فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فلسطینیوں کا رمضان کی آمد پر اسرائیلی صفحات کی مبارکبادی کے پیغامات پر ردعمل حیرت، غصے اور سوالات کے واضح نشانات کا امتزاج ہے کہ ایک قابض حکومت کی گستاخی کی حد کہاں تک ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی امور، فارس نیوز ایجنسی: سوشل میڈیا پر عربی زبان میں سرگرم اسرائیلی سرکاری صفحات رمضان کے آغاز پر مبارکبادی کے پیغامات سے بھر گئے ہیں، جو کہ عرب اور اسلامی دنیا میں اپنی شبیہ بہتر بنانے کی اسرائیلی پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر صفحات براہ راست اسرائیلی فوج یا دیگر سرکاری اداروں جیسے وزارت خارجہ اور وزارت اطلاعات کے زیر انتظام ہیں۔
تاہم، ایسے مبارکبادی کے پیغامات پر عرب صارفین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ بہت سے افراد نے لکھا ہے کہ اسرائیل برسوں سے کھلے عام فلسطینیوں اور عمومی طور پر مسلمانوں کے قتل کی تبلیغ کر رہا ہے، اور غیر یہودیوں کو قتل کرنا وہاں جائز سمجھا جاتا ہے۔ ایسی مبارکبادیں “گستاخانہ” قرار دی جا رہی ہیں۔
اس کے علاوہ، متعدد یہودی مذہبی رہنماؤں کی جانب سے فلسطینیوں اور مسلمانوں کے خون کو مباح قرار دینے کی مثالیں بھی دی گئی ہیں تاکہ قابض حکومت کے حقیقی چہرے کو واضح کیا جا سکے۔
“شریعت بادشاہ”: بچوں اور خواتین کے قتل کی اجازت
2023 کے اوائل میں، اسرائیل کے سابق وزیر عامی آیالون نے اپنی ایک کتاب میں ایک ملاقات کا ذکر کیا، جو انہوں نے مشہور یہودی خاخام یتسحاق شاپیرا سے کی تھی۔ یہ وہی خاخام ہے جس نے عرب بچوں کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا۔
اس فتویٰ کی بنیاد یہ تھی کہ “عرب بچے بڑے ہو کر برے لوگ بن سکتے ہیں، اس لیے انہیں مارنا جائز ہے۔”
اس ملاقات کی درست تاریخ معلوم نہیں، لیکن اس میں یتسحاق شاپیرا نے اپنے فتویٰ کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ:
“تورات اور یہودی علماء کے اجماع کے مطابق، قتل کی مکمل ممانعت صرف یہودیوں کے لیے ہے، جبکہ غیر یہودیوں (مشرکین) کے لیے یہ ممانعت لاگو نہیں ہوتی۔”
یہ فتویٰ ایک کتاب “شریعت بادشاہ” یا “تورات پادشاہ” میں پیش کیا گیا ہے۔
یہ کتاب ان نظریاتی اور فکری اصولوں پر مشتمل ہے جو امن اور جنگ دونوں حالتوں میں غیر یہودیوں (گُوییم) کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ “گُوییم” ایک ایسا اصطلاحی لفظ ہے جو عمومی طور پر تمام غیر یہودیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
“شریعت بادشاہ”: غیر یہودیوں کے قتل کا نظریاتی جواز
یہ فتویٰ “شریعت بادشاہ” یا “تورات بادشاہ” نامی کتاب میں پیش کیا گیا ہے، جو قدیم عبرانی زبان میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب مخصوص یہودی مذہبی متون پر مبنی منتخب احکام پر مشتمل ہے، جن کی تشریح انتہا پسند یہودی علماء نے کی ہے۔
یہ کتاب درحقیقت اسرائیلی فوجیوں اور یہودی آبادکاروں کو ایک نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہے تاکہ وہ فلسطینیوں کے قتل کو جائز سمجھیں۔
کتاب کے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ:
“خدا نے یہ دنیا صرف یہودیوں کے لیے بنائی ہے، جبکہ دیگر اقوام کا درجہ جانوروں کے برابر ہے اور انہیں یہودیوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔”
یہ کتاب کھلے عام فلسطینیوں کے قتل اور ان کی تباہی کی ترغیب دیتی ہے اور اسرائیلی فوج و آبادکاروں کے ظالمانہ اور پرتشدد اقدامات کے لیے مذہبی جواز فراہم کرتی ہے۔
