امریکہ کے زوال اور موجودہ کمزوری کی عمومی وجوہات؛ ڈاکٹر فؤاد ایزدی

امریکی میں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے اور اس ملک کو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اس نے نجی ملکیت کو تسلیم کیا ہے لیکن اس تفکر میں زیادہ روی اور افراط سے کام لیا گیا ہے۔ امریکہ کا سرمایہ پرست نظام سرمایہ داروں کو سیاسی میدان میں گھسنے اور اثر و رسوخ پیدا کرنے کی اجازت دیتا ہے؛ کیسے؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

سوال: زوال کا معاملہ امریکی دانشوروں کے نزدیک کس حد تک سنجیدگی سے لیا جاتا ہے؟
جواب: فوکویاما جیسے لوگ – جو عالم اسلام میں بھی کافی حد تک مشہور ہیں اور 1990ع‍ میں امریکی لبرل جمہوریت کو انسانی تاریخ و تہذیب کی سب سے اونچی چوٹی سمجھتے تھے – نے زوال کے مسئلے کو بہت وسیع سطح پر چھیڑا ہے۔ گذشتہ برس انھوں نے فارن افیئرز میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ “امریکہ جڑوں سے بوسیدہ ہے”۔ بہت سے پیشوں میں ایسے لوگ ہیں جو امریکہ کے زوال پر متفق ہیں اور اس بات پر اجماع اور مفاہمت رکھتے ہیں اور کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو امریکہ کے زوال پر یقین نہ رکھتا ہو۔ جن پانچ معیاروں کا میں نے تذکرہ کیا، وہ سب مخدوش ہو چکے ہیں اور وہ خود ہم سے کہیں زیادہ،- ہر پہلو سے گہرائی کے ساتھ، اس موضوع کو زیر بحث لاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ “ہم فلاں کام کریں گے تو زوال کی رفتار سست ہو سکے گی”، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ “امریکہ برباد ہوچکا ہے اور ہم جو بھی کریں اس کے زوال کی رفتار سست نہیں ہوگی”۔ مسٹر فوکویاما کہتے ہیں کہ “امریکہ جڑوں سے بوسیدہ ہوچکا ہے اور درست ہونے والا نہیں ہے”۔ یعنی کوئی بھی پالیسی، کوئی بھی حکمت عملی ایسی نہیں ہے جس پر امریکہ حکومت عمل درآمد کرے اور وہ نتیجہ خیز ثابت ہو”۔
مبصرین، تجزیہ نگار اور سیاسی نظریہ پردازوں کے علاوہ حتی کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں بھی اس یقین تک پہنچ چکی ہیں کہ امریکہ اپنی پوزیشن کھو رہا ہے۔ انٹیلی جنس کونسل نے سنہ 2030ع‍ کی دنیا کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں [حسرت کے ساتھ] کہا گیا ہے کہ دنیا کثیر قطبی (multi-polarized) ہو رہی ہے اور یہ طاقت اتحادوں اور نیٹ ورکس کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ وہ “تاریخی موڑ” جس کی طرف “حضرت آقا” نے اشارہ کیا تھا، بہت تیزی سے معرض وجود میں آرہا ہے۔
سوال: اگر آپ امریکہ کے زوال اور مختلف حالات میں اس کی موجودہ کمزوری کی عمومی وجہ بتانا چاہیں تو وہ کیا ہے؟
جواب: آپ کے جواب میں میں یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ سوویت اتحاد کی حکومت کا خاتمہ کیوں ہؤا؟ سوویت اتحاد کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نجی ملکیت (private property) کو تسلیم نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے سوویت معیشت مسائل سے دوچار ہوئی تھی۔ جب معیشت چیلنجوں کا شکار ہوئی تو سابق سوویت اتحاد کے بہت سارے اعلی اہلکار اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا نظام بہت کارآمد نہیں ہے چنانچہ وہ مغرب میں دلچسپی لینے لگے اور سوویت اتحاد کا زوال مغرب نواز عناصر کا نتیجہ تھا۔
امریکی میں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے اور اس ملک کو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اس نے نجی ملکیت کو تسلیم کیا ہے لیکن اس تفکر میں زیادہ روی اور افراط سے کام لیا گیا ہے۔ امریکہ کا سرمایہ پرست نظام سرمایہ داروں کو سیاسی میدان میں گھسنے اور اثر و رسوخ پیدا کرنے کی اجازت دیتا ہے؛ کیسے؟ سرمایہ دار سیاستدانوں کے طبقے کی مالی مدد کے ذریعے۔ حضرت آقا نے بھی امریکی حکومت کو ایک مافیائی ریاست قرار دیا؛ یعنی معاشی مافیا جو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے سیاسی مافیا کو جنم دیتا ہے۔
امریکہ کا اصل مسئلہ اس کا مافیائی نظام حکومت ہے۔ جس وقت امریکہ کے سرمایہ دار مافیا نے سیاستدان طبقے کے ایک فیصد حصے کو ہم آہنگ کیا، تو ان ایک فیصد سیاستدانوں نے ان کے مفادات کے لئے کام کیا۔ اگر آج بھی امریکہ اور روس کے درمیان لڑائی امریکی مفاد میں ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائی امریکہ کی اسلحہ ساز ہے کمپنیوں کے مفاد میں ہے۔ سیاستدانوں کی مدد کرنا ان کی تیل کی پالیسیوں کے مفاد میں ہے۔ تو کیا یہ عوامی مفاد میں بھی ہے؟ نہیں؛ کیوں؟ اس لئے اس وقت بجٹ میں سے بڑی رقوم اسلحہ ساز کمپنیوں کو منتقل ہو جاتی ہیں اور اس سے لوگوں کے حالات میں بہتری نہیں آتی۔
کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام – دونوں – میں ایک زیادہ بنیادی اور خاص مشکل یہ بھی تھی کہ ان دونوں میں اخلاقیات اور مذہب کی طرف توجہ کا فقدان ہے۔ لبرل نظام کہتا ہے کہ “فرد” (Individual) ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے! لبرل جمہوریت کا یہ بنیادی بیانیہ ہے جو اخلاق کے تصور سے متصادم ہے۔ اسی لئے یہ کمیونسٹ نظام اور سرمایہ پرست نظام کا بنیادی مسئلہ ہے اور دونوں کو مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ میں اخلاقیات پر کتاب نہیں لکھی جاتی۔ کتاب لکھی جاتی ہے مگر اس کو لبرل تصور و تفکر میں بنیادی معیاروں کی فہرست میں درج نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ یہاں صرف اسلام ہے جس کے پاس کہنے کو کچھ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ نئی صدی (پندرہویں صدی ہجری شمسی = 1401ھ ش) جدید اسلامی تہذیب کی صدی ہو۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آج کی دنیا میں اسلامی تفکر کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فؤاد ایزدی، تہران یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر، امریکی مسائل کے تجزیہ نگار