فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکہ کی تحریر الشام کے حوالے سے دوہری پالیسی نے ماہرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ امریکہ نے اس گروپ کو اپنی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، لیکن اس کے سابقہ حکام نے تحریر الشام کو “امریکہ کا اثاثہ” قرار دیا ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی عالمی رپورٹ: “شام میں تحریر الشام موجودہ امریکی حکمت عملی کے لیے ایک اثاثہ ہے”۔ یہ وہ جملہ ہے جو جیمز جیفری، شام میں داعش کے خلاف مغربی اتحاد کے خصوصی سابق نمائندے، نے امریکی میڈیا کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا۔
اس امریکی عہدیدار نے سی بی ایس نیٹ ورک کو دیے گئے انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ “وہ (تحریر الشام) ادلب کے حوالے سے مختلف دستیاب آپشنز میں سے سب سے کم برے ہیں، اور یہ علاقہ شام کے سب سے اہم علاقوں میں شامل ہے، جبکہ شام مشرق وسطیٰ کے اہم ترین خطوں میں سے ایک ہے۔”
شام میں امریکہ کے سابق خصوصی نمائندے نے اس وقت امریکہ اور تحریر الشام کے تعلقات کے پیچھے چھپے حقائق کو بے نقاب کیا جب ان کا ملک بظاہر بار بار ابو محمد الجولانی (احمد الشرع) کی قیادت والے گروپ کو اپنی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رہا تھا۔ واشنگٹن نے یہاں تک کیا کہ جولانی کی گرفتاری کے لیے 10 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا، لیکن یہ حکم حالیہ دنوں جولانی کے اقتدار میں آنے کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔
جفری نے شام میں واشنگٹن کی فوجی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور ان کی ٹیم نے اکثر شام میں موجود امریکی فوجیوں کی اصل تعداد اس وقت کے صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) سے چھپائی تھی۔
جولانی: ہم کبھی بھی امریکہ یا یورپ کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے
تحریر الشام، جسے پہلے “جبهة النصرہ” کے نام سے جانا جاتا تھا اور جو القاعدہ سے منسلک رہا ہے، ماضی میں کئی بار امریکہ کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کر چکا ہے۔ اس گروپ کے سربراہ، الجولانی، نے پہلے اپنے ایلک انٹرویو میں زور دیا تھا کہ “تحریر الشام خطے میں مغرب کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف رکھتی ہے، لیکن کبھی بھی امریکہ یا یورپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ ہمارا کردار شامی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنا ہے، اور ہم ان ممالک سے، جنہوں نے ہمیں دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا ہے، مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔”
یہ گروہ امریکی مفادات کے تحفظ اور خود کو امریکہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کی کوشش میں شام میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں سے جھڑپوں میں ملوث رہا ہے۔ تحریر الشام نے ادلب شہر اور اس کے مضافات میں دہشت گرد گروہ “حراس الدین” کے ارکان کے گھروں پر حملہ کرکے اس گروہ کے 6 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ حراس الدین القاعدہ سے وابستہ ایک گروہ ہے۔
شامی اخبار “الوطن” نے اس معاملے کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا: “حراس الدین کے غیر شامی عناصر سمیت حالیہ گرفتاریوں کا اقدام جبهة النصرہ کی جانب سے امریکی مفادات کے حق میں الجولانی کی کوششوں کا حصہ ہے تاکہ وہ ظاہر کر سکے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔”
“اسد کو جانا ہوگا”
“اسد کو جانا ہوگا” یہ جملہ حالیہ برسوں میں امریکی اور بعض اوقات یورپی حکام کے سب سے زیادہ دہرائے جانے والے بیانات میں سے ایک رہا ہے۔ امریکہ کے اعلیٰ سطحی حکام بارہا اسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ باراک اوباما، ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ ان نمایاں شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے شام کے سابق صدر بشار الاسد کی برطرفی پر زور دیا تھا۔
اسد کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد امریکی حکام کے ردعمل نے بھی شام کی سابق حکومت کو گرانے کی امریکی کوششوں کو واضح کر دیا۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سینئر رکن، “جیم راش” نے اس بات کا کھلے عام انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے اسد حکومت کو گرانے کے لیے برسوں کام کیا اور آخر کار اپنا کام مکمل کر لیا۔”
بائیڈن انتظامیہ کے حکام نے اگرچہ تحریر الشام کو امریکی امداد فراہم کرنے کی تردید کی ہے، لیکن شام میں موجودہ حالات کو امریکی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان، میتھیو ملر، نے اسد کے سقوط کے ایک دن بعد واضح کیا تھا کہ امریکی پالیسیوں نے “اس صورتحال کو جنم دیا جس میں ہم آج موجود ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ یہ پالیسیاں اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں میں تیار ہوئیں اور اب تک جاری ہیں، اور ان کے مطابق کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
وہائٹ ہاؤس کے ترجمان، جان کربی، بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے شام کے واقعات میں امریکہ کے کردار کا اعتراف کیا اور اسے بائیڈن کی پالیسیوں سے منسوب کیا۔ انہوں نے 10 دسمبر (20 آذر) کو اسد کے سقوط کے دو دن بعد اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ “ہم یقین رکھتے ہیں کہ شام میں ہونے والی تبدیلیاں صدر بائیڈن کی مضبوط خارجہ پالیسی کو ثابت کرتی ہیں۔”
امریکی قومی ریڈیو (این پی آر) نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں تحریر الشام کو دی جانے والی اقتصادی امداد پر تبصرہ کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ قیاس آرائیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ گروہ ترکی، یوکرین، خلیجی ممالک، حتیٰ کہ سی آئی اے (امریکی خفیہ ایجنسی) اور اسرائیل سے مالی، عسکری اور تربیتی امداد حاصل کر رہا تھا۔
جولانی کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا اور گرفتاری کے حکم کی منسوخی
واشنگٹن نے شام پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنے اقدامات جاری رکھتے ہوئے، جولانی کے دمشق میں اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ہفتے بعد ایک وفد کو شام بھیجا تاکہ تحریر الشام کے سربراہ کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی جا سکے۔
امریکہ نے جولانی کی گرفتاری کے حکم کو بھی منسوخ کر دیا، جس پر 10 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا گیا تھا، تاکہ احمد الشرع (جولانی) کے ساتھ کھلی شراکت کے اپنے عزم کو ظاہر کر سکے۔
اس کے علاوہ، واشنگٹن بارہا تحریر الشام کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے نکالنے کے امکان کا ذکر کر چکا ہے۔ یہ معاملہ بظاہر مستقبل میں، امریکہ کی خطے میں پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، عملی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں