کیا یہودی عورت کو مال و متاع یا مال مویشی سمجھتے ہیں؟ 1
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اس مضمون میں خواتین کے حقوق اور احکام کے حوالے سے یہودی تعلیمات کا جائزہ لیا گیا ہے، جن میں سے کچھ احکام اسلام سے مطابقت رکھتے ہیں چنانچہ یہ ایک منصفانہ تنقید کی حیثیت رکھتا ہے۔ / جہاں بھی توریت کا نام آتا ہے مقصود تحریف شدہ توریت ہے۔
تخلیق آدم و حوا
توریت کی سِفرِ پیدائش کے دوسرے باب کی ساتویں آیت میں مذکور ہے: “اور خُداوند خُدا نے زمین کی مِٹی سے آدم کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زِندگی کا دم پُھونکا تو اِنسان جیِتی جان ہُوا”۔ اور آیات 22 اور 23 میں بیان ہؤا ہے: “اور خُداوند خُدا اُس آدمؔ کی پسلی سے ایک عَورت بنا کر اُسے آدمؔ کے پاس لایا * اور آدمؔ نے کہا کہ یہ تو اب میری ہڈی اور گوشت سے ہے اس لئے نساء کہلائے گی کہ یہ انسان سے نکلی ہے”۔ یہودیوں نے ان آیتوں کی تفسیر میں لکھا ہے کہ خدا نے روح کو صرف آدم کے نتھنوں میں پھونکا لیکن عورت میں یہ روح نہیں پھونکی۔ چنانچہ عورتیں روح سے خالی ہیں! اور پھر جب سوچا ہے کہ پھر عورت چلتی پھرتی کیسے ہے؟ تو کہہ دیا ہے “بعل زیول” نامی مخلوق نے عورت کے جسم میں حلول کیا ہے اور بعل زیول ہی اسے چلنے پھرنے کی قوت عطا کرتا ہے؛ جیسا کہ روح نے مرد کو ایسی ہی قوت عطا کی ہے؛ اور چونکہ عورت مرد سے خلق ہوئی ہے چنانچہ اس کا اپنا مستقل وجود نہیں ہے اور اسے ہمیشہ کے لئے مرد کی متابعت کرنا پڑتی ہے۔ پیدائش کے تیسرے باب میں کہا گیا ہے کہ “ایک سانپ نے جنت میں آدم (علیہ السلام) کی بیوی کو ورغلایا کہ وہ اس درخت کا پھل کھا لے جس کا کھانا ممنوع تھا؛ پھر بیوی نے وہ پھل آدم (علیہ السلام) کو بھی کھلایا اور یہی عمل ان کے جنت سے نکلنے اور زمین پر ہبوط کا سبب بنا”۔ یہودیوں کے اس تصور سے نتیجہ لیا جاتا ہے کہ عورت بنی نوع انسان کی بدبختی کا سبب بنی ہے، ورنہ انسان ہمیشہ کے لئے جنت میں رہتے۔ چنانچہ وہ عورت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اسے ایک پست مخلوق سمجھتے جو سانپ کے مترادف ہے۔ کیونکہ جس طرح کہ سانپ نے انسان کو دھوکہ دیا، عورت نے بھی انسان کو ورغلایا۔
یہودیت میں عورت کی منزلت کی نفی
یہودیت عورت کے لئے کسی مقام و منزلت کی قائل نہیں ہے لیکن عورتوں کا لحاظ رکھنے کے لئے، مردوں اور شوہروں کو کچھ سفارشیں کرتی ہے چنانچہ تثنیہ کے چوتھے بات کی آیت 28، باب 24 کی آیت 19، خروج کے باب 22 آیت 22 میں کچھ سفارشیں آئی ہیں۔ [یہودیوں کی غیر آسمانی کتاب] تلمود میں بھی ہے کہ “عورتوں کا اکرام کرو۔ انہیں اپنی جان کی طرح رکھو کیونکہ ان کا قلب حساس ہے اور جلد متاثر ہوجاتی ہیں اور انہیں تم جو یاددہانی کراتے ہو، مہربانی اور ملائمت کے ساتھ کراؤ؛ کیونکہ کچھ ہی عورتوں کو عمومی کاموں میں حصہ لینے دیا گیا ہے اور انھوں نے قضاوت بھی کی ہے اور سلطنت تک بھی پہنچی ہیں۔ (قضاۃ باب 4، آیت 4)۔ لیکن “امثال” (یا امثال سلیمان) کے باب 14، آیت 1 اور باب 31، آیت 10 اور بعد کی آیات میں صالح عورت کے اوصاف کے طور پر عورتوں کے بنیادی فرائض میں “گھر کے کام، شجر کاری، کاروبار تجارت، چرخہ کاتنا، یتیموں اور غریبوں کی مدد کرنا، تزئینی اشاء اور اطلس کا ارغوانی لباس بنانا وغیرہ” شامل ہیں۔
مرد اور عورت کی برابری
یہودیت میں مرد اور عورت قانون کے سامنے یکسان ہیں لیکن بعض جگہوں پر عورت کو محرومیوں کا سامنا ہے: عورت کی عبادت مرد کی نسبت نصف قدر رکھتی ہے، اس کی شہادت اور قسم ناقابل قبول ہے، اور اگر باپ یا شوہر اجازت نہ دے تو اس کی دعا اور دینی فرائض بلا اثر ہیں۔ توریت میں “یوم شبات” کے سلسلے میں بیان ہؤا ہے: “شبات کی شمع جلانا عورتوں کے ذمے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حوا نے آدم(ع) کو شجرہ ممنوعہ کا پھل کھانے پر آمادہ کیا اور اسے خدا کے حکم عدولی پر راغب کیا؛ لہٰذا یوم شبات کا چراغ اسی کو جلانا چاہئے، تاکہ کسی حد تک اس خطا کی تلافی کر سکے، کیونکہ شبات کے احکام کی تعمیل اور شمعوں اور چراغوں کا جلانا، ایمان کو روشن کرتا ہے اور یوں عورت کا گناہ ہلکا ہو جاتا ہے۔
ماہواری میں عورت کو جلا وطن کیا جائے
مرد اور پاک عورت کی ماہواری میں مبتلا عورت سے دوری کے حوالے سے توریت کی آیات کا مضمون کچھ یوں ہے کہ جو عورت جریان (ماہواری) میں مبتلا ہو یعنی اس کے آلہ تناسل سے خون جاری ہو، سات دن تک ماہواری میں رہے اور جو بھی اس کو ہاتھ لگائے، شام تک ناپاک رہے گا۔ ماہواری سے دوچار عورت کو – اس کی پلید فطرت کی بنا پر – کبھی کبھار گھر اور شہر سے نکال باہر کیا جاتا تھا تاکہ کوئی بھی اس کے ساتھ کوئی رابطہ برقرار نہ کرسکے۔ وہ اپنی ناپاکی کے پورے ایام میں ایک خاص گھر میں حبس کی جاتی تھی جس کو “ناپاکوں کا گھر” کہا جاتا تھا۔ تلمود کا کہنا ہے کہ حائض عورت جسمانی تعلق کے بغیر بھی “منحوس اور ہلاکت خیز” ہے، چنانچہ بہت سی یہودی عورتیں آج بھی حیض کو “نفرین اور لعنت” سمجھتی ہیں۔
یہودیت میں طلاق
یہودیت میں طلاق کا حق منحصرا شوہر کے پاس ہے۔ توریت میں بیوی سے شوہر کی ناراضگی کے بارے میں بیان ہؤا ہے: ہرگاہ ایک مرد عورت کے ساتھ شادی کرے، قرار دیا گیا ہے کہ کوئی ناپسندیدہ چیز (یا ناپسندیدہ خصوصیت) اس میں پا لے تو اس کو طلاق نامہ لکھ کر تھمانا چاہئے، اور گھر سے نکال باہر کرنا چاہئے۔
بیٹیوں کی خرید و فروخت
نیز یہودیت بیٹیوں کی خرید و فروخت رائج رہی ہے اور ان کے حقوق کے بارے میں بیان ہؤا ہے: ہر گاہ ایک عبرانی عورت تجھ کو فروخت کر دی گئی تو اس کو چھ سال تک تیری خدمت کرنا پڑے گی اور ساتویں برس اس کو آزاد کرنا، اور کہہ دے کہ میں تیرے پاس سے نہیں جاؤں گی، اور تیرے پاس خوش ہوں، تو ایک سُتالی (چمڑا چھیدنے اور سینے والا آلہ) اٹھا کر اس کا کان کمرے کے دروازے کے ساتھ چھید لو، تا کہ وہ تیری ابدی کنیز بن جائے۔
عورت اجتماعی عبادت سے محروم
یہودیت میں عورتیں عبادت کے بعض اجتماعی مراسمات کی مجاز نہیں ہیں۔ کنیسے میں انجام پانے والی بہت سی عبادات اور دعائیں، صرف اس وقت باضابطہ ہوتی ہیں جب 10 عاقل و بالغ مرد حاضر ہوں جبکہ اگر عورتوں کی کئی سو تک بھی پہنچے، جب تک کہ 10 مرد موجود نہ ہوں، تو انہیں نماز با جماعت وغیرہ بجا لانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہودیت میں ایک لڑکا 13 سال اور ایک دن کا ہو جائے تو مذہبی لحاظ سے بالغ ہے اور اس دینی فرائض عائد ہیں اور وہ ان 10 مردوں میں شامل ہو سکتا ہے۔
یہودیت میں، اگر ایک عورت لڑکی کی ماں بن جاتی تو اس کی ناپاکی کے ایام لڑکا جننے والی عورت سے دو گنا زیادہ تھے۔ اس حوالے سے توریت کی آیات کا مضمون کچھ یوں ہے:
لوگوں کے سامنے میاں بیوی کا باہمی مکالمہ ممنوع / حجاب لازمی
عورتوں اور مردوں – حتی کہ میاں بیوی – کے درمیان اعلانیہ بات چیت یہودی فقہا کی رائے کے مطابق، ممنوع تھی۔ لڑکیوں کو مدرسے اور اسکول میں نہیں بھیجا جاتا تھا اور ان کا حصول علم – تھوڑا سا بھی ہوتا تو – خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ توریت کے مفسرین نے لکھا ہے کہ چونکہ عورت کی سرگرمیوں کا ماحول اس کا گھر تھا چنانچہ یہ خوف پایا جاتا تھا اگر عورت اپنا وقت اور قوت حصول علم میں صرف کرے تو ممکن ہے کہ خانہ داری کے امور انجام نہ دے سکے! اگر عورت سر کے بال نہ ڈھانپتی تو وہ طلاق کی مستحق ٹہرائی جاتی تھی۔
لیکن یہ زیادہ روی جاری نہ رہ سکی اور یہودیت میں خواتین کے حجاب کے سلسلے میں مبینہ سخت گیرانہ احکامات کے باوجود، نام نہاد نشاۃ ثانیہ (renaissance) اور سماجی تبدیلیوں کے بعد اور مغرب میں دین سے بھاگ جانے کے دور کے آغاز کے ساتھ پاکدامنی پر مبنی لباس پہننے کی سنت سمیت دینی شعائر کو دیوار سے یکسر ترک کردیا گیا اور جدت کے دور کے ماحول سے متاثر ہو کر، یہودی اور عیسائی عورتوں نے حجاب پہننا چھوڑ دیا، اور بال ٹوپی کو “سر ڈھانپنے کی ایک شکل”، کے طور پر استعمال کیا۔
جاری
تبصرہ کریں