مغرب ایشیا میں مقاومت کے معرض وجود میں آنے اور فروغ پانے سے فلسطینی مقاومت پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں مقاومت کے معرض وجود میں آنے کی برکت سے محور مقاومت نے عظیم کامیابیاں حاصل کیں؛ شام کے خلاف بین الاقوامی سازش مقاومت کی مدد سے ناکام ہوگئی اور امریکہ، یورپ، ترکی اور سازشی عرب حکمرانوں سے وابستہ مسلح ٹولوں کو شکست ہوئی۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

سوال: فلسطین کے 1948ع‍ اور 1967ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کے خلاف جدوجہد کے سلسلے میں فلسطینیوں کی سوچ میں ایسی کونسی تبدیلی آئی ہے جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہو؟
جواب: مذکورہ دو علاقوں کی صورت حال غزہ کی صورت حال سے مختلف ہے۔ غزہ اپنی گنجان آبادی اور ارضی نوعیت کے بل بوتے پر مقاومت کی تنظیموں کو مزاحمت اور شہری لڑائی کا امکان فراہم کرتا تھا لہٰذا ایریل شارون نے سنہ 2005ع‍ میں غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کا حکم دیا کیونکہ غاصب ریاست وہاں اپنی رٹ قائم کرنے سے عاجز تھی۔ مقتول صہیونی وزیر اعظم اسحاق رابین کا ایک جملہ مشہور ہے کہ “مجھے امید ہے کہ ایک دن بستر سے اٹھوں اور دیکھ لوں کہ غزب سمندر میں ڈوب گیا ہے”؛
یہ موقف بجائے خود غزہ کے مقابلے میں صہیونیوں کی بے بسی کا ترجمان ہے، لیکن مغربی کنارے اور 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں صورت حال مختلف ہے۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے سمیت 1967ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں آبادیوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے اور یہاں کھلے علاقے بھی زیادہ ہیں جہاں صہیونی افواج کو نقل و حرکت کا امکان فراہم ہے۔ 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں پر صہیونیوں کی مطلق عملداری قائم ہے اور وہاں مقاومتی تنظیموں کی تشکیل کی اجازت نہیں دی جاتی، لیکن فلسطینیوں نے ان علاقوں میں بھی مقاومت سے سبق لے کر جدوجہد کی نئی روشیں ایجاد کی ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے بھی چند سال قبل فرمایا تھا کہ “مغربی کنارے کو مسلح ہونا چاہئے؛ اگر وہ کسی وقت پتھروں کے ساتھ جدوجہد کرسکتے تھے تو اب انہیں مناسب، جدید اور مؤثر ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہئے”۔
اب کچھ عرصے سے 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں بھی اور 1967ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں بھی ایک نئی تحریک شروع ہوئی ہے، ان علاقوں میں فلسطین نوجوان انفرادی کاروائیاں کرتے ہیں، ان کاروائیوں میں ایک یا دو افراد شامل ہوتے ہیں جن کا کسی بھی مقاومتی تنظیم سے تعلق نہیں ہوتا اور ان کا کوئی کمانڈنگ مرکز نہیں ہوتا۔ یہ مقاومت پر یقین رکھنے والے نوجوان ہیں اور بہت سی مشکلات سے گذر کر صہیونیوں پر ضرب لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کاروائیاں مذکورہ علاقوں کے طول و عرض میں انجام پاتی ہیں۔ ان حملوں میں انتہاپسند صہیونیوں کو خنجروں اور چاقؤوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر انہیں گاڑیوں سے کچل دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کاروائیاں تل ابیب، بئر سبع، قدس شریف اور دوسرے علاقوں میں انجام دی جاتی ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
حال ہی میں 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں ایک بڑی تبدیلی نظر آئی اور فلسطینی نوجوان چھوٹے ہتھیار حاصل کرکے غاصب صہیونیوں کے خلاف مؤثر کاروائیاں کرنے میں کامیاب ہوئے؛ اور یوں غاصب صہیونیوں کو شدید نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان علاقوں میں فلسطینی ہتھیاروں سے بھی لیس ہو سکتے ہیں اور یوں اور الٹی نقل مکانی کے عمل میں تیزی آئی اور یہ سلسلہ تحریک جہاد اسلامی اور صہیونی ریاست کے درمیان حالیہ تین روزہ جنگ میں شدیدتر ہؤا ہے۔ صہیونیوں کا تصور یہ تھا کہ 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں عربوں کی نئی نسل مبینہ جمہوری ماحول میں پروان چڑھے ہیں اور وہ جدوجہد پر یقین ہی نہیں رکھتے اور صہیونی حکمرانی کو عرب حکمرانوں کی استبدادیت پر ترجیح دیتے ہیں! لیکن اس لحاظ سے بھی انہیں مایوسی ہوئی۔

