ ہؤا کہ کوفہ کی طرف عزیمت کریں، تو محمد بن حنفیہ، عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس سمیت کچھ رشتہ داروں نے آپ سے عرض کیا کہ کوفہ کی طرف نہ جائیں کیونکہ وہاں کے لوگ اس سے پہلے امیرالمؤمنین اور امام حسن علیہما اسلام سے غداری کرچکے ہیں۔ کچھ لوگوں نے آپ کو تجویز دی کہ یمن یا پھر کسی سرحدی علاقے کی طرف ہجرت کریں تا کہ محفوظ رہیں۔
ان لوگوں کے علاوہ، امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن عمر جیسے افراد کو دعوت دی کہ آپ کی مدد کو آئیں، لیکن انھوں نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ امام کی جان کو خطرہ لاحق ہوگا، حالانکہ وہ اس حقیقت کے ادراک سے عاجز تھے کہ یہ امام کی جان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک دینی فریضہ اور شرعی ذمہ داری ہے اور امام کو اپنی ذمہ داری پر عمل کرنا چاہئے، خواہ اس راستے میں آپ کے مقدس وجود کو خطرات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ لہذا یہ افراد نہ صرف امام کے فریضے کے صحیح ادراک سے عاجز تھے، بلکہ ہمدردی کی رو سے آپ کی عزیمت کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے اور گویا دعوی کررہے تھے کہ “ہم مصلحتوں کو امام سے بہتر سمجھتے ہیں!”۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایسے افراد نہ خود امام کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے قریبی لوگوں کو امام کا ساتھ دینے کی اجآزت دیتے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ معاذ اللہ یہ لوگ کوفہ کی طرف امام کی عزیمت کو ایک خطا سمجھتے تھے۔ اور پھر امام کا مکہ میں قیام بھی ان کے مفاد میں نہیں تھا کیونکہ مکہ میں آپ کے ہوتے ہوئے یہ لوگ امن سے نہیں رہ سکتے تھے؛ اس لئے کہ یزید لعنہ اللہ نے مکہ کے لئے نیا والی مقرر کیا تھا جو امام کو حج کے ایام میں اچانک نشانہ بنانے کا منصوبہ ساتھ لایا تھا۔ وہ حج کے موقع پر امام کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ ادھر امام واپس مدینہ نہیں جاسکتے تھے تو اس لحاظ سے بھی کوفہ جانے کا فیصلہ، موزون ترین تھا جہاں کئی حاضر مسلح افراد موجود تھے جو جنگ کا وافر تجربہ رکھتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ معاشرے کے خواص اور اکابرین یزید کی طرف سے اسلام کے انحراف کے سامنے انفعالیت اور خاموشی سے کیوں دوچار ہوئے؟ جواب یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کے خواص اور ممتاز افراد صلح امام حسین علیہ السلام کے بعد، معاویہ کے دور حکومت میں، وسیع دگرگونیوں اور انحرافات کا شکار ہوچکے تھے۔ بعض اکابرین اور ممتاز افراد کو – جو شیعیان اہل بیت اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے، – کو کچل ڈالا تھا، ان میں سے بہت سے افراد شہید ہوچکے تھے یا پھر جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ لہذا جو لوگ معرفت و بصیرت رکھتے تھے، ان کی تعداد بہت قلیل تھی اور عبداللہ بن جعفر، عبداللہ بن عباس جیسے نمایاں افراد اہل بیت علیہم السلام کی ولایت و امامت کے سلسلے میں بہت کم معرفت رکھتے تھے، ادھر ان میں سے کئی افراد کو بنی امیہ نے خرید لیا تھا اور یہ لوگ امویوں کی طرف چلے گئے تھے۔ کچھ لوگ عافیت طلبی میں مبتلا ہوئے تھے اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر، امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے لئے تیار نہیں تھے، چنانچہ انھوں نے اس انحراف کے سامنے خاموشی اختیار کی۔
زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس زمانے کے خواص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سن چکے تھے کہ “بنی امیہ کی حکومت حرام ہے” اور “اگر تم معاویہ کو منبر پر بیٹھے دیکھا تو اسے اتار کر قتل کرو”، اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بھی صراحت کے ساتھ انہیں اس فرمان نبوی کی یاد دہانی کرا چکے تھے؛ تاہم معاشرے کے خواص جو سقیفہ کی سازش کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے راستے سے منحرف ہوچکے ہیں، وہ نہ صرف امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دوران آپ کی مدد نہیں کریں گے بلکہ جنگ صفین میں فتح کامل کی آمد پر ہی امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ خیانت اور غداری کرتے ہیں اور جنگ کے خاتم پر حَکَمِیَت کو آپ پر ٹھونس دیتے ہیں اور حکومت حق کی شدید کمزوری کے اسباب فراہم کرکے معاویہ کو تقویت پہنچاتے ہيں؛ حتی عبداللہ بن عباس جیسے خواص نے معاویہ اور یزید کے ہاتھوں پر بیعت بھی کی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اموی خائن اور غاصب ہیں اور یہ لوگ خود بھی انہیں غاصب اور خائن سمجھتے ہیں، لیکن پھر بھی سوچتے تھے کہ شاید مختلف قسم کے واقعات میں اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں گے۔

جاری