سازباز کے منصوبوں کے باطل ہونے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: سازباز کے منصوبوں کے باطل ہونے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے اور یہ کہ یہ صورت حال کس طرح، ایک زمینی صورت میں ابھر آئی؟
جواب: ہم نے مختلف عشروں میں سازباز کے منصوبوں کو مختلف شکلوں میں دیکھا جن میں شاید سے اہم منصوبہ مصر اور اسرائیل کے ما بین کیمپ ڈیویڈ سمجھوتے (Camp David Accord) کا منصوبہ ہے۔ یہ سمجھوتہ ایسے انداز سے دنیا کے سامنے رکھا گیا کہ گویا یہ اہم عربوں اور اسرائیل کے درمیان سب سے اہم سمجھوتہ ہے، اور مصر کے بعد اب دوسرے عرب ممالک کے سوا سازباز کے اس عمل میں شامل ہونے کے سوا کوئی دوسرا چارہ کار نہیں ہے۔ لیکن 1970ع کے عشرے کے اواخر مین منعقدہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے نتیجے میں مصر کے آمر انور السادات قاتلانہ حملے میں مارے گئے، اور لبنان اور فلسطین میں اسلامی مقاومت ظہور پذیر ہوئی۔
اس کے بعد اوسلو معاہدہ (Oslo Accord) سامنے آیا جو فلسطینی اتھارٹی کے قیام پر منتج ہؤا؛ لیکن اس کے بعد انتفاضۂ مسجد الاقصیٰ نے ثابت کیا کہ اوسلو معاہدے پر منتج ہونے والا پورا سفارتکارانہ عمل بے ثمر اور بے فائدہ تھا اور “فلسطینی اتھارٹی” ایک مہمل اصطلاح میں بدل گئی۔ عرب ليک کی کانفرنسوں اور سعودی بادشاہت کی مرکزیت سے ابھرنے والے سفارتی سلسلے اور ان سے حاصل ہونے والے سمجھوتے بھی یکے بعد دیگرے ناکام ہو گئے؛ کیونکہ صہیونی غاصب ان معاہدوں اور سمجھوتوں کے ذریعے وقت خرید رہے تھے اور انھوں نے کبھی بھی کسی معاہدے کو اہمیت نہیں دی، کیونکہ وہ اپنے آپ کو غالب طاقت اور فلسطینیوں اور دوسرے عربوں کو مغلوب سمجھتے تھے۔
ساز باز کا آخری منصوبہ “ابراہیم سمحھوتوں” (Abraham Accords) کے ضمن میں سامنے آیا ہے، اور ان سمجھوتوں پر ایسے حال میں دستخط ہوئے ہیں جب غاصب اسرائیلی کی پوزیشن بہت زیادہ کمزور تھی۔ ابراہیم سمجھوتے پر ٹرمپ کے زمانے میں غاصب ریاست اور امارات اور بحرین نے، امریکہ کی وساطت سے، دستخط کئے۔ وہ البتہ بلندبانگ تشہیری مہم کے باوجود اس حقیقت کے چھپانے سے عاجز رہے کہ صہیونی ریاست کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے؛ کیونکہ غاصب ریاست بہت زور و شور اور جوش و جذبے کے ساتھ ایسی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا پرچار کر رہی تھی جنہیں خوردبین سے بھی نقشے پر تلاش کرنا، دشوار ہے؛ چنانچہ مکار صہیونیوں نے اس تشہیری مہم سے محض یکطرفہ ابلاغیاتی فائدہ اٹھایا؛ ثبوت یہ مشہور صہیونی ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ “ابراہیم سمجھوتوں کا عمل، ایک مرا ہؤا عمل ہے جو بہت زیادہ شور و غل کسی قسم کی تبدیلی کا سبب نہیں بن سکا ہے، اور اسرائیل کو عملی فائدہ نہیں پہنچا سکا ہے۔ حتیٰ کہ گذشتہ رمضان (1443ھ) کے مہینے میں قدس شریف میں صہیونیوں کی توہین آمیز کاروائیوں پر سعودیوں، ترکوں اور اماراتیوں کو امت مسلمہ کے رد عمل سے محفوظ رہنے کی غرض سے – صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی دوڑ میں شریک ہونے کے باوجود – صہیونی ریاست کے خلاف مذمتی بیانات جاری کئے؛ جو صہیونیوں کے لئے مایوس کن تھے۔
واضح رہے کہ ابراہیم معاہدے (Abraham Accords) اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور ریاست ہائے متحدہ کا ایک مشترکہ بیان تھا جس پر 13 اگست 2020 کو کئے گئے تھے، اور “ابراہیم معاہدہ” کی اصطلاح بالترتیب اسرائیل-متحدہ عرب امارات امن معاہدے اور بحرین-اسرائیل بحالی تعلقات کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ سنہ 1979ع میں مصر کے ساتھ امن اور 1994ع میں اردن کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے، یہ اب تک کسی عرب ملک کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا پہلا معادہ ہے۔ ان معاہدوں پر – 15 ستمبر 2020 کو وائٹ ہاؤس میں – بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف بن راشد الزیانی، متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النہیان اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے دستخط کئے تھے۔ مراکش اور سوڈان بھی ان معاہدوں میں شامل ہوئے اور یوں ان ممالک نے صہیونی غاصبوں کے ساتھ طویل عرصے سے قائم خفیہ تعاون کو بر ملا کر دیا، گوکہ سعودیوں کو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ 1948ع سے قائم خفیہ تعلقات آشکار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ہے، البتہ ان کے درمیان تعاون اب خفیہ نہیں رہا ہے۔
حرمین شریفین اور حجاز شریف پر قابض سعودی قبیلے کو البتہ یہ بھی خدشہ تھا کہ ابراہام سمجھوتوں کی وجہ سے کہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے ہاں اس کا ریاکارانہ چہرہ بے نقاب اور اس کی منافقت عیاں نہ ہوجائے۔ کیونکہ یہ قبیلہ اپنے آپ کو خادم الحرمین کے طور پر متعارف کراتا اور اہلیت کے فقدان کے باوجود “دنیا اسلام کی قیادت کا حقدار” سمجھتا ہے؛ اور اسے دین اور دینداری سے دور ہو کر بھی حجاج کرام اور عمرہ گزاروں کی جیبوں سے اربوں ڈالر کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے اور اگر اس کی حقیقت کھل جائے، تو وہ مزید یہ دعوے نہیں کر سکے گا اور مسلمہ امہ اس سے حج کے انتظآم کا حق چھین بھی سکتی ہے۔
گوکہ سب جانتے ہیں کہ سعودی-صہیونی تعلقات کافی حد تک عیاں ہو چکے ہیں، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سمیت حجاز کے دوسرے شہروں میں یہودیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، انہیں مکہ اور مدینہ میں املاک خریدنے کی اجازت دی گئی ہے، دو ریاستوں کے خفیہ اداروں کے حکام کے دو طرفہ دورے جاری ہیں، بحیرہ احمر کے ساحل پر سعودی ولی عہد کے ساتھ بنیامین نیتن یاہو کی ملاقاتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں، صہیونی طیاروں کو حجاز شریف کی فضا سے گذر کر مشرقی اور جنوبی ایشیا جانے کی اجازت دے دی گئی ہے، امریکی صدر جو بائیڈن کو پہلی بار تل ابیب سے پرواز کرکے براہ راست ریاض تک آنے کا اذن دیا جا چکا ہے جس کے بعد دوطرفہ پروازوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن امارات اور بحرین نے تعلقات عیاں کرکے جو رسوائی کمائی ہے، وہ اس قدر بڑی تھی کہ سعودی بھانپ گئے کہ یہ سمجھوتہ اسلامی مقاومت (Islamic Resistance) کے حق میں جا رہا ہے اور عرب اقوام کے نوجوان صہیونی دشمن کے خلاف جدوجہد کی طرف زیادہ راغب ہو رہے ہیں؛ اور مقاومت کے نوجوان مجاہدین کا عزم پہلے سے زیادہ پختہ ہو رہا ہے اور عرب ریاستوں پر مسلط غیر منتخب حکمرانوں کے خلاف ہو رہے ہیں اور یہ سب مقاومت کے مفاد میں ہے۔ چنانچہ سعودیوں نے بھی ترکی اور امارات کی طرح ایک خالی خولی بیان جاری کرکے نوجوانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہم اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ تمہارے ساتھ ہیں! گوکہ اس کے عملی اقدامات اس کے بیان کی سچائی کو ثابت نہیں کر رہے ہیں لیکن اس سے مقاومت کی طاقت اور اثر و رسوخ کی تائید ضرور ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں نے البتہ ان حقائق کو نظر انداز کرکے ابراہیم سمجھوتے کو کامیاب قرار دینے کی کوشش کی اور کہا کہ صہیونی ریاست خلیج فارس میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، اور دوسرے عرب ممالک بھی یہودی غاصبوں کے ساتھ بیعت کے لئے قطار لگائے کھڑے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یا سمجھانا چاہتے ہیں کہ گویا اسرائیلی خلیج فارس آنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن یہ درست نہیں ہے بلکہ اسرائیلی کئی عشروں سے عرب درباروں میں موجود تھے اور خفیہ طور پر وہ سب کچھ کر رہے تھے جو وہ اب بھی خفیہ طور پر ہی کرتے رہیں گے۔
