یہودیوں کی خونخواری کے کچھ اور نمونے (۱)

یہودیوں کی آج کی جرائم پیشگی ذرا عجیب سے معلوم ہو لیکن یہودی خونخواری کی روایت میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چونکہ آج کے زمانے میں جرم کا تیزی سے سراغ لگایا جاتا ہے اور قانون کا تعاقب کچھ زیادہ رائج اور ناگزیر اور رشوت وسیع سطح پر بدنامی کا سبب بنتی ہے چنانچہ یہودیوں نے روش بدل دی ہے، بڑوں کو چھوڑنا پڑا ہے لیکن شیرخواروں کا خون چوسنا جاری و ساری ہے۔

فاران؛ سنہ ۱۹۳۹ع‍ میں ایک جرمن رسالے میں عجیب تصویر شائع ہوئی۔ رسالے “سٹرمر” (der Stürmer) کے اس شمارے کو دین یہود میں انسانی قربانیوں کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ مجلے کی جلد پر ایک انسانیت سوز جرم کی تصویر تھی۔ اس انسانیت سوز جرم کا ارتکاب یہودیوں کے سوا کسی نے بھی کیا تھا۔ انھوں نے ایک طفل کو قتل کیا تھا اور اس کے خون کے آخری قطرے تک کو نکال دیا۔
سنہ ۱۲۳۵ع‍ میں جرمنی کے فولڈٹ نامی علاقے سے پانچ بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں اور یہودی مشتبہ ٹہرے اور انہیں پکڑا گیا تو انھوں نے اقرار کیا کہ “انھوں نے ان بچوں کو طبی ضروریات کی بنا پر ہلاک کیا ہے”۔ اس واقعے پر یہودیوں سے انتقام لیا گیا اور ان میں بہت ساروں کو ہلاک کیا گیا۔
سنہ ۱۲۶۱ع‍ میں بادیو (Badeu) نامی علاقے میں ایک عورت نے اپنا سات سالہ بچہ یہودیوں کو فروخت کیا اور انھوں نے اس کو قتل کیا اور اس کے خون کے آخری قطرے تک کو محفوظ کیا اور بچے کی لاش کو دریا میں پھینک دیا۔ اس واقعے میں ملوث کئی یہودیوں کو پھانسی کی سزا ہوئی اور دو یہودیوں نے خودکشی کرلی۔
سنہ ۱۲۸۶ع‍ میں شہر اوبروزل (Oberwesel) میں یہودیوں نے “ویز” نامی ایک عیسائی بچے کو تین دن تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ اور پھر اس کو الٹا لٹکایا اور اس کے خون کے آخری قطرے کو نکالا۔ کچھ عرصہ بعد بچے کی لاش دریا سے برآمد ہوئی۔ اس کے بعد ہر سال ۱۹ اپریل کو اس بچے کے صلیب پر لٹکائے جانے کی یاد منائی جاتی تھی۔ درندگی کی یہ واردات سنہ ۱۵۱۰ع‍ کو دوبارہ براڈنبرگ (Brandenburg) میں دہرائی گئی۔ یہودیوں نے ایک بچے کو خرید لیا، صلیب پر لٹکایا اور اس کے خون کے آخری قطرے کو نکالا۔ یہودی گرفتار ہوئے تو انھوں نے اعتراف جرم کیا اور ۴۱ یہودیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
شہر مایتز (Mytez) میں ایک یہودی نے ایک ۳ سالہ بچے کو اغوا کیا اور اس کا خون نکال کر اسے قتل کیا؛ ایک یہودی ملوث پایا گیا اور آگ کے سپرد کیا گیا۔ اس طرح کے واقعات جرمنی میں کئی کئی بار دہرائے گئے اور تمام ملوث افراد یہودی تھے۔ یہ واقعات سنہ ۱۸۸۲ع‍ میں عوام کے ہاتھوں بڑی تعداد میں یہودیوں کے قتل عام پر منتج ہوئے۔
۲۲ اور ۲۳ مارچ، ۱۹۲۸ع‍ کی درمیانی رات کو شہر گلاڈبیک (Gladbeck) میں ہلموٹ ڈاب (Helmut Daube) نامی ۲۰ سالہ نوجوان کو ذبح کیا گیا اور اس کا خون محفوظ کیا گیا اور دوسرے روز اس کی سر کٹی لاش اس کے والدین کے گھر کے سامنے سے برآمد ہوئی جبکہ اس کے اعضائے تناسلی بھی غائب تھے۔
اس جرم کا اصل مجرم ہزمین (Huszmann) نامی یہودی تھا۔
مورخہ ۱۷ دسامبر سنہ ۱۹۲۷ع‍ کو ایک پانچ سالہ بچہ اغوا ہوا اور کچھ دن بعد اس کی لاش ملی۔ ذمہ دار اہلکاروں نے بتایا کہ قتل کی یہ کاروائی دینی مقاصد کے لئے انجام پائی ہے لیکن اس واردات میں حتی ایک یہودی پر مورد الزام نہيں ٹہرایا گیا!!