یہودیوں کو غیر یہودیوں کے قتل کی کھلی اجازت
کتاب کے مصنفین کے مطابق:
“یہودیوں کو دوسروں کے مقابلے میں غیر یہودیوں کے قتل کا زیادہ حق حاصل ہے۔”
چوتھے باب میں غیر یہودیوں کے خون بہانے کی مشروعیت پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے۔کتاب کےپانچویں باب میں جنگوں کے دوران غیر یہودیوں کے قتل کے احکام بیان کیے گئے ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ:
“ایسے دشمن ملک کے ہر شہری کو قتل کرنا واجب ہے جو جنگجوؤں کی حمایت کرے یا ان کے اقدامات کی تعریف کرے۔”
“یہ بھی جائز ہے کہ دشمن ملک یا علاقے کے عام شہریوں کو قتل کر دیا جائے، چاہے وہ براہ راست جنگی کارروائیوں میں ملوث نہ ہوں۔”
غیر یہودیوں کے قتل کے احکام
اس کتاب کا پانچواں باب جنگوں کے دوران غیر یہودیوں کے قتل کے احکام سے متعلق ہے۔ اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ:
“دشمن علاقے کے ہر اس شہری کو قتل کرنا واجب ہے جو جنگجوؤں کی حمایت کرے یا ان کے اقدامات پر خوشی کا اظہار کرے۔”
“یہ بھی جائز ہے کہ دشمن ملک یا علاقے کے عام شہریوں کو قتل کر دیا جائے، چاہے وہ براہ راست جنگی کارروائیوں میں ملوث نہ ہوں۔”
“الٰہی انصاف”
فروری 2023 میں، اسرائیلی خاخام شموئل الیاهو نے ترکیہ اور شام میں آنے والے زلزلے کو تورات میں بیان کردہ فرعون کے غرق ہونے کے واقعے سے تشبیہ دی اور اس قدرتی آفت کو “الٰہی انصاف” قرار دیا۔
شموئل الیاهو اسرائیل کے ایک معروف خاخام اور سابق اسرائیلی وزیر داخلہ، ایتامار بن گویر کے قریبی ساتھی ہیں۔
زلزلے کے بعد، اس خاخام نے یہ اعلان کیا کہ:
“یہ زلزلہ دنیا کو ناپاکیوں سے پاک کر رہا ہے اور اسے ایک بہتر جگہ بنا دے گا۔”
اس نے یہ بیان ایک انتہا پسند مذہبی-دائیں بازو کے جریدے “اولام کاتان” میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں دیا، جو اسرائیل کے انتہا پسند حلقوں میں بہت مقبول ہے۔
اسرائیلی ویب سائٹ “ٹائمز آف اسرائیل” کے مطابق، الیاهو نے اپنے مضمون میں لکھا:
“اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر لوگ فرعون کے لشکر کو غرق ہوتے ہوئے دیکھتے، لیکن پوری کہانی نہ جانتے، تو وہ ان پر ترس کھاتے اور انہیں بچانے کی کوشش کرتے۔”
خاخام شموئل الیاهو نے مزید کہا:
“لیکن بنی اسرائیل نے خوشی کے نغمے گائے، کیونکہ وہ مصریوں کو جانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ وہ کچھ کو قتل کرنا اور باقی کو غلام بنانا چاہتے تھے۔ وہ یہ نغمے اس لیے گا رہے تھے کیونکہ انہیں سمجھ آ گیا تھا کہ یہاں الٰہی انصاف کا نفاذ ہو رہا ہے۔ ایسا انصاف جو ان مصریوں کو سزا دے رہا ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کے بچوں کو دریائے نیل میں ڈبو دیا تھا، تاکہ دنیا کے تمام ظالموں کے لیے یہ ایک سبق بن جائے۔”
سوریہ اور ترکیہ پر تنقید کرتے ہوئے، اس نے کہا:
“جو کچھ بھی دنیا میں ہوتا ہے، وہ دنیا کو پاک کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لیے ہوتا ہے۔”
“مقدس یہودی”
مارچ 2023 میں، خاخام الیعازر میلامید نے دو اسرائیلی آبادکاروں کی یادگاری تقریب میں اشتعال انگیز باتیں کیں، جو 26 فروری کو ایک فلسطینی مزاحمت کار کے حملے میں شہرک حواره (غرب اردن) میں ہلاک ہوئے تھے۔
اس نے کہا:
“ہر وہ یہودی جو صرف اپنے یہودی ہونے کی وجہ سے قتل کیا جائے، وہ مقدس ہے۔”
الیعازر میلامید نے اس تصور کو مزید وسعت دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعریف تمام اسرائیلی آبادکاروں پر لاگو ہوتی ہے۔
اس نے مزید کہا:
