کیا صہیونی ریاست اگلے 25 سال کے عرصے تک قائم رہ سکے گی؟

صہیونی ریاست کی تاسیس کی بنیاد ہی دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین نقل مکانی کرنے کی ترغیب، پر رکھی گئی تھی۔ گو کہ صہیونی ایجنسی یہودیوں کی ایک بڑی آبادی کی مقبوضہ فلسطین منتقل کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن حالیہ عشروں سے اس ریاست کو معکوس نقل مکانی کا سامنا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: رہبر انقلاب اسلامی نے (سنہ 2015ع‍ میں) صہیونی ریاست کے ایک دعوے کے جواب میں فرمایا تھا کہ اسرائیل اگلے 25 سال کو نہیں دیکھ سکے گا، تو سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں مغربی ایشیا میں کیا ہونے والا ہے، جبکہ ان کے اس ارشاد کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ یہودی ریاست 25 سال تک قائم رہے گی اور اس کے بعد زوال پذیر ہوگی؛ اور یہ کہ یہ ریاست – بطور مثال – اگلے پانچ یا 10 سال تک قائم رہ سکے گی۔
بہر حال رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کبھی کوئی جذباتی دعویٰ نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی آرزو کو پیشین گوئی کی صورت میں بیان کرتے ہیں؛ اور پھر آپ کی تمام تر پیشین گوئیاں حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں؛ چنانچہ آپ کی یہ پیشین گوئیاں قرائن، شواہد، ثبوتوں اور حقائق اور واقعیات پر مبنی ہے۔ صہیونی-یہودی ریاست کے بارے بھی آنجناب کی پیشین گوئی اسی قاعدے کی تابع ہے۔ آپ نے یہودی ریاست کے اندرونی اور بیرونی حالات، آس پاس کے حقائق، اس ریاست کے اپنی ہی اصولی پالیسیوں سے پسپائی پر مجبوری ایسے حقائق ہیں جن کے ساتھ اگر غزہ پر اس کے ناکام حملوں اور سنہ 2000ع‍ اور 2006ع‍ میں حزب اللہ کے مقابلے میں شرمناک شکستوں اور فلسطینی مقاومت کی کامیاب کاروائیوں اور خطے میں اس کی تمام تر پالیسیوں کی ناکامیوں کو بھی ملا لیا جائے تو اس کی تزویراتی کمزوری اور آخری انجام کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں، بنیادی قرآنی تاریخ کا فلسفہ آپ کے سامنے ہے جو باطل پر حق کی آخری فتح پر مبنی الٰہی وعدے پر مبنی ہے جو درحقیقت ان پیشین گوئیوں کی اصل بنیاد ہے۔ جیسا کہ ایران کی ترقی کے حوالے سے بھی آپ نے – ایک طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران کے چار دہائیوں کے تجربے اور مختلف شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کے بےشمار شواہد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نوجوان افرادی قوت کی فعال موجودگی، اور دوسری طرف مؤمنین کی مدد و نصرت پر مبنی اللہ کے وعدے کو مد نظر رکھ کر – پیشین گوئی کی تھی کہ اگر میدان میں یہ مجاہدانہ فعالیت جاری رہی تو اسلامی جمہوریہ کا مستقبل روشن ہوگا۔
صہیونی ریاست کی تاسیس کی بنیاد ہی دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین نقل مکانی کرنے کی ترغیب، پر رکھی گئی تھی۔ گو کہ صہیونی ایجنسی یہودیوں کی ایک بڑی آبادی کی مقبوضہ فلسطین منتقل کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن حالیہ عشروں سے اس ریاست کو معکوس نقل مکانی کا سامنا ہے۔
اس نئی صورت حال میں مقبوضہ سرزمینوں میں آ بسنے والے یہودی باشندے عدم تحفظ، “سماجی بہبود” اور “بہتر زندگی کے سپنوں کی اسرائیلی دنیا” کے حوالے سے یہودی حکمرانوں کے وعدوں کی ناکامی کی وجہ سے، اپنے آبائی ممالک کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ صہیونی ریاست کو درپیش چیلنجوں اور اس کے مستقبل کا جائزہ لینے کے لئے ہم نے فرہنگیان یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر اور تقابلی تاریخ انسٹی ٹیوٹ کے علمی نائب چانسلر حجۃ الاسلام ڈاکٹر محسن محمدی کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ جس کا متن درج ذیل ہے:
* کیا غاصب ریاست آئندہ 25 برسوں کو دیکھ سکے گی؟
کچھ لوگ صہیونی ریاست کے خاتمے کے بات کرتے ہوئے “مقاومتی محاذ” کی طرح کسی بیرونی عنصر کو اس کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں حالانکہ اندرونی عوامل و اسباب کی طرف بھی توجہ دینا، زیادہ معقول ہے اور بیرونی عوامل کو بھی مقاومت ہی تک محدود کرنا درست نہیں ہے بلکہ امریکہ – جو اس ریاست کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے – کو بھی بعض مسائل میں طفل کُش یہودی ریاست کے زوال کا سبب گردانا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے عوام کے مختلف طبقات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
“میں نے جوہری مذاکرات کے خاتمے کے بعد سنا کہ مقبوضہ فلسطین میں کچھ صہیونیوں نے کہا ہے کہ فی الحال ان مذاکرات کے نتیجے میں اگلے 25 سال کے عرصے تک ہم ایران کی طرف کی فکرمندی سے چھٹکارا پا چکے ہیں؛ 25 سال بعد پھر سوچیں گے۔ میں بھی جواباً کہتا ہوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم اگلے 25 سال کو نہیں دیکھ سکو گے، ان شاء اللہ اگلے 25 سال تک، اللہ کی توفیق سے اور اللہ کے فضل سے صہیونی ریاست نامی کوئی چیز اس خطے میں موجود ہی نہیں ہوگی”۔
آج [2015ع‍ کے آخر میں] سرزمین فلسطین پر صہیونی قبضے اور غاصب جعلی یہودی ریاست کی تاسیس کو 60 سال سے زائد کا عرصہ گذر رہا ہے۔ البتہ فلسطین کی مقدس اسلامی سرزمین اس سے پہلے 30 سال کے عرصے تک انگریزی سامراجی ریاست کے قبضے میں تھی۔ برطانیہ نے اسی 30 سالہ عرصے میں دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین منتقل کرکے اس سرزمین پر صہیونیوں کے قبضے کا امکان فراہم کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جعلی اسرائیلی ریاست – جو سرزمین فلسطین پر قبضے اور فوجی تشدد کے ذریعے قائم ہوئی تھی – اپنے قیام کے 70 سال بعد، آج ایک ڈھلوان پر آ کر کھڑی ہوئی ہے اور مکمل شکست و ریخت کی طرف جا رہی ہے اور اس اونچے اور مبینہ محفوظ محل کے لرزتے ہلتے ستونوں کی آواز ہر روز پہلے سے زیادہ بلند ہو رہی ہے۔

 

جاری