عزاداری امام حسین علیہ السلام کی پہچان ناکافی ہے/ پورے زمانے کے لئے عاشورا کی نئی بات
حوزہ علمیہ قم کے انجمن مدرسین کے رکن اور عاشورا کے مشہور محقق آیت اللہ رضا استادی نے قرآن نیوز ایجنسی IQNA کو انٹرویو دیا ہے جس کے اہم نکات کا اردو ترجمہ قارئین محترم کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
عاشورا کا واقعہ الہی بھی ہے اور سب کے لئے سبق آموز بھی
– عاشورا باوجودیکہ سب کے لئے سبق آموز نسخہ ہے، ایک الہی واقعہ بھی ہے۔
– امام حسین علیہ السلام کی داستان ایک دو جہتی داستان ہے۔ اسلام کے بعض مسائل میں ضرورت ہے کہ انسان دین کی حمایت اور دفاع اور اس کی ترویج کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس اصول کو نافذ کیا؛ یعنی امام حسین علیہ السلام کا کام تاریخ اصول اور قانون کے لحاظ سے نیا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس اصول کے نفاذ کے حوالے سے تازہ اور نیا ہے اور اگر ہم کہتے ہیں کہ اسوہ اور نمونۂ عمل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ امام حسین علیہ السلام نے نہایت سخت حالات میں کس طرح عمل کیا، کہ ہم بھی اسے عملی طور پر بروئے کار لائیں۔
فرض کریں کہ ایک ڈویژن کا ایک کمانڈر ہے اور ایک کمانڈر انچیف ہے اور کمانڈر انچیف کے بھی کئی ماتحت کمانڈر ہیں اور ہمیں ایسے حالات کا سامنا ہے کہ یا تو صرف کمانڈر انچیف کو شہید ہونا پڑے گا یا پھر اسے اور دوسرے تمام کمانڈر شہید ہونگے۔ ہماری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ صرف کمانڈر انچیف کو شہید ہونا چاہئے اور باقی کمانڈروں کو زندہ رہنا چاہئے؛ لیکن باقی تمام کمانڈروں کا قتل ہونا ہمارے لئے اسوہ اور نمونۂ عمل نہیں ہوسکتا۔
– یہی امام حسین علیہ السلام کے خاص مشن کا حصہ ہے؛ یعنی وہی خاص مشن جس میں علی اکبر اور علی اصغر علیہما السلام شامل تھے؛ اور اگر پوچھا جائے کہ کیا آپ داستان کربلا کو غیب کی جانب سے پہلے سے طے شدہ منصوبہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ غیب کے طے شدہ پروگرام کے ناطے کیا اس کا کوئی پہلو بھی لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ نہیں ہے؟ تو ہم جواب دیتے ہیں: نہیں؛ لیکن اس کے باوجود ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس عظیم مشن کے تمام پہلو تمام لوگوں کے لئے اسوہ ہیں۔ اور اس مشن میں کچھ خاص کام بھی ہوئے ہیں، ایسے کام جنہیں صرف امام حسین علیہ السلام انجام دے سکتے تھے۔
پوری داستان کربلا میں ابتداء سے انتہا تک، سبق آموز ہے
– ماضی میں کسی نے مجھ سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ تام تر خطیب، مقرر منبر پر بیٹھ کر جو کچھ بھی کہتے ہیں آخر کار قصے کا رخ امام حسین علیہ السلام کی طرف موڑتے ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ اس لئے ہے کہ اس امام حسین علیہ السلام کی داستان میں سب کچھ موجود ہے اور ایک مقرر ماہر ہو تو اس داستان سے بہترین فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
– مثال کے طور پر جو نماز کربلا میں ادا کی گئی ہے؛ کوئی بھی واقعہ نماز کی اہمیت بیان کرنے کے لئے اس سے زیادہ سبق آموز نہیں ہوسکتا۔ لیکن کیا اس پہلو کو بھی سبق آموز قرار دیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص آگے کھڑا ہوجائے تاکہ دشمن کے تیر دوسروں کو نہ لگیں؟ میرا خیال ہے کہ اس داستان کے اس قسم کے حصوں کو – کم از کم – نمونۂ عمل ہونے کے لحاظ سے [مسکوت] رہنا چاہئے اور کربلا اور عاشورا کے کلی اور عمومی اسباق پر اکتفا کرنا چاہئے۔
– میرے خیال میں پوری داستان کربلا ابتداء سے انتہا تک، سبق آموز ہے لیکن اس کی بعض خصوصیات ایسی بھی ہیں جو لگتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے لئے مختص ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے خاص کاموں میں شامل ہیں۔
– اخلاقیات میں بھی ارشاد ہؤا ہے کہ “تم ہم “اہل بیت” تک نہیں پہنچ سکتے ہو”، امام حسین علیہ السلام نے انتہائی عظیم اور اہم کام سرانجام دیئے ہیں اور دوسروں کو سوچنا بھی نہیں چاہئے کہ وہ ان کاموں سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔
جاری
تبصرہ کریں