ثقافتی تبادلہ سے ثقافتی یلغار تک

شک نہیں کہ مختلف معاشروں میں ثقافتی تبادلے ہوتے ہیں لیکن توجہ کی ضرورت ہے کہ تبادل تقابل کی صورت اختیار نہ کر لے قابل ذکر ہے کہ ثقافتی تبادلے اور ثقافتی یلغار (Cultural Exchange vs. Cultural Invasion) میں بنیادی فرق نیت، طریقہ کار، اور اثرات کا ہوتا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہم جس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں گوناگوں ثقافتیں پروان چڑھ رہی ہیں مختلف تہذیبیں جنم لے رہی ہیں پھل پھول رہی ہیں مشترکہ تہذہبیں بھی اسی دنیا کی دین ہیں ۔ایک دہیات کی شکل میں سکڑتی دنیا میں ممکن نہیں کہ انسان دوسروں کی تہذیب و ثقافت سے روبرو نہ ہو ۔تہذیبوں کے مایبن جہاں گفتگو کی بات ہے وہیں تصادم کا نظریہ بھی گزشتہ چند سالوں سے میں زیر بحث رہا ہے ۔
ثقافت اور اس کی اہمیت :
آج کے دور میں ہم سب کا ایک اہم مسئلہ “ثقافت” ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا اس مسئلے پر زور دیا ہے حتی کچھ برسوں قبل پورے ایک ساک کا نام “معاشی اور ثقافتی ترقی، قومی عزم اور جہادی انتظام” رکھا تھا ۔ آپ نے ثقافت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا تھا کہ ثقافت، معیشت سے زیادہ اہم ہے؛ کیونکہ اگر معیشت میں کوئی رخنہ پیدا ہو جائے تو اُسے راشن یا امداد جیسے ذرائع سے کسی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر ثقافت میں رخنہ آ جائے تو اس کے خطرات ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔
اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بالخصوص موجودہ دور میں ثقافت کا موضوع کس قدر اہم ہے۔ درحقیقت، رہبر انقلاب اسلامی پچھلی دو دہائیوں سے مختلف مواقع پر ثقافت، ثقافتی یلغار، اور ثقافتی حملے جیسے موضوعات پر بار بار تاکید فرماتے آئے ہیں، اگرچہ آپ کے حالیہ چند برسوں بیانات اس بات کی علامت ہیں کہ اس وقت ثقافتی مسائل کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، یہ بیانات بہت پراثر اور گہرے مفہوم کی حامل ہیں۔
ثقافت کی اہمیت پر مزید غور و فکر کی ضرورت
اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ ثقافت بہت اہم ہے، پھر بھی ہمیں اس کی نوعیت اور اس اہمیت کی گہرائی پر مزید غور کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیا واقع ہوا ہے کہ رہبر انقلاب نے اتنی شدت کے ساتھ ثقافت پر زور دیا اورثقافت کو نہ صرف مرکزی حیثیت دی اسے معیشت سے بھی زیادہ اہم قرار دیا گیا۔
اس بات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر مفصل بحث کریں، جو کہ ایک طویل وقت کا تقاضا کرتی ہے۔ فی الحال ہم مختصراً اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں ثقافت کی اہمیت کیا ہے، تب شاید ہم بہتر طور پر سمجھ سکیں ۔
انسان کا تدریجی ارتقاء اور ثقافت:
انسان کی تمام حرکات پیدائش کے وقت سے کسی نہ کسی ایسی چیز سے جڑی ہوتی ہیں جسے ہم “غریزه” کہتے ہیں۔ مثلاً: شیرخوار بچہ دودھ پینا پسند کرتا ہے۔ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اُسے محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اس سے اگلے مرحلے میں اُسے کھیلنے اور کھلونوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ان تمام حرکات کی مختلف صورتیں ہم جانوروں میں بھی دیکھتے ہیں؛ ہر جانور کھانا کھاتا ہے اور اپنی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ جانوروں کے بچے بھی کھیل کود میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان تمام اعمال کی ایک خاصیت یہ ہے کہ ان میں “کیوں” کا سوال شامل نہیں ہوتا؛ جب بھوک لگتی ہے تو خوراک کی تلاش میں لگ جاتے ہیں، اور اس بارے میں نہیں سوچتے کہ ہمیں کھانے کی ضرورت کیوں ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ اگر کوئی ضرورت محسوس ہو تو اُسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اعمال — جن میں ایک حد تک شعور بھی شامل ہے، اور جو پودوں کی مانند محض حیاتیاتی نہیں — کسی اندرونی محرک کے تحت انجام پاتے ہیں۔ عمل کرنے والا سمجھتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے، اور ایسے اعمال سے لذت بھی حاصل کرتا ہے، اگرچہ وہ ان کے بارے میں نہیں سوچتا جب وہ کسی عمل سے لذت پاتا ہے، تو اس کا جذبہ اور زیادہ ہو جاتا ہے اور اگلی بار اس لذت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ شدت سے وہ عمل انجام دینا چاہتا ہے۔
انسان میں “ثقافت” کے تصور کے پیدا ہونے کی بنیاد — اردو ترجمہ
ثقافت کے تصور کے پیدا ہونے کا پس منظر
رفتہ رفتہ اور وقت گزرنے کے ساتھ انسان میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ جو کام کر رہا ہے، وہ کیوں کر رہا ہے؟ وہ پوچھتا ہے: “کیوں اور کس لیے یہ کام کر رہا ہوں؟” یہ انسان میں ایک خاص قسم کی ادراکی (فہمی) ترقی کا مرحلہ ہوتا ہے جو اُسے حیوانی سطح سے بلند کر دیتا ہے۔ ایک نیا زاویہ انسان پر کھلتا ہے اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ کچھ کام ایسے ہیں جنہیں اُسے انجام دینا چاہیے اور کچھ کام ایسے ہیں جنہیں اُسے نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی، اب اعمال کے پیچھے ایک “کیوں” موجود ہوتا ہے۔
یہی سے آہستہ آہستہ اُس تصور کی بنیاد پڑتی ہے جسے بعد میں ہماری علمی اصطلاحات میں “ثقافت” کہا گیا۔ یعنی انسان، تربیت، خاندان اور دیگر عوامل کے زیر اثر، ایسے اندرونی محرکات حاصل کرتا ہے جن کے ذریعے وہ “کیوں” کے جوابات کو سمجھنے لگتا ہے، اور پھر رفتہ رفتہ اچھائی اور برائی اُس کے لیے معنی رکھنے لگتی ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ بعض کام اچھے ہوتے ہیں، جنہیں کرنا چاہیے، اور بعض برے ہوتے ہیں، جن سے بچنا چاہیے؛ جبکہ پچھلے دور میں ایسا کچھ نہیں تھا — جب بھوک لگتی تو کھانا کھا لیا جاتا، اس میں اچھائی یا برائی کا سوال نہیں ہوتا تھا۔
انسان کی “ثقافت پذیری” کی خصوصیت:
تمام انسانی معاشروں میں، جن کا تاریخی ریکارڈ قدیم زمانے سے ہمیں ملا ہے، انسان کے اندر ایک خاص عمر میں یہ شعور پیدا ہونے لگتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری عمومی زبان میں یہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب انسان کے اندر”سمجھ” پختہ ہوتی ہے، یا وہ عقل حاصل کرتا ہے، تو وہ ان “چاہیے” اور “نہیں چاہیے” کے اصولوں کو سمجھنے لگتا ہے۔ کیونکہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت کا حکم عقل ہی دیتی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں دنیا کی مختلف اقوام اور معاشروں میں، جن کا ہمیں علم ہے، کچھ “چاہیے” اور “نہیں چاہیے” جیسے اصول سامنے آتے ہیں، کچھ افراد نے انسان کے اس طرزِ عمل کا مطالعہ کیا اور اسے”ثقافت” کا نام دیا بعد میں یہ تصور پیدا ہوا کہ ہر قوم کی ایک مخصوص ثقافت ہوتی ہے اور وہ اپنے مخصوص “چاہیے” اور “نہیں چاہیے” کے اصولوں پر عمل کرتی ہے۔
اس بیان کی روشنی میں “ثقافت پذیری” کو انسان کی ایک امتیازی خصوصیت سمجھا گیا۔ سماجی علوم کے ماہرین نے کلاسیکی منطق میں استعمال ہونے والے حیوان ناطق” (یعنی بولنے والا حیوان) کے بجائے “ثقافت پذیر حیوان” کی اصطلاح استعمال کی۔ ان کے بقول، بچہ اُس وقت نشوونما پاتا ہے اور ایک شخصیت کی صورت اختیار کرتا ہے جب وہ ثقافت قبول کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
ثقافتی تبادلہ یا تقابل:

شک نہیں کہ مختلف معاشروں میں ثقافتی تبادلے ہوتے ہیں لیکن توجہ کی ضرورت ہے کہ تبادل تقابل کی صورت اختیار نہ کر لے قابل ذکر ہے کہ ثقافتی تبادلے اور ثقافتی یلغار (Cultural Exchange vs. Cultural Invasion) میں بنیادی فرق نیت، طریقہ کار، اور اثرات کا ہوتا ہے۔

1. ثقافتی تبادلہ (Cultural Exchange):

جب دو یا زیادہ ثقافتیں باہمی احترام، رضامندی، اور دلچسپی کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خیالات، رسم و رواج، موسیقی، زبان، کھانے، لباس، یا اقدار کو سیکھتی اور اپناتی ہیں تو اسے ثقافت کے تبادل کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔

یہاں پر نیت کا مطلب ہے سیکھنے، سمجھنے اور قربت بڑھانے کی خواہش کسی چیز کی طلب جس یہ مثبت بھی ہو سکتی ہےمنفی بھی لیکن جہاں تبادل ہے وہاں منفی نیت نہیں ہے ۔

مثال کے طور پر ہمارے معاشرے کا کوئی نوجوان جاپانی اینیمے سے متاثر ہو کر جاپانی زبان سیکھنا شروع کرے، یا کوئی امریکی و یورپی شخص قوالی بھجن دوہوں وغیرہ سے لطف اندوز ہو۔یا فرض کریں کوئی نوحوں یا مرثیوں میں دلچسپی لے اور میر انیس و دبیر کو پڑھنے لگے تو اسکا نتیجہ باہمی رواداری، ہم آہنگی اور احترام کی صورت سامنے آئے گا ۔یہ ثقافتی تبادل ہوگا

2. ثقافتی یلغار (Cultural Invasion):

ثقافتی تبادل کے برعکس جب ایک طاقتور یا غالب ثقافت کسی کمزور یا ناپسندیدہ ثقافت پر اپنے خیالات، طرزِ زندگی یا اقدار کو مسلط کرتی ہے، اکثر تجارت، سیاست یا میڈیا کے ذریعے کے ذریعہ ایسا ہوتا ہے تو اس میں نیت تسلط، شناخت کو بدلنا یا اثر و رسوخ قائم کرنا ہوتی ہے

مثال کے طور پر مغربی میڈیا کے ذریعے مقامی اقدار کو “قدیم” یا “پسماندہ” ظاہر کر کے اپنی ثقافت کو “جدید” اور “ترقی یافتہ” بنا کر پیش کرنا۔ اسکا نتیجہ مقامی ثقافت کا زوال، ثقافتی تشخص کی کمزوری، اور شناخت کے بحران کی صورت سامنے آتا ہے ۔
آج کی دنیا میں “ثقافتی یلغار” ایک ایسا لفظ ہے جس کا مطلب صرف بیرونی لباس یا زبان کی تبدیلی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ گہرا اور خطرناک ہے۔ اس کا اصل ہدف ایک قوم کی فکری، دینی اور تہذیبی بنیادوں کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔
ثقافت پر حملہ کیسے ہوتا ہے؟

ثقافت بہت سی چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے، جیسے:

ہمارے عقائد (توحید،، معاد، نبوت و۔۔۔)

ہمارے اقدار (مثلاً حلال و حرام، نیکی و بدی کا تصور)

رسم و رواج، زبان، لباس، ادب، فنون، اور سب سے بڑھ کر دینی معارف

مثال: اگر ایک قوم کی نوجوان نسل کو میڈیا یا تعلیمی نظام کے ذریعے یہ باور کروایا جائے کہ مذہب صرف ایک پرانی رسم ہے اور جدید زندگی میں اس کی کوئی جگہ نہیں، تو یہ ثقافتی یلغار کی ایک شکل ہے۔

مشرقی اقوام کی اصل شناخت اور ثقافتی یلغار:

مشرق، خاص طور پر اسلامی ممالک، اپنی روحانیت، اخلاقیات، معرفت اور معنویت کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔
جبکہ مغرب اپنی ٹیکنالوجی، سائنسی ترقی اور مادی نظریات کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر مغرب کے پاس Apple، Google اور Amazon جیسی کمپنیاں ہیں، لیکن مشرق کے پاس ، سعدی، مولانا روم ، امام خمینی، شہید مطہری ، علامہ غلام عسکری و اقبال جیسے مصلحین و مفکرین ہیں، جنہوں نے انسان کو “انسان” بننے کا درس دیا۔

دشمن کو ہماری روحانیت کیوں کھٹکتی ہے؟

کیونکہ مغرب کا نظام زیادہ تر مادہ پرستی (Materialism) پر مبنی ہے، جہاں کامیابی صرف پیسے، طاقت اور شہرت سے ناپی جاتی ہے۔
جبکہ اسلام انسان کو تزکیہ نفس، خدمتِ خلق اور خدا سے تعلق کی تعلیم دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک مسلمان نوجوان اگر نماز، روزہ اور حلال و حرام کا خیال رکھتا ہے تو وہ مغربی نظریات سے متاثر ہو کر ہر قسم کی آزادی کو قبول نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں چاہتے ہیں کہ مسلمان نوجوان اپنی شناخت کھو دیں تاکہ انکے رنگ میں رنگ جائیں

ثقافتی یلغار کے طریقے

دشمن براہ راست حملہ نہیں کرتا بلکہ وہ تعلیم، میڈیا، انٹرنیٹ، فیشن، فلموں، ڈراموں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری سوچ کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔
مثلاہالی وڈ و بالی ووڈ یا نیٹ فلکس پر آنے والی فلمیں جن میں اسلامی روایات کو دقیانوسی یا پسماندہ دکھایا جاتا ہے یا مسلمانوں کو لڑائی جھگڑا کرنے والا دکھایا جاتا ہے یا وہ اشتہارات جو مغربی طرزِ زندگی کو “کامیابی” کی علامت بنا کر پیش کرتے ہیں حتی
تعلیمی نصاب میں اسلامی تاریخ و اقدار کو کم اہمیت دینا یا مسخ کرنا۔
یہ ثقافتی یلغار کے عناصر ہیں
ہم کیا کر سکتے ہیں؟

اگر ہم اس حملے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے

اپنے دشمن کو پہچانیں (کون ہے، کیوں حملہ کر رہا ہے)
ان کے طریقے اور حربے سمجھیں
اپنے نوجوانوں کی فکری تربیت کریں
اسلامی تعلیمات اور اپنی زبان، تہذیب و تاریخ سے محبت پیدا کریں

مثال کے طور پر جیسے ہی کوئی وائرس حملہ کرتا ہے، ڈاکٹر سب سے پہلے وائرس کی شناخت کرتے ہیں، اس کے بعد دوا تجویز کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی پہلے “ثقافتی وائرس” کو پہچاننا ہوگا، تب ہی ہم اس کا حل نکال سکتے ہیں۔
ثقافتی یلغار ایک خاموش جنگ ہے جس میں گولیاں نہیں، بلکہ خیالات، نظریات اور اقدار پر حملہ ہوتا ہے۔ اگر ہم ہوشیار نہ ہوئے تو ہماری اگلی نسلیں نہ صرف اپنی شناخت کھو دیں گی بلکہ مغربی اقدار کی غلامی میں بھی چلی جائیں گی۔
لہذا ضروری ہے کہ اپنی شناخت کو قائم رکھیں اس پر فخر کریں اور آگے بڑھتے رہیں ترقی کی منزلوں کو طے کرتے رہیں ۔