انسداد بدعنوانی سعودی حکومت میں بے معنی ہے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: ہم نے بن سلمان کی اصلیت کے بارے میں بات کی اور یہ کہ وہ امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور اسی بنا پر انھوں نے محمد بن نائف کو ہٹا دیا ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اقتدار میں آتے ہی کچھ شہزادوں کے خلاف زبردست مہم چلائی گئی، انہیں قید کرلیا گیا؛ آپ کے خیال میں اس مہم کا مقصد کیا تھا؟ کیا اس کا مقصد بدعنوانی کا مقابلہ کرنا تھا، یا مقصد کچھ اور تھا؟
جواب: بدعنوانی کے خلاف جدوجہد، کے دعوے میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بدعنوان اور برائی کی جڑ ملک سلمان اور ان کا بیٹا ہے۔ اصل مسئلہ مسابقت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا شاہی خاندان اپنے اندر کسی بغاوت کو برداشت کرتا ہے؟ کیا یہ خاندان ایک نفسیاتی مریض “محمد بن سلمان” کو بر سر اقتدار آنے کی اجازت دیتا ہے؟
رائٹرز اور اماراتی اور قطری ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق، زیادہ تر شہزادے اور بیعت کمیٹی کے اراکین نے ایم بی ایس کی ولی عہدی کی مخالفت کی اور آخرکار انہیں بیعت پر مجبور کیا گیا۔ کیونکہ بیعت نہ کرنے کی صورت میں انہیں گرفتار کیا جاتا، ان کی دولت وجائیداد ضبط کی جاتی اور انہیں اپنے گھروں میں نظربند کیا جاتا۔ بہت سوں کو گرفتار کرکے پھانسی دی گئی، محمد بن نائف کو ایک بھیانک اور شرمناک انتقام کے طور پر پاؤں سے – الٹا – لٹکایا گیا۔ ایم بی ایس نے شاہی خاندان میں اپنے مخالفین کے خلاف المناک اقدامات انجام دیئے۔ رائٹرز کے مطابق یہ انتقامی کاروائیاں بہت شدید تھیں حہاں تک ایم بی ایس نے اپنے چچازاد بھائیوں کو شدیدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
سلمان بن عبدالعزیز اور ان کا بیٹا، اقتدار میں آنے سے قبل شاہی خاندان میں غیر اہم اور ناقابل توجہ سمجھے جاتے تھے۔ شاہ عبداللہ کے ولیعہد [جو عبداللہ کے زمانے میں ہی چل بسے تھے] اور ان کے بیٹے، شاہ عبداللہ اور ان کے بیٹے، شاہ فہد اور ان کے بیٹے، سلمان اور ان کے خاندان کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ ایم بی ایس نے ان سے ہولناک انتقام لیا اور یہ سب اقتدار کے لئے رسہ کشی کا تسلسل تھا۔ اس کو ایک بغاوت سمجھا جا سکتا ہے۔ بعض شہزادوں کے حامی قبائل بشمول قبیلۂ عتیبہ اور جنوبی قبائل کو گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ محمد بن نائف کے وفادار تھے اور انہیں “اسد السنۃ” (سنت کا شیر) کہتے تھے، لیکن ان سے متعلق اداروں کو تحلیل کیا گیا، جن میں نیشنل گارڈ کا ادارہ شامل تھا جس کے زعماء، کمانڈر اور فوج کے اندر سیکورٹی عملے کو گرفتار کیا گیا اور محمد بن نائف کے دائیں ہاتھ کو تشدد کرکے قتل کیا گیا۔
سعودی گھٹن
سوال: سعودی ذرائع ابلاغ، سعودی عرب میں جبر اور سرکوبیوں اور انسانی حقوق کے سلسلے میں تلخ حقائق کو کوریج کیوں نہیں دیتے؟
جواب: سعودی ذرائع ابلاغ پر وسیع البنیاد خاموشی طاری ہے، کوئی خبر آسانی سے نشر نہیں ہوتی۔ جرمنی میں ایک یورپی-سعودی انسانی حقوق کی تنظیم القطیف اور الاحساء کے نوجوانوں نے قائم کی ہے۔ یہ تنظیم گرفتار افراد کے ناموں اور ان کو سنائی گئی سزاؤں کی معلومات تک بہت مشکل سے رسائی حاصل کرتی ہے۔ حتی اگر گرفتار شخص کے گھر والے اس کی کرفتاری کا اعلان بھی کریں کہ ان کا بیٹا یا کوئی عزیز گرفتار کیا ہے یا اس کو سزا سنائی گئی ہے، تو گرفتار شخص کو فوری طور پر پھانسی دی جاتی ہے۔ جبر اور سرکوبی کی پالیسی سعودی عرب میں یہاں تک پہنچی ہے۔
مغربی دنیا ایک منافق اور ریاکار دنیا
سوال: یہاں میرا مقصود مغربی ممالک اور ذرائع ابلاغ بھی ہیں، وہ ریاض سے سعودی عرب میں رونما ہونے والے واقعات فاش کرنے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟
جواب: یہاں مفادات کی حکمرانی ہے؛ مغرب پر بھروسہ ناممکن ہے؛ مثلا خاشقجی کا کیس ایک سیاسی بلیک میلنگ اور سعودی عرب سے بڑی رقوم حاصل کرنے کا کیس تھا۔ روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد یورپ کو سعودی عرب کے تیل کی ضرورت پڑی چنانچہ مغرب نے خاشقجی کا کیس بند کیا اور امریکہ نے اس کیس میں ایم بی ایس کو استثنا دے دیا۔ لیکن تمام مغربی ذرائع ابلاغ بکے ہوئے اور اجرتی ہیں اور العالم، المنار، المیادین، الاتجاہ اور کچھ دوسرے ذرائع ہماری مظلومیت کی صدا دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔ حتی کہ الجزیرہ چینل نے بھی اپنے مفادات کی رو سے سعودی حکمرانوں کے خلاف اقدام کیا اور شیعہ اکثریتی علاقوں الاحساء اور العوامیہ کو اسی بنا پر کوریج دیتا رہا۔ سنہ 2017 میں العوامیہ میں 100 روزہ جنگ کو بھی الجزیرہ نے کوریج دی، اور اسی طرح بی بی سی [عرب سروس] نے بھی ان واقعات کو کوریج دی اس لئے نہیں کہ وہ جزیرہ نمائے عرب کے عوام کو چاہتے ہیں بلکہ یہ سب ان کے اپنے مفادات اور پالیسیوں کے تحت ہوتا رہا۔ لیکن آج وہ ان واقعات کے بارے میں بات ہی نہیں کرتے۔ الجزیرہ چینل سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کی خبریں نشر کرتا رہا لیکن آج وہ بالکل خاموش ہے۔ مغربی دنیا منافقت کی دنیا ہے؛ اس وقت آٹھ بچوں کو پھانسی کی سزا کا سامنا ہے، 12 سالہ بچے کو تلوار کے ذریعے سر تن سے جدا کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں؛ مغربی ذرائع کہاں ہیں؟ ان میں سے کوئی بھی کچھ نہیں بول رہا ہے! حالانکہ ایران میں اگر ایک لڑکی دل کا دورہ پڑنے یا دماغی دورہ پڑنے سے جان کی بازی ہارتی ہے تو ایران میں بلؤوں کو انقلاب کا نام دے دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ ذرائع اور متعلقہ ممالک ایران کے دشمن ہیں اور ان کے مفادات کا تقاضا ہے کہ ایران کے بلؤوں کو الٹا پلٹا کر پیش کریں۔
تبصرہ کریں