سیف القدس کاروائی میں ایران کا کردار / اسلامی انقلاب نے اسلامی جہاد تحریک کو جان دی اور طاقت بخشی
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن شیخ نافذ عزام نے العالم چینل کے پروگرام “ضیف و حِوار” میں حاضر ہوکر کہا: ہم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دنوں میں مصر کی یونیورسٹیوں میں طالب علم تھے اور ان دنوں ہمارا احساس وہی تھا جو پوری امت مسلمہ کا تھا۔ ہم سب ایک طراوت اور سرور محسوس کر رہے تھے، دیکھتے تھے کہ لاکھوں نہتے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اس لئے کہ ایک طاغوتی حکومت کو – جو امریکہ اور اسرائیل کی اتحادی تھی اور اسلام اور عربی و اسلامی امت کو نقصان پہنچانے کے لئے دشمنوں کا آلۂ کار تھی – سرنگوں کریں۔
شیخ نافذ عزام کے بیان کردہ اہم نکات:
ہم سب خوشی اور سرور محسوس کر رہے تھے اور یہ وہی احساس تھا جس سے ان دنوں پورے عرب اور اسلامی ممالک نیز دنیا کے دوسرے خطے بھی گذر رہے تھے۔ دنیا بھر کے انقلابیوں اور حریت پسندوں نے محسوس کیا کہ ایک مسلم آبادی علماء اور دانشوروں کی قیادت میں ایک خونخوار، وحشی اور مطلق العنان استبدادی حکومت پر فتح پا چکی ہے؛ یوں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے ایک بار پھر مسلمانوں اور اسلام کو اعتبار بخشا۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کی تشکیل میں اسلامی انقلاب کا کردار
ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہؤا تو اسی وقت اسلامی جہاد تحریک کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اس نوبنیاد تحریک میں روح پھونکی اور طاقت عطا کی۔
اسلامی انقلاب کامیاب ہؤا تو اسلامی جہاد تحریک نے اس کے ساتھ فطرتی اور بے ساختہ انداز سے تعامل کیا اور ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو فلسطین میں اس انقلاب کی کامیابی کی نگاہ سے دیکھا اور اس کامیابی نے فلسطین میں کامیابی کی امید کو تقویت پہنچائی۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے بانی شہید ڈاکٹر فتحی شقاقی نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا اور انھوں نے وسیع پیمانے پر اس احساس کے معرض وجود میں لانے میں کردار ادا کیا اور جو کتاب انھوں نے امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کی پیرس سے ایران واپسی سے پہلے مصر میں لکھ کر شائع کی، وہ ہماری لائبریریوں میں موجود تھی اور جس وقت امام کی وطن واپسی کے وقت اسلامی انقلاب پایۂ تکمیل کو پہنچا تو یہ کتاب لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔
اسلامی انقلاب نے اسلامی جہاد تحریک کے اراکین کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی
سنہ 1950ع کے عشرے سے سنہ 1970ع کے عشرے تک، اسلام پر تنقید ہورہی تھی اور اسی حوالے سے کچھ افکار رائج تھے اور کچھ نعرے اٹھائے جاتے تھے؛ اور کہا جاتا تھا کہ گویا دین اقوام عالم کے لئے افیون ہے اور لاکھوں انسانوں کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اسلامی انقلاب نے ان تمام نعروں اور افکار کو باطل کرکے رکھ دیا جن کی رو سے انسان کی زندگی میں دین کے کردار کو کمزور سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ دین و مذہب بڑے اور اہم مسائل کا حل پیش کرنے اور معاشرتی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور عالمی افکار میں بھی ایک انقلاب پیدا کیا۔ اسلامی انقلاب نے عربی اور اسلامی معاشروں میں بھی ایک انقلاب پیدا کیا اور انقلابیوں، حریت پسندوں اور دنیا کے تمام مستضعفین کی امیدوں کو تقویت پہنچائی، جس کے نتیجے میں ہم نے فلسطین میں محسوس کیا کہ تبدیلی اور کامیابی کا حصول ممکن ہے اور اسلام ایک بار پھر پوری طاقت کے ساتھ عالمی سطح پر ظاہر ہو سکتا ہے اور دین زندگی کا دھڑکتا ہؤا دل ہے اور انسانوں کو متحرک کرنے پر قادر ہے۔
ہم ہمیشہ یہی سمجھ رہے تھے کہ اسلام ہر زمانے اور ہر مقام و سرزمین کے لئے مناسب ہے، لیکن زمینی حقائق مایوس کن تھے اور چیلنج کافی بڑے تھے اور اسلام اور دین و مذہب پر ہونے والی یلغار بھی بہت وسیع تھی اور ایران کے اسلامی انقلاب نے اقوام عالم کی اٹھان کے حوالے سے امیدوں کو تقویت پہنچائی اور اس حقیقت کو درست ثابت کیا کہ اسلام کی طاقت مظلوم اقوام کو ظالم ترین اور آمرترین حکومتوں کے مقابلے میں، حرکت میں لا سکتی ہے اور کامیابی سے ہم کنار کرسکتی ہے۔
جاری۔۔۔
تبصرہ کریں