ایران کے ساتھ جنگ کا تصور اور بےخوابی

اٹزیون نے اس مکالمے میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے اور ایران کی طرف سے ایٹم بم کے حصول کی کوششوں اور تل ابیب پر ایٹمی حملے جیسے موضوعات کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ سب محض ایک سیاسی نعرہ ہے، اور حتی اگر ایران کے پاس ایٹم بم ہو بھی، وہ اسے استعمال نہیں کرے گا۔

فاران؛ مکالمے کے ایک حصے میں اتزیون نے ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۳ تک کے عرصے میں تل ابیب اور تہران کے درمیان جنگ کے امکان کے حوالے سے نیتن یاہو پر ضمنی تنقید کرتے ہوئے کہا: “میں نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے، اس وقت بھی جب میں قومی سلامتی کونسل میں تھا اور اس وقت بھی جب وزارت خارجہ میں تھا؛ ایسی کئی باتیں ہیں جن کے بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اگر میری بیوی یہاں ہوتی تو وہ آپ سے کہہ دیتیں کہ کتنی راتیں ایسی گذریں جب میں سو ہی نہ سکا، اس لئے نہیں کہ میں اپنے دفتر میں کام کررہا تھا، بلکہ اس لئے کہ میں بہت زیادہ فکرمند تھا”۔
۔ آپ اس وقت کس چیز سے خوفزدہ تھے؟
۔ میں بالواسطہ وضاحت کرتا ہوں۔ ایران کا مسئلہ ایک کلاسک مسئلہ ہے جس میں سفارتی اور عسکری شعبوں کے درمیان ہمآہنگی کی ضرورت ہے۔ ایک شہری اور ایک پیشہ ور شخص کے طور پر میرا مطالبہ یہ ہے کہ ریاست ان دونوں عناصر کے موقف کو عیاں کرے؛ لیکن ہماری ریاست سفارتی پہلو کو نمایاں نہیں کیا کرتی؛ اور اگر کبھی سفارتی پہلو کو نمایاں کرنا بھی چاہے تو اس کو توڑ مروڑ کر اور غیر پیشہ ورانہ انداز سے نمایاں کرے گی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ سیاسی اور سفارتی شعبے بالکل ملے جلے شعبے ہیں۔ جو لوگ اس شعبے سے منسلک ہیں، ان کا تصور یہ ہے کہ گویا سفارتکاری کو سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں معاشرے کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ زندگی اور موت سے متعلق موضوعات ہیں۔ ہم ابتداء ہی میں وزارت خارجہ میں اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ممکن ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کسی وقت مفاہمت ہوجائے اور اس سلسلے میں زیادہ بحث و تمحیص غیر مقید ہے۔ لیکن کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کسی بات کو سمجھ لیں لیکن سیاسی شعبے کی حمایت حاصل نہ کرسکیں؟

۔ ایران کے بارے میں کئی عناصر پر غور کیا جاسکتا ہے: جوہری عنصر، علاقے میں دہشت گردی اور تخریبی کاروائیوں کا عنصر، میزائل ٹیکنالوجی کا عنصر، ائیڈیالوجی ـ تھیالوجی ـ نظریاتی، عنصر؛ تصور یہ تھا کہ ایک وسیع محاذ میں ایران کا سامنا کیا جاسکتا ہے اور کرنا بھی چاہئے اور ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرنا چاہئے۔ اس روش کو ایک بڑی ڈیل (grand bargain) کا نام دیا گیا تھا۔ جس کے تحت ہم تمام موضوعات پر بحث کرتے اور مفاہمت تک پہنچتے اور اسی دائرے میں ایران کے نظام حکومت کی مشروعیت (Legitimacy) کو تسلیم کرتے۔ طویل عرصے سے ایرانیوں کی بڑی فکرمندی ـ جو ان کے خیال میں جائز بھی تھی ـ نظام کی تبدیلی کی کوششوں سے عبارت ہیں۔ ان کو اس سے قبل بھی ایسے تجربے سے گذرنا پڑا ہے چنانچہ وہ حق بجانب ہیں۔