غزہ کی معیشت پر غاصب ریاست کی نو ماہی یلغار / صہیونی جرائم معاشی زاویے سے

غزہ پر غاصب ریاست کی یلغار 276 دنوں سے جاری اور اس جارحیت کا دسواں مہینہ شروع ہوچکا ہے؛ اس عرصے سے غزاویوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ، غزہ کی معیشت بھی غاصب ریاست کے جنگی جرائم اور صنعتی اور معاشی مراکز اور بنیادی ڈھانچوں کی وسیع پیمانے پر ارادی تباہ کاری کا شکار ہے۔

فاران: غزہ میں حاضر اقتصادی امور کے ماہر احمد ابو قمر نے فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: صہیونی دشمن کی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں غزہ کی معیشت کو بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر پہنچنے والے نقصانات میں ـ ہر منٹ اضافہ ہو رہا ہے۔

غزہ کی معیشت کا دارومدار اس کے اقتصادی اور تجارتی شعبوں پر ہے، اور یہ شعبے غاصب صہیونی ریاست کی فوجی جارحیت کی وجہ سے بے مثال بحرانوں کا شکار ہیں۔

صہیونیوں نے جنگ کے آغاز سے ہی اپنے حملوں کو غزہ کے بنیادی ڈھانچوں اور غیر فوجی شہری تنصیبات، اسپتالوں، ڈسپنسریوں اور اسکولوں سمیت سرکاری مراکز کی تباہی پر مرکوز رکھا ہے جنہیں جان بوجھ کر بھاری بمباریوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

غاصب صہیونی ریاست کی جنگ مشین نے اس عرصے میں دکانوں اور کارخانوں کو بھی جان بوجھ کر تباہ کر دیا ہے اور انہیں عوام کو خدمات فراہم کرنے سے محروم کر دیا ہے، یہاں تک کہ ان دکانوں اور کارخانوں کے مالکین نہ صرف حالت جنگ میں ان کی تعمیر نو کا تصور نہیں کر سکتے بلکہ جنگ غزہ کے بعد بھی وہ ان کی تعمیر نو میں مسائل سے دوچار ہونگے۔

غزہ کو سنہ 2006ع‍ سے اب تک بہیمانہ محاصرے کا سامنا ہے اور غزہ کے عوام اس پورے عرصے میں، دنیا کے سب سے بڑے قیدخانے [غزہ کی پٹی] میں قلعہ بند ہیں۔ اس طویل المدت محاصرے کا ایک نتیجہ بے بے روزگاری کا شدید بحران ہے۔ جنگ سے پہلے غزہ میں یونیورسٹیوں کے 60 فیصد فارغ التحصیل نوجوان بے روزگار تھے جبکہ بے روزگاری کی شرح خواتین کے درمیان 80 فیصد تھی، چنانچہ غزہ کے 80 فیصد عوام کی معیشت کا دارومدار انسانی بنیادوں پر امداد پر تھا۔

غاصب یہودی ریاست کی جاری جارحیت کے بعد زیادہ تر ادارے بند ہوگئے، سماجی استحکام اور امن و سلامتی کا خاتمہ ہؤا، غزہ کی 25 لاکھ آبادی میں سے 20 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے اور مجموعی بے روزگاری کی شرح 90 فیصد تک پہنچ گئی۔

یہودی ریاست کی جارحیت میں رہائشی تنصیبات، یعنی گھروں اور عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، تجارتی، زرعی، صنعتی اور دیگر شعبوں کو شدیدترین نقصان پہنچا ہے لیکن آج تک کسی بھی فریق نے نقصان سے دوچار ہونے والے غزاوی عوام کے ان نقصانات کا ازالہ کرنے کے بارے میں کوئی موقف نہیں اپنایا ہے۔

نو ماہی صہیونی جارحیت میں غزہ کو پہنچنے والا نقصان، گذشتہ 15 سال کی نسبت کہیں زیادہ ہے؛ اور اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے اندازوں کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کے لئے شاید 50 سال کا عرصہ درکار ہو یہاں تک کہ یہ سات اکتوبر 2023ع‍ سے قبل کی حالت میں پلٹ آئے۔

ابو قمر نے فارس نیوز ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ غزاویوں کی 90 فیصد بے روزگاری، جنگ سے پہنچنے والے نقصانات میں روز بروز اضافے کا سبب بن رہی ہے کیونکہ غزہ کی پٹی میں غربت کی شرح 95 فیصد سے بڑھ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی زیادہ تر صنعتی اور اقتصادی تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں یعنی یہودی ریاست نے غزہ کی 78 فیصد صنعتی تنصیبات کو جان بوجھ کر تباہ کر دیا ہے تاکہ غزہ میں زندگی بسر کرنا ناممکن ہو جائے۔ لیکن ہم امداد فراہم کرنے والی قوتوں کی مدد سے غزہ کو از سر نو پھر تعمیر کریں گے۔

اس غزاوی ماہر اقتصادیات نے غزہ کے تباہ شدہ ڈھانچوں کی تعمیر نو کے اخرجات کے بارے میں کہا: تباہ شدہ گھروں اور دوسرے مقامات کا ملبہ اٹھانے اور ملبے کو کسی بھی جگہ منتقل کرنے، یا بندرگاہ بنانے میں بروئے کار لانے، یا دوبارہ تعمیراتی مواد میں تبدیل کرنے پر بھاری اخراجات اٹھتے ہیں۔

انھوں نے کہا: صہیونی ریاست کی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کے عوام کو پہنچنے والے نقصانات چھ ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہیں اور یہ ان نقصانات سے الگ ہیں جو عمومی املاک اور اموال کو پہنچے ہیں اور ان نقصانات کا تخمینہ لگانا آسان نہیں ہے۔

غزہ کے ہر اقتصادی شعبے کو پہنچنے والے نقصانات

غزہ میں سرکاری انفارمیشن محکمے کے ڈائریکٹر جنرل “ابراہیم الثوابتہ” نے اخبار “العربی الجدید” کو بتایا: غاصب یہودی ریاست نے غزہ پر جارحیت کے دوران تقریبا 5000 کارخانوں اور اقتصادی تنصیبات کو تباہ کردیا اور یہ مراکز مزید کوئی بھی خدمت فراہم کرنے کے لائق نہیں رہے ہیں۔ جن میں جوتے، کپڑے اور لباس تیار کرنے والے کارخانے نیز دستکاری کے کارخانے اور اقتصادی منصوبے شامل ہیں۔

انھوں نے کہ صہیونی ریاست نے 195 سرکاری مراکز اور ہیڈکوارٹرز کو تباہ کر دیا، علاوہ ازیں 113 اسکول اور جامعات کو مکمل طور پر اور 323 جامعات، کالجوں اور اسکولوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

حماس حکومت کے اس اہلکار نے مزید کہا: غزہ کی معیشت کو براہ راست پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ جارحیت کے نویں مہینے کے آخر میں 33 ارب ڈالر ہے، اور غزہ کے تمام تر علاقے اس جارحیت سے متاثر ہوئے ہیں۔

الثوابتہ نے زور دے کر کہا: غزہ پر غاصب یہودی ریاست کے نو مہینوں سے جاری حملوں میں 150000 رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، 80000 مکانت رہن سہن کے قابل نہیں رہے ہیں اور 200000 مکانات جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی معیشت چلانے میں کردار ادا کرنے والے کارخانوں میں کام مکمل طور پر بند ہو چکا ہے کیونکہ پیداوار کے لئے ضروری مشینری، لیباریٹریاں اور ورک شاپس تباہ ہو چکے ہیں، اور یوں غزہ کا صنعتی شعبہ شدید بحران سے دوچار ہؤا اور اندرونی منڈی میں اشیاء ضرورت کی فراہمی بھی شدیدترین بحران سے دوچار ہوئی ہے۔ اور ابتدائی تخمینوں کے مطابق اس شعبے کو کم از کم ایک ارب بارہ کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تجارتی شعبہ ـ جو مارکیٹوں، دکانوں، ریستورانوں، ہوٹلوں، کمرشل اسٹوروں اور دوسرے تجارتی ادروں پر مشتمل ہے ـ غاصب ریاست کی جارحیت کی وجہ سے بھاری نقصانات سے دوچار ہؤا ہے اور اس شعبے کے نقصانات کا تخمینہ ایک ارب 62 کروڑ پانچ لاکھ ڈالر لگایا گیا ہے۔

الثوابتہ نے مزید کہا: غزہ کا زرعی شعبہ شدید اختلال اور ابتری کا شکار ہو چکا ہے جس نے پھلوں اور سبزیوں نیز مال مویشی اور مچھلیوں کی پیداوار اور خرید و فروخت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس شعبے کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ 1/05 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ غزہ میں تفریحی سرگرمیوں، سیاحت اور ہوٹلنگ کے شعبے کو پہنچنے والا نقصان کا تخمینہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے نیز نقل و حمل کے شعبے کو ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔

انھوں نے یہودی قابضوں کی جارحیت سے غزہ کے پہنچنے والے ان براہ راست نقصانات کو ابتدائی اور غیر حتمی قرار دیا اور کہا کہ ان تخمینوں میں غزہ کی معیشت کو پہنچنے والے بالواسطہ نقصانات شامل نہیں ہیں، اور پھر جنگ ابھی جاری ہے اور جب تک جاری رہے گی نقصانات کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوگا اور تشخیصی ٹیمیں ابھی تک صرف سات فیصد نقصانات کا جائزہ لے سکی ہیں۔

معاشیات کے ماہر و محقق “رائد حلس” نے بھی وضاحت کی کہ تخمینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی دشمن کی جارحیت کے نو مہینے بعد، غزہ کے بنیادی ڈھانچوں کو پہنچنے والے نقصانات 11 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور اگر جنگ مزید جاری رہے تو یہ غزہ کی معیشت، اس علاقے کے عوام کے مفادات، اور من حیث المجموع مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لئے عظیم خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

رائد حلس نے معاشی اور سماجی حالات پر غاصب صہیونیوں کی جارحیت کے بارے میں کہا کہ یہ نقصانات فلسطینیوں، ان کے گھروں، ان کے مفادات اور ان کی نفسیاتی صحت پر غاصب اسرائیلی ریاست کی اعلانیہ جارحیت کا نتیجہ ہیں جس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر غربت اور بے روزگاری پھیل گئی ہے، جبکہ یہاں بے روزگاری اور غربت جنگ سے پہلے بھی کچھ کم نہ تھی؛ دوسری طرف سے زخمیوں اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے عوام کے نفسیاتی اور سماجی اخراجات میں اضافہ ہؤا ہے۔