ایران خطے کی سب سے بڑی طاقت / فلسطینی کاز کو اسلامی انقلاب نے زندہ کیا، عراقی مقاومتی راہنما
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عراقی جماعت “حزب الدعوہ” کے ایک رہنما ناطق عباس حسن البیاتی [المعروف بہ حسن البیاتی] نے زور دے کر کہا کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے فلسطینی کاز کو تنہائی سے نکال کر سیاست کے مرکز میں پلٹا دیا اور اسے قومی، سیاسی اور بین الاقوامی توجہات کا محور بنا دیا۔
عراق کی سیاسی اور انقلابی جماعت حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے ایک راہنما جناب عباس البیاتی نے العالم نیوز چینل کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اسلامی انقلابی کی 43 بہار کے سلسلے میں مسلمانان عالم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اثرات و ثمرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس انقلاب نے اسلامی-عربی دنیا اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں کتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہیں اور کس قدر بڑی تبدیلیاں رقم کی ہیں۔
عباس البیاتی کے انٹرویو کے اہم نکات:
– اسلامی انقلاب کے ہاتھوں فلسطینی کاز کا احیاء
اسلامی انقلاب نے مسئلہ فلسطین کے احیاء اور فلسطینی کاز کو تنہائی سے نکال کر عالمی سیاست کے مرکز میں منتقل کیا؛ اور یہ اسلامی انقلاب نے ماہ رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم القدس کے طور پر متعارف کرایا جبکہ اس سے پہلے ایسا کوئی دن وجود نہيں رکھتا تھا۔ دوئم یہ کہ تہران میں اسرائیلی سفارتخانہ فلسطینی سفارتخانے میں بدل دیا؛ اور سوئم یہ کہ فلسطین اور مقاومت (مزاحمت) کے بارے میں بات چیت اور تذکروں نے سنجیدگی شکل اختیار کی۔ قبل ازیں، مقاومت کے معطیات اور مندرجات سیکولر تھے اور اسلامی مقاومت کے نام کی کوئی چیز نہیں تھی؛ چنانچہ اسلامی مقاومت ایک ایسے مفہوم میں بدل گئی جس کا کوئی متبادل نہیں ہے اور اس نے – بالخصوص حالیہ ایام میں – اپنی منطق کو صہیونی دشمن نیز بین الاقوامی اور علاقائی قواعد پر مسلط کرلیا ہے۔ یہاں تک کہ غاصب اسرائیلی ریاست نے پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کا دامن تھام لیا اور جنگ بندی کی اپیلی کرنے لگی۔ اسلامی انقلاب سے پہلے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے خطے اور عالمی برادری کا تعامل ایک طرف رسمی بات چیت پر مبنی تھا اور دوسری طرف پارینگی اور یکسانیت (Monotony) کا شکار ہوچکا تھا؛ اور پھر رفتہ رفتہ سیاسی راہداریوں اور شاہ نشینوں میں داخل ہؤا اور سیاسی سودے بازیوں کا شکار ہؤا تھا۔ اسلامی انقلاب کامیاب ہؤا تو اس مسئلے کو تازہ زندگی عطا کی اور فطری دھارے میں لوٹا دیا۔؛ کیونکہ یہ مسئلہ دنیا کے مسلمانوں اور حریت پسندوں کے ہاں کا مرکزی اور بنیادی مسئلہ ہے۔
خطے میں مغربی نظریات اور ثقافت کی دراندازی کی وجہ سے مسلمانوں کا تشخص زوال و انحطاط کا شکار ہوچکا تھا لیکن اسلامی انقلاب نے “اسلام پر فخر کرنے” کو ایک عقیدے، تشخص اور عظیم طاقت میں بدل دیا۔
انقلاب اسلامی کے جیو-پولیٹیکل (Geo-political) اثرات کی بہترین توصیف اس کے ہٹ دھرم ترین دشمن اور اس زمانے کے صہیونی وزیر جنگ موشے دایان نے بیان کی تھی اور کہا تھا: “اسلامی انقلاب ایک بھونچال ہے جس نے خطے پر لرزہ طاری کیا اور اس بھونچال کی کوئی انتہا نہیں ہے”۔