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ بچے اپنی پاکیزہ روح کی بنا پر، دیوتا “یہوہ” کے لئے بہترین قربانی کا درجہ رکھتے ہیں
سنہ ۱۹۳۲ع‍ میں شہر پیڈربرن (Paderborn) ایک لڑکی کا مردہ جسم برآمد ہوا، ایک یہودی قصائی اور اس کے بیٹے کو مورد الزام ٹہرایا گیا۔ اعلانہ ہوا کہ یہ واقعہ بھی دینی مقاصد کی بنا پر رونما ہوا ہے۔
ہسپانیہ
سنہ ۱۲۵۰ع‍ شہر زاراگوزا (Zaragoza) میں ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کو صلیب چڑھایا گیا تھا اور اور اس کے بدن میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ سنہ ۱۴۴۸ع‍ میں ایسا ہی واقعہ اسی شہر میں دہرایا گیا۔ اس واقعے میں یہودیوں نے ایک بچے کو صلیب چڑھایا اور اس کا پورا خون عید فصح کے لئے نکالا۔ کچھ یہودیوں کو مجرم پایا گیا اور پھانسی دی گئی۔ اس ۱۴۹۰ع‍ میں تولیدو (Tolido) نامی شہر میں ایک یہودی نے ایک بچے کے قتل میں اپنے دیگر شرکاء کے نام فاش کردیئے۔ اس جرم کے نتیجے میں آٹھ یہودیوں کو پھانسی دی گئی۔ سنہ ۱۴۹۰ع‍ کا واقعہ ہسپانیہ سے یہودیوں کی جلاوطنی کا اصل سبب تھا۔
سوئیٹزرلینڈ
سنہ ۱۲۸۷ع‍ کو شہر برن (Berne) میں ایک عیسائی بچے روڈولف (Rudolf) کو مالٹر (Matler) نامی صاحب ثروت یہودی کے گھر میں ذبح کیا گیا۔ یہودیوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک یہودی شخص کا مجسمہ بنایا گیا جو ایک شیرخوار بچے کو کھا رہا تھا۔ مجسمہ یہودیوں کے محلے میں نصب کیا گیا تا کہ یہودیوں کو ان کی درندگی پر مبنی جرائم کی یاددہانی کرائی جاتی رہے۔ یہ سنگی مجسمہ آج بھی برن میں موجود ہے۔
آسٹریا
سنہ ۱۴۶۲ع‍ کو شہر انسبرک (Innsbruck) میں آنڈریاس آکسنر (Andreas Oxner) نامی عیسائی لڑکا یہودیوں کو فروخت کیا گیا۔ یہودی اسے جنگ لے گئے اور ایک چٹان کے اوپر ذبح کیا اور اس کے خون کو عید کے دن استعمال کیا۔ اس درندگی کے بعد یہودیوں کے خلاف بڑے فیصلے ہوئے اور اس کے بعد یہودی مجبور تھے کہ اپنے بائیں بازو پر پیلے رنگ کی پٹی باندھ کر گھر سے نکلا کریں تاکہ لوگ انہیں پہچانیں اور اپنے بچوں کی بہتر انداز سے حفاظت کرسکیں۔