کیا صہیونی حکومت اپنی بالادستی اور تسدید قوت کھو چکی ہے؟

مسلم ممالک کی حالیہ پیشرفت اور مسلمانوں کی باہمی قدرت بھی صہیونی ریاست زوال کے اسباب میں سے ایک ہے۔ صہیونی جو کر سکے کر گذرے، تا کہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر سکے؛ خطے کے مختلف علاقوں میں بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت کی۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

سوال: کیا کہا جاسکتا ہے کہ صہیونی اپنی بالادستی اور تسدید قوت کھو چکے ہیں؟
حواب: جی ہاں! ان پے در پے شکستوں کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی ریاست سیاسی اور فوجی قوت اور بالادستی کو کھو گئی ہے اور ساتھ ساتھ زوال اور سقوط کی ڈھلان پر بھی آن پہنجی ہے۔ صہیونیوں کے پہلے وزیر اعظم بن گوریون نے کہا تھاکہ “ہماری پہلی شکست در حقیقت ہماری آخری شکست ہوگی”؛ اور واقعہ رونما ہو چکا ہے۔
چنانچہ مذکورہ عوامل کی رو سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست ایک توسیع پسند، دہشت گرد اور نسل پرست فوج سے ایک ناجائز، منفعل (Passive) اور بزدل فوج میں بدل گئی ہے، جو خود کو ہر لمحہ حالت زوال میں دیکھتی ہے۔
سوال: جعلی صہیونی ریاست کے صدر سمیت، متعدد حکام نے حالیہ مہینوں میں خبردار کیا ہے کہ یہ ریاست اندر سے شکست و ریخت کا شکار ہو سکتی ہے۔ کیا محض یہی مسئلہ صہیونی ریاست کی تدریجی زوال کے عمل میں سرعت کی اہم علامت ہو سکتا ہے؟
جواب: اگر ایک انسان کو آلودہ خود دیا جائے، تو نتیجہ کیا ہوگا؟ فطری امر ہے کہ یہ آلودہ خون رفتہ رفتہ اپنے اثرات مرتب کرے گا اور وہ شخص مر جا ئے گا۔ صہیونی حکام ابتداء ہی سے کہتے رہے ہیں کہ غیر ملکی یہودیوں کی فلسطین منتقلی اسرائیل کی رگ حیات میں تازہ خون کی تزریق (Fresh blood injection) کے مترادف ہے؛ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ خون آلودہ ہے، کیوں؟ اس لئے کہ جن یہودیوں کو بیرون ملک سے کوچ کرایا گیا، ان کی ثقافتی، سماجی اور معاشی جنم بومی فلسطین سے بالکل مختلف تھی۔ یہاں کے یہودیوں کے ساتھ ان کا واحد نقطۂ اشتراک یہ تھا کہ یہ بھی یہودی تھے اور ہیں اور وہ بھی یہودی تھے اور ہیں۔ چنانچہ قابضین کا سماجی ڈھانچہ پہلے سے کمزور رہا ہے۔
بیرونی ممالک سے نقل مکانی کرنے والے غاصب یہودی فلسطین کی مقامی آبادی میں گھل مل گئے تو ابتداء میں اسرائیل کی اندرونی دراڑیں پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گئیں۔ یعنی ایک طرف نقل مکانی کرنے والے یہودی تھے جو “مقبوضہ فلسطین” میں آئے تھے [جو مختلف بولیاں بولتے تھے] اور دوسری طرف سے مقامی فلسطینی تھے جو ایک طویل و عریض تاریخی پس منظر رکھتے تھے، جن کی ثقافت اسلامی تھی اور زبان عربی۔ یہ سماجی دراڑ پہلے ہی سے معرض وجود میں آئی۔
رفتہ رفتہ یہ معاشرتی دراڑیں صہیونی ریاست کے سیاسی ماحول تک بھی سرایت کر گئیں، جس کی وجہ سے تعدد اور رنگ برنگی سیاسی جماعتوں کے قیام پر منتج ہوئیں اور یوں غاصب ریاست کا سیاسی عمل مسلسل پیچیدگیوں اور کشیدگیوں سے دوچار ہؤا۔ ایسا کیوں ہؤا؟ اس لئے کہ نقل مکانی کرنے والے یہودیوں میں سے کچھ مغربی ممالک سے آئے تھے، جن کو اشکنازی یہودی کہا جاتا ہے۔ کچھ یہودی ایشیا اور افریقہ سے آئے تھے، جن کی تہذیبیں اور ثقافتیں الگ الگ تھیں اور کچھ وہ بھی تھے جو اعتقادی لحاظ سے یہودی ہی نہیں تھے۔
سماجی دراڑیں تدریجاً سیاسی عمل اور سیاسی ماحول میں رائج ہوئیں۔ جب ہم یہودی ریاست کی اندرونی دراڑوں کو اس کی سلامتی اور امن و امان کی غیر مستحکم صورت حال ميں شامل کرتے ہیں، تو اس ریاست کی شکست و ریخت اور زوال کا امکان زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور آشکار ہو جاتا ہے۔
صہیونیوں کی توسیع پسندانہ پالیسی کے برعکس، ہم دیکھ رہے ہیں اس وقت آج ـ سات عشرے گذرنے کے باوجود ـ صہیونیوں کا سیکورٹی ماحول بدستور بحرانی اور غیر مستحکم ہے؛ اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعات اور اندرونی کشمکش بدستور، بنیادی ترین بین الاقوامی تنازعہ اور مغربی دنیا اور اسلام کے درمیان تنازعات کا مرکزی نقطہ ہے۔ اور اسی وجہ سے ہی، صہیونی نظریہ سازوں نے اشارہ کیا ہے کہ جبر اور سرکوبی، اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کو زبردستی اپنے کنٹرول میں رکھنے، کی پالیسی اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتی۔
کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے بکھرے ہوئے معاشرے میں فکری اور سماجی تبدیلیوں کا سلسلہ سنہ 1987ع‍ کی انتفاضہ تحریک سے شروع ہؤا اور حالیہ عشروں میں بالکل نمایاں رہا ہے اور سنہ 2000ع‍ کے عشرے میں صہیونی ریاست کے لئے ایک اہم سیاسی چیلنج بنا رہا اور آج سیاسی میدان میں بھی اس کا عکس نمودار ہؤا ہے۔ چنانچہ اندر سے شکست و ریخت کے بارے میں صہیونی سرغنوں کے انتباہات صہیونی ریاست کی قدم بقدم زوال کے عمل میں سرعت کی اہم علامت ہیں۔
سوال: عالم اسلام کی حالیہ پیشرفت، اسلامی ممالک کی باہمی قربت کی عکاس ہے، اور خطے کے ممالک ـ خصوصاً اسلامی ممالک ـ کے حکام کی آمد و رفت میں اور وفود کے تبادلوں میں اضافہ ہؤا ہے؛ تو کیا مسلم ممالک کی باہمی قربت فلسطینی مقاومت کی مدد کر سکتی ہے؟
جواب: مسلم ممالک کی حالیہ پیشرفت اور مسلمانوں کی باہمی قدرت بھی صہیونی ریاست زوال کے اسباب میں سے ایک ہے۔ صہیونی جو کر سکے کر گذرے، تا کہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر سکے؛ خطے کے مختلف علاقوں میں بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت کی۔ لبنان سے فرار کے بعد مختلف طریقوں سے شام میں اثر و نفوذ بڑھانے کے راستے تلاش کر لئے، اور اس ملک میں تکفیری فتنہ بپا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود مغرب وار صہیونیوں کو شام میں شکست ہوئی؛ یمن میں بھی شکست کھائی؛ انہیں خطے کے ممالک کی رائے عامہ میں بھی شکست ہوئی۔
خطے کی ایک حالیہ پیشرفت ایران _ سعودی سمجھوتہ تھا، جس کے بعد سعودیوں نے مقبوضہ فلسطین کے بارے میں خطے کے مسلم ممالک اور اسلامی تعاون تنظيم کے ساتھ یکسوئی پر مبنی موقف اپنایا جو مسلم ممالک کے درمیان اتحاد اور اتفاق کا عکاس ہے۔ اور یہ اظہار ہے اس حقیقت کا کہ صہیونی ریاست زوال کے دہانے پر پہنچ چکی ہے کیونکہ مسلمانوں کے انتشار اور افتراق اس غاصب ریاست کی بقاء کی ضمانت تھا۔ صہیونیوں کی کوشش یہ تھی کہ خطے ـ اور خاص کر خلیج فارس ـ کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرکے اپنا اثر و رسوخ قائم کرے، اور اب ان کا یہ خواب بھی ادھورا رہ گیا ہے۔