اسی اثناء میں ذرائع ابلاغ کی خبروں اور رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم معاہدہ بھی صدی کی ڈیل کی طرح ناکام ہو چکا ہے، بطور مثال حال ہی میں اماراتی یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالخالق عبداللہ نے کہا کہ ان کے ملک میں اسرائیلی قابضوں کو خوش آمدید کہنے کی نمائش اختتام پذیر ہو چکی ہے۔
صہیونی اخبار اسرائیل ہیوم نے حال ہی میں لکھا کہ صہیونی امارات کے ساتھ تعلقات کا ہنی مون کا اختتام دیکھ سے ناامید ہو گئے ہیں اور ابتدائی جوش و خروش کے باوجود، اب انہیں پیچیدہ حقائق کا سامنا ہے اور سمجھوتے کے ثمرات مبہم ہیں۔
ادھر ترکی اور صہیونی ریاست کے تعلقات کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کے خدشے ظاہر کئے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ صہیونی حکام کے ساتھ رجب طیب اردوگان کے ذاتی حب و بغض سے قطع نظر، وہ ترکی کی رائے عامہ کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ترکی کے ناگفتہ اقتصادی حالات کو سنبھالا دینے کے لئے انھوں نے اسرائیلیوں کا استقبال ضرور کیا لیکن اسرائیلی بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے یہی سلوک قطر اور امارات کے ساتھ بھی کرتے آئے ہیں۔
یاد رہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے قبل تہران میں صہیونیوں کا سفارت خانہ تھا لیکن شاہ میں اتنی ہمت نہيں تھی کہ تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات کو آشکار کردے۔ لیکن ان تعلقات سے شاہ ایران کو کوئی فائدہ نہ ملا اور جب ملت ایران نے انقلاب بپا کیا تو تل ابیب تو کیا اس کے مغربی مالکین بھی شاہ کو نجات نہ دلا سکے اور تل ابیب کا سفارت خانہ انقلاب کے بعد فلسطینیوں کو واگذار کرایا گیا۔
خلیج فارس کی ریاستوں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہاں کے عرب ریاستوں کے حکمران بلاجواز ان ریاستوں پر مسلط ہیں اور عوام کے منتخب کردہ نہیں ہے چنانچہ انہیں برسراقتدار رہنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے کرنش کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اسرائیلی ریاست انہیں نجات نہيں دلا سکتی چنانچہ یہ تفکر بہت خطرناک ہے۔ اسرائیل کا مالک اور آقا امریکہ افغانستان میں خوار و ذلیل ہوکر بھاگا ہے اور وہ اپنی حمایت یافتہ افغان حکومت کو نہیں بچا سکا ہے کیونکہ وہ رو بہ زوال ہے، تو رو بہ زوال اسرائیل کیونکر فلسطین کے خائن عرب حکمرانوں کو بچا سکے گا؟
اسرائیل رو بہ زوال ہے، وہ ہر روز پہلے سے زیادہ، اپنی تسدیدی قوت کھو رہا ہے اور حتیٰ کہ اپنی حفاظت کرنے اور مقاومت کو براہ راست جواب دینے سے عاجز ہے؛ وہ لبنان کی حزب اللہ کے سامنے بے بس ہوچکا ہے وہ غزہ کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائی کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ حملے کی صورت میں اسے دندان شکن جوابی کاروائی کا سامنا ہوگا۔ عراق کی رضا کار فوج “الحشد الشعبی” بھی اب مقاومت کا حصہ بن چکی ہے اور صہیونیوں کو عراق کی طرف کے حملوں سے بھی خطرہ لاحق ہے، یمن کی انصار اللہ بھی اسرائیل مخالف محاذ کا حصہ ہیں اور وہ فلسطین سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے اور صہیونی ماہرین کے اعتراف کے مطابق، یمنیوں کے میزائل مقبوضہ فلسطین میں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں، اور یہ سب اسلامی مقاومت کی طاقت اور صہیونی ریاست کے زوال کا ثبوت ہے۔ لہٰذا گرتے پڑتے دشمن سے ڈرنے کے بجائے، مسلمانوں کو اللہ پر توکل اور مقاومت پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جو کچھ امریکہ اور اسرائیل اور ان کے عرب حواری نفسیاتی کاروائی کے ضمن میں کہہ رہے ہیں، درست نہيں ہے اور صورت حال بالکل برعکس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
جاری
تبصرہ کریں