انقلاب اسلامی سے پہلے دنیا اور خطے کے ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کے دو پہلو تھے: 1۔ تسلط پسند بڑی طاقتوں کے آگے ایران کی عدم خودمختاری؛ کیونکہ اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں تھا؛ 2۔ یہ ممالک اور خطے اور بالخصوص خلیج فارس کی بہت سی ریاستیں ایران اور شاہ کو ایک علاقائی تسلط پسند طاقت سمجھتی تھیں جو تمام قواعد کا تعین کرتے تھے۔
انقلاب اسلامی کے بعد، ایران ایک آزاد اور خودمختار ملک بن گیا جو اپنے قومی مفادات کے لئے کوشاں ہے۔ ایران نے دوسروں کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور پڑوسی ممالک کی مدد کررہا ہے اور ان کے قومی مفادات اور سالمیت و خودمختاری کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
دشمن ممالک نے اسلامی جمہوریہ پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں صدامِ معدوم کی حمایت کی؛ خطے کے بعد ممالک نے اسلامی جمہوریہ کو گلے لگانے اور اس کے تعامل و تعاون کرنے کے بجائے، اس کے ساتھ حسد برتنے لگے اور اس کا محاصرہ کرلیا اور کھربوں ڈالر ایران کے خلاف سازشوں اور جنگ پر خرچ کئے؛ اور آج حالت یہ ہے کہ اسی دشمنانہ حاسدانہ رویئے نے ان کی اندرونی سلامتی تک کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ان کا یہ رویہ ایک مثبت عنصر بننے کے بجائے ایک غیر تعمیری عنصر بن کر ابھرا؛ اس لئے کہ یہ ممالک اندرون خانہ افسوسناک سیاسی، معاشی اور سماجی صورت حال کی بنا پر اپنی قوموں کی بیداری اور آگہی سے خوفزدہ تھے اور انہیں ڈر تھا کہ ان کی مظلوم قومیں کہیں اپنی رائے پر استوار قومی حکومت کے قیام کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے لئے مثال اور نمونہ نہ قرار دیں۔ خطے کے ممالک نے یہ الٹا موقف اسلامی بیداری سے خوف کی بنا پر اختیار کیا اور ساتھ ہی بڑی طاقتیں کہلانے والے ممالک بدستور فکرمند تھے کہ شاہ کے چلے جانے کی وجہ سے ان کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے؛ چنانچہ ان کی کوشش تھی کہ خطے میں انقلاب کی کرنوں کے سامنے ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ بننے کی کوشش کی۔
– ایران سب سے بڑی علاقائی طاقت ہے/ جس نے پابندیوں کو مواقع میں بدل دیا ہے
ان میں سے کچھ کا تصور یہ تھا کہ گویا انقلاب ایک عارضی کیفیت ہے جسے محاصرے میں لے کر ختم کیا جاسکتا ہے، لیکن آج 43 سال کے محاصرے اور پابندیوں کے بعد ایران سب سے بڑی علاقائی طاقت ہے جو درآمدی ہتھیاروں پر انحصار نہیں کرتا۔ اور سب سے بڑی سائنسی طاقت ہے جو اپنی ضرورت کی ہر چیز درآمد نہیں کرتا۔ ایران نے ناکہ بندی، محاصرے اور پابندیوں کو – اپنی عسکری اور دفاعی صلاحیتوں کی ترقی اور توسیع کے لئے – مناسب مواقع میں تبدیل کیا اور آج ایران دنیا کے ان معدودے چند ممالک میں سے جو ہلکے اور درمیانے ہتھیار درآمد نہیں کرتا اور عنقریب بھاری ہتھیاروں میں بھی خودکفیل ہونے والا ہے۔
– عراق کے بہت سے عوامی طبقات نے اسلامی انقلاب اثرات قبول کرلئے
عراق ایران کا ایسا ہمسایہ ملک ہے جس کی 1300 کلومیٹر سرحد اس ملک سے ملتی ہے اور ان کے درمیان تاریخی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی و تہذيبی روابط برقرار ہیں چنانچہ عراق پہلا ملک تھا جس نے اسلامی انقلاب کے اثرات قبول کر لئے اور یہ اثرات عراق کے لئے خیر و برکت کا باعث بنے کیونکہ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) 14 سال کے طویل عرصے تک عراق میں قیام پذیر تھے، دوسرا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کے متعدد مقامات مقدسہ اور مشارف مطہرہ عراق میں ہیں اور تیسری بات یہ تھی کہ ایران اور عراق کے حوزات علمیہ انقلاب اسلامی کے حوالے سے فکری تعاملات میں جڑے ہوئے تھے اور یہ سارے اسباب و عوامل اثر گذار تھے، کیونکہ عراق کے شیعہ ہی نہیں بلکہ سنی کرد بھی اسلامی انقلاب سے آ ملے؛ چنانچہ عراق کے بہت سارے طبقات نے اسلامی انقلاب کے اثرات قبول کرلئے۔ عراق پر مسلط صدام کی بعث پارٹی کے حکمرانوں نے دیکھا کہ عراقی عوام اسلامی انقلاب کا پرتپاک خیرمقدم اور انقلاب اسلامی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں تو اس نے آتش و آہن کے ذریعے ہر اسلامی جذبے اور ہر مخالف آواز کو دبانے کی کوششیں شروع کیں یہاں تک کہ اس نے اسلامی جمہوریہ ایران پر طویل جنگ مسلط کر دی تاکہ ملک کے اندر سڑکوں پر آنے والے مخالف کو کچل دے اور توپوں اور ٹینکوں کی گھن گرج کے ذریعے سڑکوں پر موجود مخالفوں کی صدائیں خاموش کر دے۔
کسی بھی اسلامی اور مخالف آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ ایران کے ساتھ ایرانیوں کا تعامل و تعاون بہت وسیع اور قوی تھا۔ اسی تعاون اور تعامل نے اسلامی بیداری کے اسباب فراہم کئے جسے ہم آج بڑے بڑے عناوین کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں جیسے: الحشد الشعبی، اور اسلامی جماعتیں اور تحریکیں وغیرہ؛ جنہیں انقلاب اسلامی اور شہید سید محمد باقر الصدر کی تحریک نے پروان چڑھایا ہے۔
اسلامی تحریکیں آج پورے عالم اسلام میں اسلامی تحریکیں سرگرم عمل ہیں، جبکہ قبل ازیں مارکسسٹ، قوم پرست اور ملک پرست تحریکیں سرگرم عمل تھیں۔ آج اسلامی تحریکیں شمالی افریقہ میں طنجہ کے مقام سے لے کر انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ اور اس ملک کے دوسرے شہروں تک، بحیرہ عرب (Arabian Sea) سے بحیرۂ روم (Mediterranean Sea) تک اور بحیرہ قزوین (یا بحیرہ مازندران = Caspian Sea) سے بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) تک فعال اور سرگرم ہیں۔ چنانچہ یہ ایک قاعدہ رہا ہے کہ اسلامی تحریکیں اپنی تشکیل سے ہی قابض اور غاصب قوتوں اور استبداد و آمریت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرتی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اپنی ملوکوں کی حکمرانی اور قومی فیصلہ سازیوں میں اپنے اور اپنے منصوبوں کے لئے مناسب حیثیت و کردار کی گنجائش پیدا کریں۔
عراق میں آج اسلامی تحریکوں کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔ یہ تحریکیں سنہ 2003ع میں (عراق پر امریکی قبضے کے بعد) پیدا نہیں ہوئیں بلکہ اس سے بہت پہلے عراق میں موجود تھیں اور انھوں نے 2003ع میں، ایک قومی پروگرام کے تحت، قومی سطح کے بعض شرکاء کے ساتھ مفاہمت اور اقتدار کا کچھ حصہ حاصل کرلیا اور یہ یہی اسلامی دھارا ملک کی آزادی اور خودمختاری اور اسرائیل کے اثر و نفوذ کے سد باب کا ضامن ہے، اور عراق کی ملکی سالمیت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اسلامی دھارے کی بقاء اس قوم اور عراقی عوام کے وجدان و ضمیر کی بقاء کی ضامن ہے۔ گوکہ اسلامی تحریکوں اور تنظیموں کو باہر سے بھی اور اندر سے بھی بعض رکاوٹوں کا سامنا ہے، لیکن انہیں کوئی بھی طاقت مٹا نہیں سکتی، اسلامی تفکر آج پورے عراق میں علمائے مجاہد، انقلابی راہنماؤں، انقلابی جماعتوں اور الحشد الشعبی کے ذریعے پوری عراق میں جاری سیاسی عمل کی قیادت کررہا ہے۔
جاری۔۔۔
تبصرہ کریں