“اگر یہ بات ہر یہودیوں پر صادق آتی ہے، تو یقینی طور پر ان آبادکاروں کے بارے میں بھی کہی جانی چاہیے جو یہودا اور سامرہ (غرب اردن) میں سب سے آگے بستیوں میں رہ رہے ہیں۔”
اپنی تقریر میں اس نے یہ بھی دعویٰ کیا:
“ہم اپنی سرزمین میں اس لیے واپس نہیں آئے کہ عربوں کو ان کے گھروں سے نکالیں، بلکہ ہم دنیا کے لیے خیر و برکت لانے کے لیے آئے ہیں، اور عرب بھی ان برکات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔”
اسرائیل کی تاریخی سرحدوں کا دعویٰ
خاخام الیعازر میلامید نے ایک اور تقریر میں اپنے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
“جب تک اسرائیل میں کافی تعداد میں یہودی نہیں ہوں گے، ہمارے دشمن موجود رہیں گے اور ہمیں قتل کرتے رہیں گے۔”
اس نے مزید دعویٰ کیا کہ:
“اسرائیل کی سرحدیں دریائے نیل (مصر) سے لے کر دریائے فرات (عراق) تک پھیلی ہوئی ہیں، لیکن اب تک صرف دریائے اردن کے آس پاس کا علاقہ فتح کیا گیا ہے۔”
بچوں کے سوالات اور صہیونی نظریہ
الیعازر میلامید نے اپنی تقریر میں ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
“کبھی کبھی چھوٹے بچے بہت بڑے سوالات بڑی معصومیت سے پوچھتے ہیں، جو ہمیں گہرے غور و فکر پر مجبور کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں، ایک ملاقات کے دوران ایک بچے نے سنجیدگی اور افسوس کے ساتھ پوچھا:
‘دہشت گردانہ حملے کیوں ہوتے ہیں؟ اچھے یہودی کیوں مارے جاتے ہیں؟'”
اس کے جواب میں، میلامید نے دعویٰ کیا:
“کیونکہ اسرائیل میں کافی تعداد میں یہودی موجود نہیں ہیں۔”
جنگ: اسرائیل کی حیاتیاتی ضرورت
اس نے مزید کہا:
“کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ بیرونی دشمنوں کا ہے، اور اگر وہ یہاں نہ ہوں تو مسائل ختم ہو جائیں گے۔ لیکن ہم نے تورات سے سیکھا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر دشمن موجود نہ ہوں، تو صحرا سے بھی بڑے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔”
میلامید نے یہ بھی کہا:
“یہ ماننا شاید تکلیف دہ ہو، لیکن دشمن کے ساتھ جنگ ہی اسرائیل کو مضبوط اور متحد کرتی ہے۔
کون جانتا ہے کہ اگر یہ جنگیں نہ ہوتیں تو ہم کس قسم کے داخلی بحرانوں اور خانہ جنگیوں کا سامنا کر رہے ہوتے؟”
اپنی تقریر کے اختتام پر اس خاخام نے دعویٰ کیا کہ:
“جب اسرائیل میں یہودیوں کی تعداد بڑھ جائے گی، تو وہ آہستہ آہستہ دریائے اردن کے مشرقی علاقوں اور تمام ان زمینوں تک پھیل سکیں گے، جنہیں ‘ارض موعود’ (وعدے کی سرزمین) کہا جاتا ہے۔”
گلدشتائن کی تعریف؛ حرم ابراہیمی کے قاتل کی تمجید
حرم ابراہیمی قتل عام کی برسی کے موقع پر، صہیونی خاخام مئیر مازوز نے باروخ گلدشتائن کی تعریف کی—وہی دہشت گرد جس نے 1994 میں مسجد ابراہیمی میں 29 فلسطینی نمازیوں کو شہید کیا تھا۔
مازوز نے اس وحشیانہ حملے کو “ایک بڑے خطرے کو روکنے کا اقدام” قرار دیا اور دعویٰ کیا:
“عربوں نے مغارہ المکفیلا (حرم ابراہیمی) میں اپنے جائے نمازوں کے نیچے کلہاڑیاں، ہتھیار اور چاقو چھپا رکھے تھے، اور ایک بہت بڑا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ لیکن اس یہودی (باروخ گلدشتائن) کی بدولت یہ خطرہ ٹل گیا۔”
یہی موقف اسرائیل کے مستعفی وزیر برائے داخلی سلامتی، ایتامار بن گویر نے بھی اختیار کیا، جس نے باروخ گلدشتائن کو “ڈاکٹر گلدشتائن”، “ہیرو”، “ولی” اور “وہ طبیب جس نے یہودیوں کی جان بچائی” جیسے القابات سے نوازا۔
غزہ میں نسل کشی کی دعوت
مارچ 2024 میں، غزہ کے خلاف اسرائیلی جنگ کے دوران، صہیونی خاخام الیاهو مالی نے غزہ کے تمام رہائشیوں—بشمول بچوں، خواتین اور بوڑھوں—کے “مکمل خاتمے” کا مطالبہ کیا۔
