سعودیوں کو فارسی چینل چلانے کی ضرورت کیوں ہے؟
فاران؛ امریکی، برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور سعودی فارسی ابلاغیاتی اور فرقہ وارانہ چینلز کی کوئی کمی نہیں ہے جو اگر ایرانو فوبیا کی مہم میں کامیاب ہوتے تو شاید بنی سعود کو مزید کوئی چینل کھولنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن اب وہ مغرب کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانو فوبیا کے موضوع پر مزید توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ بنی سعود کے پاس پہلے سے العربیہ چینل بھی ہے جس کے آغاز میں ہی انہیں توقع تھی کہ ایرانی بھی اس چینل کا خیر مقدم کریں گے لیکن ان کی یہ توقع بھی پوری نہیں ہوسکی جس کے بعد انھوں نے نئے چینلز کی تاسیس کو مطمع نظر بنایا۔
اب سعودی پیسے کے زور سے انڈیپنڈنٹ جیسے مقبول برانڈ کے ذریعے اپنی بات ایرانیوں اور فارسی زبانوں کے دل میں اتارنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی عزت رفتہ ان کی سرمایہ کاری پر اثر انداز نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوزے سے وہی ٹپکے گا جو اس کے اندر ہے اور کوزے کے برانڈ سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، وہابیت زدہ سعودی مخیلے سے ایسی کونسی بات صادر ہوسکتی ہے جو کسی دل پر اثر کر سکے۔
چینل کا اصل سرمایہ کار، سعودی تحقیقات و بازارکاری گروپ (Saudi Research and Marketing Group [SRMG]) ہے جو سعودی دربار سے وابستہ ہے اور اس کے سربراہ کے محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ایس آر ایم جی اور انڈیپنڈنٹ کے باہمی مفاہمت نامے کے مطابق انڈیپنڈنٹ اپنی ویب گاہ میں “عربی (Independent Arabia)، فارسی (Independent Persian)، اردو (Independent Urdu) اور ترکی (Independent Turkish )” کے چار پیجز کا اضافہ کرے گا۔
ایس آر ایم جی کیا ہے؟
سعودی تحقیقات و بازارکاری گروپ در حقیقت عربی کتب کی اشاعت کے شعبے میں سرگرم عمل ہے؛ عرب دنیا کے عربی اور انگریزی اخبارات ـ منجملہ الشرق الاوسط، الاقتصادیہ، عرب نیوز” اور “ہِیَ، المجلۃ، سيّدتی، اور الرجل” ـ کا تعلق بھی اسی عظیم ابلاغی گروپ سے ہے۔
انڈیپنڈنٹ کے ساتھ معاہدے سے ایس آر ایم جی کا مقصد علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے واقعات کی خبروں اور تجزیوں، کالمز، مضآمین اور رپورٹوں کی اشاعت ہے جنہیں انگریزی میں لکھا جائے گا اور ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔ یعنی یہ کہ منصوبہ، فکر اور قلم انگریزوں ہوگا اور۔۔۔؛ اور ہاں سعودیوں کا ایک خفیہ مقصد یہ بھی ہے کہ یہ ذریعہ ابلاغ ایک ابلاغی اسلحہ ہوگا جس کے ذریعے سے بنی سعود علاقے میں اپنے بحران خیز اور مصیبت آفرین منصوبوں، اقدامات اور رویوں کا جواز بھی فراہم کریں گے۔
ایس آر ایم جی انڈیپنڈنٹ کی مدد سے عربوں کے لئے عرب انڈیپنڈنٹ، ایرانیوں کے لئے فارسی انڈیپنڈنٹ، ترکوں کے لئے ترک انڈیپنڈنٹ اور پاکستانیوں کے لئے اردو انڈیپنڈنٹ پر تشہیری مہم چلانا چاہتی ہے۔ وہ عربی، فارسی، ترکی اور اردو بولنے والے ممالک پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔
یہ ابلاغیاتی منصوبہ ۲۰۱۸ سے اپنا کام شروع کرے گا حالانکہ انگریزي سعودی ابلاغیاتی مفاہمت نامہ تازہ ہی آشکار ہوچکا ہے لیکن بنی سعود عرصہ دراز سے اس کے لئے لابیاں تلاش کررہے تھے۔
ایس آر ایم جی میڈیا گروپ کے سربراہ غسان بن عبدالرحمن الشبل، کے حکمران قبیلے سے قریبی تعلقات ہیں، اس کے کئی رسائل و جرائد ہیں جن میں وہ بنی سعود کی تقویت کے لئے کام کررہے ہیں۔ چار نئی ویب گاہوں میں شائع ہونے والے متون کی تیاری انڈیپنڈنٹ کے معیار کے مطابق ہوگی اور ان چار زبانوں کے نامہ نگار لندن، اسلام آباد، استنبول اور نیویارک میں تعینات ہونگے۔
انگریزوں کو تشویش ہے!
اگرچہ انگریزی قوانین کے تحت ابلاغی اداروں اور تحقیقاتی مراکز کے درمیان معاہدوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن بہت سے انگریز اس معاہدے کے انعقاد کو بیان کی آزادی، شہری اور سماجی حقوق کے برطانوی معیاروں کے مطابق نہيں سمجھتے اور ان کے خیال میں اس قسم کے معاہدوں کی وجہ سے خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کے تنگ نظرانہ افکار اور بنی سعود کے توسیع پسندانہ مفادات پر مبنی سوچ برطانیہ کے مقبول ابلاغی اداروں کے عنوان کے تحت ان ہی اداروں کے بین الاقوامی مداحوں کو شدید فکری نقصان پہنچائے گی اور طویل عرصے میں یہ ادارے غیر معتبر ہوجائیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ بلومبرگ کمپنی نے ۲۰۱۷ میں ایس آر ایم جی کی طرف سے متون کی فراہمی کی شرط پر اپنی ویب سائٹ پر عربی پیج کھولا اور اسے شدید نکتہ چینیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انڈیپنڈنٹ کو بلومبرگ کی نسبت بہت زيادہ وسیع سطح پر پڑھا جاتا ہے چنانچہ یہ اخبار مختلف ممالک کے افکار کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کا سماجی سرمایہ کچھ عرصے میں مخدوش ہوکر رہ جائے گا۔
تبصرہ کریں