سوال: رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) نے بدھ کے روز سیکریٹری جنرل جہاد اسلامی فلسطین سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا کہ “مغربی کنارے میں مقاومتی تنظیموں کی بڑھتی ہوئی طاقت، صہیونی دشمن کو گھٹنے ٹیکنے مجبور کرنے کی کلید ہے”، اور اس مشن کو جاری رہنا چاہئے۔ پیشتر بھی آپ نے فرمایا تھا کہ “عالم اسلام کو جس حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ فلسطین کے اندر جدوجہد کرنے والی مقاومتی قوتوں کی مدد و حمایت کریں”؛ آپ کے خیال میں، ان مقاصد کے حصول کی روشیں کیا ہو سکتی ہیں؟
جواب: جس حکمت عملی کی طرف رہبر انقلاب نے اشارہ فرمایا، وہ ایک خالص اسلامی سیاسی تفکر پر مبنی ہے، جو قرآن مجید اور دینی تعلیمات سے ماحوذ ہے:
خدائے متعال کا ارشاد گرامی ہے:
“وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ؛ اور ہرگز راضی نہیں ہوں گے آپ سے یہود اور نصاریٰ، جب تک کہ تم ان کے دین کی پیروی نہیں کریں گے”۔ (سورہ بقرہ، آیت 120)۔
بے شک یہ عالم اسلام کے لئے بہت اہم حکمت عملی ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی حکمت عملی کے تحت فلسطینی کاز اور فلسطین مجاہدوں کو کمک بہم پہنچانے کی تزویراتی حکمت عملی بھی سامنے آتی ہے، اور مطلوبہ نتیجے تک پہنچتی ہے۔
رہبر انقلاب کی اس حکمت عملی کا دوسرا نکتہ ـ کہ عالم اسلام کو جس حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ فلسطین کے اندر جدوجہد کرنے والی مقاومتی قوتوں کی مدد و حمایت کریں ـ یہ ہے یہ حکمت عملی ایک تاریخی تجربے پر استوار ہے۔ صہیونی ریاست کی پوزیشن سنہ 1982ع‍ میں ـ جب اس نے لبنان پر حملہ کیا ـ کیا تھی؟ اور ہر سال کے گذرنے کے ساتھ اس کی پوزیشن کیا ہوئی؟ یعنی حالیہ 40 برس ـ یا اس سے زیادہ عرصے ـ میں یہ ریاست پسپائیوں اور انخلاؤں پر مجبور ہوئی، مرحلہ وار اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں؛ یعنییہ کہ فلسطین کے اندر جدوجہد کرنے والی مقاومتی قوتوں کی مدد کی حکمت عملی ایک کامیاب حکمت عملی تھی۔ غزہ کو مسلح کیا گیا تو صہیونی ریاست شدید زد پذیریوں سے دوچار ہوئی۔
یہ کہ اس حکمت عملی کو کیونکر عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں رہبر انقلاب نے ایک نکتہ بیان کیا تھا اور وہ مغربی کنارے کو ہتھیاروں سے لیس کرنا ہے۔ اس مہم کو ہر ممکن صورت میں مقاومتی تحریکوں کے ذریعے سر کرنا چاہئے؛ ایک روش عسکری اور سیکورٹی اقدامات ہیں جن کی روشیں مختلف ہیں۔
لیکن ایک روش مقبوضہ فلسطین کے ارد گرد کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، کہ رہبر معظم کی حکمت عملی پر عمل درآمد کے لئے یہ ممالک ایک دوسرے سے قریب تر ہو جائیں؛ اور آج سیاسی میدان میں اسلامی ممالک کے نقطہ ہائے نظر ہم آہنگ ہو رہے ہیں؛ اور اسلامی ممالک کے درمیان یہ ہم آہنگی کی اس پالیسی کو فروغ ملنا چاہئے۔
ایک روش یہ کہ عالمی رائے عامہ کو ـ دستیاب ابلاغیاتی وسائل اور اوزاروں کے ذریعے ـ فلسطینی کاز کے ساتھ یک سو اور ہم آہنگ کیا جائے؛ گوکہ اسلامی ممالک اور بطور خاص محور مقاومت کے رکن ممالک، کی ابلاغیاتی صلاحیت تسلط پسند عالمی نظام اور بین الاقوامی صہیونیت کی ابلاغی طاقت کے سامنے محدود ہے؛ یہاں تک کہ شاید زیادہ قابل توجہ بھی نہ ہو۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی رائے عامہ پر محور مقاومت کی تبلیغی اور ابلاغی پالیسیوں کے اثرات زیادہ ہیں۔ اس کی ایک مثال یہی ہے کہ اس وقت آپ یورپی ممالک، حتیٰ امریکہ کے اندر دیکھ لیجئے کہ صہیونی ریاست کے بارے میں لوگوں کی سوچ کیا سے کیا ہو گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