کس قوم کو “تاریخ کی خونخوارترین قوم” کا خطاب ملا؟ پہلا حصہ

یہودیوں کے ہاں دو خونی رسمیں ایسی ہیں جن سے ان کے بزعم، “یہوہ” خوشنود ہوجاتا ہے؛ ایک انسانی خون سے آلودہ روٹیوں کی عید (عید فطیر) ـ عید فصح ـ ہے اور دوسری یہودی بچوں کے ختنہ کرنے کی رسم ہے جس میں یہودی رابی ختنہ سے نکلنے والا خون پی لیتے ہیں۔

فاران؛ یہودیوں اور خونریزیوں کے درمیان کا ناطہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہودی قوم کی درندگی، وحشی پن اور خونخواری کا اندازہ مقبوضہ سرزمینوں میں فلسطینیوں کے خلاف ان کے جاری اقدامات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہودی قوم کی تاریخ اور گذشتہ صدیوں میں ان کے کرتوتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تحریف شدہ دین اور تعلیمات کے عین مطابق، بنیادی طور پر، خونریزی اور خونخواری پر زور دیتے ہیں۔ یہودی بچہ [یہودی ماں کی کوکھ] سے پیدا ہوتا ہے تو اس کا ختنہ کیا جاتا ہے اور یہیں سے خونخواری کا آغاز ہوتا کیونکہ یہودی رابی [خاخام] عمل ختنہ سے نکلنے والے خون کو چوس چوس کر پی لیتے ہیں اور یہ سلسلہ “یہوہ” کے لئے انسانوں کی قربانی دینے، قربان ہونے والے انسان کے خون کو مٹھائیوں میں ملانے تک جاری رہتا ہے۔

ڈاکٹر “ایریک بسکوف” (Erich Bischoff) قوم یہود کے بارے میں لکھتے ہیں: “یہودی فلسفے اور اس کی تعلیمات میں ان اجنبیوں کا قتل جائز ہے جو حیوانات کے برابر ہیں اور یہ کشت و خون شرعی احکام کے دائرے میں ہونا چاہئے اور جو لوگ دین یہود کی تعلیمات پر یقین نہیں رکھتے، انہیں قربانی کے طور پر بڑے دیوتا کی خدمت میں پیش کرنا چاہئے”۔
رچرڈ فرانسس بورٹن (Richard Francis Burton) ـ جنہوں نے عرصہ دراز تک تلمود کی تعلیم حاصل کی ہے ـ اپنی کتاب “یہودی، خانہ بدوش اور اسلام” (The Jew, The Gypsy, and El Islam) مطبوعہ سنہ ۱۸۹۸ع‍] میں لکھتے ہیں: “تلمود کے مندرجات کے مطابق، یہودیوں کے درمیان دو خونی رسمیں پائی جاتی ہیں جن کز ذریعے “یہوہ” کو خوشنود کیا جاسکتا ہے، ان میں سے ایک انسانی خون سے آلودہ روٹیوں کی عید ہے ـ جو در حقیقت وہی عید فصح ہی ہے ـ اور دوسری رسم یہودی بچوں کا ختنہ کرنے کی رسم ہے” جس سے نکلنے والے خون کو یہودی حاخام چوس چوس کر پی لیتے ہیں۔
یہودی غیر یہودی بچے کو قتل کرتے ہوئے

غیر یہودی انسانوں کے قتل کے موضوع کی اہمیت کو دیکھ کر عرب مفکر “ڈاکٹر رفعت مصطفی” نے اس موضوع پر مطالعہ کرکے معلومات جمع کرلیں اور نہایت اہم مقالہ تالیف کیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اس موضوع پر کام شروع کرنے کے بعد، اپنا ارادہ ترک کرلیا کیونکہ متعلقہ واقعات اور حادثات میں ابہام پایا جاتا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ واقعات درست ہیں۔ مجھے اس سلسلے میں کئی کتابیں ملیں اور کچھ ویب گاہوں میں جستجو کی اور کسی حد تک بھینٹ چڑھنے والے انسانوں سے آگہی حاصل کرلی۔ مصطفی کہتے ہیں: “مقالہ لکھنے کا کام مکمل کرنے کے بعد، بہت سوں نے مجھ پر مبالغہ آرائی کا الزام لگایا۔ لیکن میں نے وہ مآخذ ان افراد کے لئے بھجوا دیئے جن سے میں نے استناد کیا تھا اور وہ مقالے کی درستی کے قائل ہوئے”۔
یہودی پولینڈ میں ایک بےگناہ انسان کا سر قلم کرتے ہوئے: ذبح ہونے والا ۱۹ سالہ پولش نوجوان ” (۱) ایگنس ہوروزا (Agnes Hruza) تھا۔ قتل کے اس مقدمے میں ہلسنر (Hilsner) نامی یہودی مجرم قرار پایا۔

رفعت مصطفی لکھتے ہیں کہ یہود وہ لوگ ہیں جو “انسانیت کے خونخواروں” کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: “میں نہیں سمجھتا ہم نے کبھی افسانوں کے سوا کہیں اور اس نام کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ شاید آپ کو اس ایک خیال یا گمان سمجھ لیں نہ کہ ایک حقیقی موضوع، لیکن آپ ہمارے ساتھ رہیں گے تو ہم ایسے لوگوں کو آپ سے متعارف کرائیں گے جو حقیقتا اس خطاب کے مستحق ہیں۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ خیال اور توہم کے بجائے عقل کو مطمع نظر قرار دیں اور افسانوں سے گذر کر حقیقت تک پہنچیں”۔
جی ہاں! یہ لوگ یہودی ہیں۔ وہی لوگ جن کا دین ان سے کہتا ہے کہ “جو لوگ دین یہود پر ایمان نہیں لاتے انہیں ہمارے دیوتا “یہوہ” کے لئے قربان ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں ہاں عید کی دو رسمیں ایسی ہیں جن خون بہایا جاتا ہے اور ہمارا یہ کام ہمارے دیوتا میں کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے؛ ان دو عیدوں میں سے ایک وہ عید ہے جس میں انسانی خون ملا کر کھانا تیار کیا جاتا ہے اور دوسری رسم ہمارے بچوں کا ختنہ کرنے کی ہے”۔
مقدس فطیرہ وہ ہے جس میں آٹے کو خون میں گوندھا جاتا ہے تا کہ “عید فصح” ـ یہودیوں کی ایک عید ـ کے لئے کھانا تیار کیا جائے۔ یہ خونخوارانہ اور وحشیانہ رسم یہودی کتاب مقدس کے حصے “تلمود” کے ذریعے ان تک پہنچی ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تحریف شدہ دین کی تعلیمات کی پیروی، پوری تاریخ کی ان تمام بدبختیوں کا سبب بنی ہے جن سے یہودی دوچار ہوئے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہودی ساحر جادوگری کے وقت انسانی خون استعمال کرتے تھے۔ تورات میں ایک صریح متن آیا ہے جس میں یسعیاہ قوم یہود سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے: ” آہ خطا کار گروہ۔ بد کرداری سے لدی ہوئی قوم۔ بدکرداروں کی نسل مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا اِسرائیل کے قُدوس کو حقیر جانا اورگمراہ برگشتہ ہو گئے”۔ (سفر یسعیاہ، عہد قدیم، آیت ۴)
یہودی اپنی تعلیمات اور اسلاف سے ورثے میں ملنے والے جرائم کی رو سے بچوں کو قتل کرکے ان کا خون عید کے روز کی روٹی میں ملانے کی عادت رکھتے ہیں۔ یہودی مؤرخ برنارڈ لازار (Bernard Lazare) اپنی کتاب “یہودی دشمنی: تاریخ اور اسباب”  میں اس یہودی رسم کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو ماضی کے یہودی جادوگروں سے نسبت دیتا ہے۔

جاری