اب ثابت ہؤا ہے کہ صہیونیوں کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا تھا کیونکہ اسی علاقے میں پیدا ہو کر پروان چڑھنے والے اور فلسطینی حکمرانی سے دور صہیونیوں کی عملداری میں رہنے والے نوجوان ہتھیار اٹھا کر فوجی کاروائیاں کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اگرچہ 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں پر صہیونیوں کی گرفت بہت مضبوط ہے لیکن چونکہ ان علاقوں کے فلسطینی، اسرائیلی شہری سمجھے جاتے ہیں لہٰذا انہیں نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہے اور اسی سہولت نے انہيں دشمن پر ضرب لگانے کا امکان فراہم کیا ہے؛ وہ کسی فلسطینی جماعت کے حامی نہیں ہیں چنانچہ انفرادی طور پر مؤثر کاروائیاں کر سکتے ہیں اور ان کی کاروائیاں صہیونی ریاست کی سلامتی اور غاصب یہودیوں کی نفسیاتی آسائش کو زیادہ مؤثر انداز سے درہم برہم کر سکتے ہیں۔ گذشتہ رمضان کے دوران 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی نوجوانوں کی کاروائیوں کے بعد صہیونی ماؤں نے بچوں کو اسکول بھجنے سے انکار کردیا تھا گوکہ فلسطینی مجاہدین بچوں اور عورتوں پر حملہ نہیں کرتے جبکہ حالیہ جنگ میں صہیونیوں نے رہائشی علاقوں پر حملے کرکے کئی فلسطینی بچوں کو شہید کیا۔
یہ صحیح ہے کہ صہیونیوں کو امن و خوشحالی کا جھانسہ دے کر دنیا بھر سے فلسطین میں بلایا گیا تھا اور اب ان کی سلامتی غارت ہوچکا ہے اور خوشحالی بھی بدامنی سے متصادم ہے، چنانچہ فلسطینیوں کی یہ کاروائیاں فلسطینی کاز اور عالم اسلام کے مقدس مقامات کی آزادی کے حوالے سے بہت مثبت نتائج کی حامل ہیں اور انہیں مزید پھیلنا چاہئے اور فلسطینیوں کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا اہتمام ہونا چاہئے، تاکہ صہیونی ریاست کے اندرونی علاقوں میں اپنی کاروائیوں کو جاری رکھ سکیں۔ بے شک فلسطینیوں کو ہتھیار کی فراہمی پورے عالم اسلام کی ذمہ داری ہے۔
سوال: مغرب ایشیا میں مقاومت کے معرض وجود میں آنے اور فروغ پانے سے فلسطینی مقاومت پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
جواب: مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں مقاومت کے معرض وجود میں آنے کی برکت سے محور مقاومت نے عظیم کامیابیاں حاصل کیں؛ شام کے خلاف بین الاقوامی سازش مقاومت کی مدد سے ناکام ہوگئی اور امریکہ، یورپ، ترکی اور سازشی عرب حکمرانوں سے وابستہ مسلح ٹولوں کو شکست ہوئی۔
امریکہ نے عراق میں داعش کی بنیاد رکھی اور عراق پر داعش کو مسلط کرنا چاہا، لیکن داعش کو شکست ہوئی اور اب وہ حکومت نہیں کہلوا سکتی اور ایک منتشر دہشت گرد ٹولے میں تبدیل ہوئی جو صحراؤں اور دشوار گذار گھاٹیوں میں رہنے پر مجبور ہے یا پھر افغانستان پہنچ کر امریکی مقاصد کے حصول کے لئے وہاں کی مرکزیت (طالبان کی عبوری حکومت) کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں کر رہی ہے۔
یمن امریکہ، یورپ، صہیونی ریاست اور سعودیوں کی قیادت میں نام نہاد اتحاد میں شامل بعض عرب ریاستوں کی طرف سے بین الاقوامی سطح کی جارحیت کا شکار ہؤا لیکن اس نے محور مقاومت کی مدد سے عظیم ترین کامیابیاں حاصل کیں یہاں تک کہ جارح ممالک کو مجبور ہو کر گذشتہ رمضان سے پہلے یمن کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کی اب تک کئی مرتبہ توسیع ہوئی ہے اور جنگ بندی ہنوز جاری ہے۔
سعودی اتحاد نے جنگ بندی کا اعلان کرکے ضمنی طور پر یمنیوں کے خلاف جنگ میں اپنی شکست کا اعتراف کرلیا ہے اور یہ بھی فلسطینی مقاومت کے لئے ایک بڑا سبق ہے۔ کیونکہ محور مقاومت نے شام، عراق اور یمن میں اپنی دفاعی جنگ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، فلسطین کی حمایت بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔ جب بھی مقاومت کوئی کامیابی حاصل کرتی ہے فلسطینی مقاومت کے لئے اس کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ “اے فلسطینی مجاہدو! تم تنہا نہیں ہو اور ہم آپ کے طاقتور حامی ہیں اور آپ کے ساتھ قریبی تعلق و تعاون کرکے تمہیں تقویت پہنچا سکتے ہیں اور تم اور ہم مل کر عظیم کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔
سنہ 2011ع‍ میں عالم عرب [تیونس، مصر، لیبیا، بحرین، اور یمن) میں عظیم تحریکوں کا آغاز کیا جس کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ عرب دنیا کا پہلے نمبر پر آیا اور عرب حکمران فلسطینیوں کی حمایت پر مجبور ہوئے لیکن عوامی انقلابات سعودیہ اور امارات پیٹرو ڈالروں کی ندیاں بہا کر ان ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا، اور انقلاب کی لہروں پر سوار ہوکر انہيں اپنے راستے سے ہٹایا اور یوں مسئلۂ فلسطین بھی ان ممالک میں کافی حد تک اپنی اہمیت کھو گیا۔
باعث افسوس ہے کہ بہت سی عرب اور مسلم اقوام فلسطین کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھیں، لیکن مقاومت اسلامی کی مسلسل کامیابیوں کی وجہ سے فلسطین ایک بار پھر عرب اور اسلامی دنیا کا پہلے درجے کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اگرچہ عرب حکمران حمایت نہیں کر رہے ہیں لیکن عرب اور مسلم اقوام حقیقتا حمایت کررہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی مقاومت مغربی ایشیا میں مقاومت اسلامی کی کامیابیوں سے پوری طرح فائدہ اٹھا رہی ہے؛ یعنی یہ کہ مقاومت اسلامی کی کامیابیاں در حقیقت فلسطینیوں کی کامیابیاں ہیں اور دوسری طرف سے فلسطینی مقاومت کی کامیابیاں اسلامی مقاومت محاذ کی کی کامیابیوں میں شمار ہوتی ہیں۔
فلسطین کے مسئلے پر رہبر انقلاب کی گہری نظر
حالیہ رمضان میں یوم القدس کے پیغام اور فلسطین کے حوالے سے مختلف خطابات میں قدس شریف کے سلسلے میں رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے دیئے گئے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عرب زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں، فلسطین اور قدس کے حوالے سے عربی مصادر و منابع سے رجوع کرتے ہیں، اور خاص چینلوں سے خصوصی معلومات حاصل کرتے ہیں چنانچہ آپ کی معلومات بالکل درست، تازہ اور حقیقی ہیں۔
آپ حقیقت پسندی کی بنیاد پر ایک انتہائی پرامید نگاہ کے ساتھ فلسطین کے لئے روشن مستقبل کی نوید دیتے ہيں۔ اکتوبر 2011ع‍ میں تہران میں حمایتِ فلسطین کانفرنس رہبر انقلاب کا خطاب شروع سے لے کر اُس وقت تک کے فلسطینی مسائل اور حالات و واقعات کی تشریح کے حوالےسے ایک اہم تاریخی موڑ ثابت ہؤا۔ میں خود کانفرنس کی افتتاحی نشست میں حاضر تھا۔ رہبر انقلاب کا وہ خطاب اس قدر جامع، دلچسپ اور گہرائی کا حامل تھا کہ کانفرنس میں موجود ایک فلسطینی تجزیہ نگار “منیر شفیق” نے آپ کے خطاب کے اختتام پذیر ہونے پر کہہ دیا: “اے آقا! یہ کانفرنس بس اختتام پذیر ہو گئی”! اور جن ان سے ان کے اس رد عمل کا سبب پوچھا گیا کہ “حقیقت یہ کہ یہ افتتاحی خطاب در حقیقت اختتامی اجلاس تھا، اور ہمارے پاس کہنے کو مزید کچھ نہیں ہے، مگر یہ کہ آقا کے خطاب کو دہرائیں”۔
میرے خیال میں رہبر انقلاب کے اس خطاب پر زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اس خطاب کے متن کو ہر سال یوم القدس پر شائع کرنا چاہئے کیونکہ یہ فلسطین کے مسئلے پر بہت جامع اور دقیق تجزیہ ہے جس میں فلسطینی کاز کے تمام مراحل کو زیر بحث لایا گیا ہے اور اس کی روشنی میں فلسطین کے روشن مستقبل کے پیش منظر کو حقیقت پسندانہ انداز سے دکھایا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجزیہ نگار: مسعود اسداللّٰہی