الیاهو مالی، جو یافا کے ایک مذہبی مدرسے کے ڈائریکٹر ہیں (جس کے طلباء اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں)، نے اعلان کیا کہ:
“ہمیں تورات کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے: ‘کسی کو زندہ نہ چھوڑو’ اور ‘اگر تم انہیں نہیں مارو گے، تو وہ تمہیں مار ڈالیں گے’۔”
مدرسہ کے طلباء کے ساتھ ایک نشست کے دوران، جب اس سے غزہ کے بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا:
“آج کے دہشت گرد وہی بچے ہیں جنہیں تم نے پچھلی جنگ میں زندہ چھوڑ دیا تھا۔”
جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے، تو اس صہیونی خاخام نے کہا:
“یہی وہ عورتیں ہیں جو دہشت گردوں کو جنم دیتی ہیں۔”
“عربوں نے مغارہ المکفیلا (حرم ابراہیمی) میں اپنے جائے نمازوں کے نیچے کلہاڑیاں، ہتھیار اور چاقو چھپا رکھے تھے، اور ایک بہت بڑا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ لیکن اس یہودی (باروخ گلدشتائن) کی بدولت یہ خطرہ ٹل گیا۔”
یہی موقف اسرائیل کے مستعفی وزیر برائے داخلی سلامتی، ایتامار بن گویر نے بھی اختیار کیا، جس نے باروخ گلدشتائن کو “ڈاکٹر گلدشتائن”، “ہیرو”، “ولی” اور “وہ طبیب جس نے یہودیوں کی جان بچائی” جیسے القابات سے نوازا۔
غزہ میں نسل کشی کی دعوت
مارچ 2024 میں، غزہ کے خلاف اسرائیلی جنگ کے دوران، صہیونی خاخام الیاهو مالی نے غزہ کے تمام رہائشیوں—بشمول بچوں، خواتین اور بوڑھوں—کے “مکمل خاتمے” کا مطالبہ کیا۔
الیاهو مالی، جو یافا کے ایک مذہبی مدرسے کے ڈائریکٹر ہیں (جس کے طلباء اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں)، نے اعلان کیا کہ:
“ہمیں تورات کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے: ‘کسی کو زندہ نہ چھوڑو’ اور ‘اگر تم انہیں نہیں مارو گے، تو وہ تمہیں مار ڈالیں گے’۔”
مدرسہ کے طلباء کے ساتھ ایک نشست کے دوران، جب اس سے غزہ کے بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا:
“آج کے دہشت گرد وہی بچے ہیں جنہیں تم نے پچھلی جنگ میں زندہ چھوڑ دیا تھا۔”
جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے، تو اس صہیونی خاخام نے کہا:
“یہی وہ عورتیں ہیں جو دہشت گردوں کو جنم دیتی ہیں۔”
میزائلوں کے ذریعے نسل کشی کی دعوت
عوفادیا یوسف اپنی عرب دشمنی کے لیے مشہور تھا، یہاں تک کہ اس نے عربوں کے مکمل خاتمے کے لیے موشک حملوں کا مطالبہ کیا۔
جولائی 2001 میں، یہودی عیدِ فصح کے موقع پر، اس نے یروشلم کے ایک کنیسہ میں مذہبی خطبہ دیتے ہوئے کہا:
“عربوں پر رحم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ انہیں میزائلوں سے بمباری کرکے ختم کر دینا چاہیے۔ یہ لوگ شرپسند اور ملعون ہیں، انہیں دنیا سے مٹا دینا چاہیے۔”
اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے اس نے مزید کہا:
“عرب یروشلم میں چیونٹیوں کی طرح بڑھ رہے ہیں… انہیں جہنم میں بھیج دینا چاہیے۔”
مسلمانوں کا قتل جائز قرار دینے کا فتویٰ
2004 میں، ایک اور خطبے میں، جسے اسرائیلی ٹی وی چینلز نے نشر کیا، عوفادیا یوسف نے کہا:
“جب ایک یہودی کسی مسلمان کو قتل کرتا ہے، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی سانپ یا کیڑے کو مارا جائے۔ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ سانپ اور کیڑے انسان کے لیے خطرناک ہوتے ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو مارنا، کیڑے مکوڑوں کو ختم کرنے کے مترادف ہے—یہ ایک فطری عمل ہے۔”
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں