یہودی ہالیووڈ؛

فلم “کل کی جنگ” آخرالزمان کو ڈرامائی شکل دینے کی کوشش / شیعہ مفاہیم کا استعمال (۱)

یہ جو ہالیووڈ اس قضیئے کو دہرا رہا ہے، واضح اور ظاہری طور پر - اس کے کاروبار اور امریکی اہداف و مقاصد کی رو سے - معقول ہے؛ کیونکہ نوعمر لڑکے اور لڑکیاں فلمی اور خیالی ہیروز کو چاہتے ہیں، اور یہی لوگ ہالیووڈ کی فلموں کے اصل فلم بین ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کرس میک کے (Chris McKay) کی فلم “کل کی جنگ” (The Tomorrow War) آخرالزمان کے سلسلے میں بننے والی فلموں میں سے ایک ہے جو فنی لحاظ سے دلچسپ اور قابل دید ہے، لیکن اس طرز کی سابقہ فلموں میں دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ فلم موضوع اور مضمون کے لحاظ سے ایک چربہ ہے، اور ان ہی مضامین و موضوعات کو دہرایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی فلم “کل کی دھار” (Edge of Tomorrow) میں مستقبل کا سفر بھی – جس میں مستقبل میں جا کر انسانیت کے دشمنوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے، جس میں ٹام کروز نے اداکاری کی ہے، بھی دہرایا گیا ہے؛ اور صرف ایک چیز جو اس فلم کو کسی حد تک منفرد اور دلچسپ بناتی ہے، “وائٹ اسپائیک” نامی موجودات ہیں جو خاکہ کشی کے لحاظ سے دوسری آخرالزمانی فلموں میں بنائے گئے موجودات سے کچھ زیادہ ڈراونی ہیں۔
لیکن مذکورہ بالا فلم مندرجات کے لحاظ سے اس طرز کی سابقہ فلموں کی نسبت ایک مختلف تصور پیش کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آخرالزمان کے دشمنوں کو سائنسی صلاحیت سے فائدہ اٹھا کر تباہ کیا جاتا ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ ہالیووڈ کو مزید، ڈرواؤنی اور پیچیدہ لیکن سادہ سے آخرالزمانی دشمنوں کا سامنا نہیں ہے جنہیں راکٹ اور مشین گن سے تباہ کیا جا سکتا تھا، بلکہ اس زمانے میں اس کے دشمن خاص قسم کی پیچیدگی کے حامل ہیں جن کی تباہی ماضی کے موجودات کی ہلاکت سے بہت زیادہ مشکل ہو چکی ہے۔
جس طرح کہ ایک بدروح کو ” A Quiet Place Part II” الٹرا سانک امواج کے ساتھ ہلاک کیا جا سکتا ہے، فلم The Tomorrow War میں بھی کثیر تعداد میں عجیب و غریب موجودات کو ایک وائرل یا سمی مواد سے بآسانی مارا جا سکتا ہے۔
چنانچہ لیبارٹری اور سائنسی تحقیق کہانی کے بنیادی اور اہم جزو کے طور پر کردار ادا کرتا ہے اور آخرالزمانی بدروحوں کو ہلاک کرنے کے لئے ہر چیز کا درومدار سائنسی اور حیاتیاتی تحقیقات پر ہے۔ ایک سبز رنگ کا وائرس جس کو امریکی حَسِینوں کا لشکر سرزمین روس کے نچلے طبقوں میں اپنے سفینے کی کھوکھوں میں سوئے ہوئے ہیں، کے جسموں میں چبھو دیتے ہیں تاکہ وہ مر جائیں۔

کثیر النسل جنینوں کا تصور، جو آخری دنوں میں دنیا کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، اس سے پہلے فلم “بیگانہ” (Alien) کے عنوان سے بننے والی فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے، اور Alien کو ہیولاؤں یا بدروحوں پر مرکوز فلموں کا پیشرو قرار دیا جا سکتا ہے، اور اس تصور یا مفروضے پر استوار فلموں کا دہرایا جانا، درحقیقت اس تفکر کو زندہ رکھنے کا مترادف ہے، کہ انسان کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور مستقبل کے لئے اپنی نسل میں اضافہ کر رہے ہیں۔
لیکن “سائنسی اسلحہ” ایسی چیز نہیں جو صرف آخرالزمان تک محدود ہو اور اس کی بنیاد محض وہم اور خواب و خیال نہیں ہے؛ بلکہ آج ہی دنیا میں حیاتیاتی دہشت گردی (Bioterrorism) اور وائرل جنگ اور حیاتیاتی جنگ (Viral Warfare & Biological Warfare) جاری و ساری ہے۔ کورونا کی وبا ان احتمالات میں سے ہے جو کہتے ہیں کہ کچھ طاقتیں دوسروں کے تباہ کرنے کے لئے کورونا کو استعمال کر رہے ہیں۔ ایک انتہائی سستی جنگی روش، جس میں یقیناً اس کے دوسری حکمت عملی بھی ہے؛ برتری حاصل کرنے اور بااختیار بنانے کی حکمت عملی (Superiority and empowerment strategy)، ان ممالک کے لئے جو کورونا وائرس بنانے کے لئے دوسروں پر سبقت لے گئے ہیں۔ سائنسی اسلحہ واحد ہتھیار ہے جو پرایوں کی کثیر نسل کو تباہ کر سکتا ہے اور کی جڑوں کو خشک کر سکتا ہے۔
ہالیووڈ بھی امریکی ابلاغی اور تشہیری مشینری کے طور پر، ہر وقت امریکی طاقت کے مظاہر کو ہی دنیا والوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ان مسائل کے ساتھ ساتھ، “دشمن تراشی اور دشمن خلق کرنے کا دائمی رجحان بھی ہمیشہ کے لئے باقی ہے۔ فلم ساز کے تصور کے مطابق، روسی سرزمین کے نیچے شاید اگلی نسل کی تباہی اور دنیا پر تسلط پانے کے کسی منصوبے پر کام ہو رہا ہے! بالکل دوسری عالمی جنگ کے زمانے کی طرح، جو ہٹلر کے خفیہ اقدامات کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے خفیہ سائنسی مراکز میں خوفناک موجودات تیار کر رہا ہے جنہیں وہ عالمی جنگ میں امریکہ اور مغربی اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔
وہ تصور جو قلعۂ ولفنسٹین میں واپسی (Return to Castle Wolfenstein) نامی ویڈیو گیم کے شائقین کو بھی یاد ہوگا۔ ایک خوفناک قلعہ، جس میں نازی سائنسدان اتحادی ممالک کے خلاف استعمال کرنے کے لئے خوفناک موجودات تیار کئے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اس سلسلے میں ایک کتاب بھی لکھی گئی: ہٹلر کے بدروح: تیسرے [نازی] دور کی ما بعد الطبیعی تاریخ (Hitler’s Monsters: A Paranormal History of the Third Reich)۔ جس میں ماوراء الطیبیعیات کے تئیں ہٹلر کی توجہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
البتہ ہٹلر اور اس کے اس عقیدے کے بارے میں کچھ اقوال اور دستاویزات بھی موجود ہیں جن کا صحیح تاریخی جائزہ نہیں لیا گیا ہے لیکن اس زمانے میں اس موضوع پر ذرائع ابلاغ کا ارتکاز موجود زمانے سے بہت مختلف ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر ایک صدی قبل اس طرح کے مفروضات کو زیر بحث لایا جاتا تھا، تو ذرائع ابلاغ عامہ (Mass Media) کا فقدان تھا اور خبر رسانی شفاف نہ تھی اور اخبار اور رپورٹوں کے ابلاغ کی رفتار بہت کم تھی چنانچہ اس طرح کے خاص مفروضوں کا مقبول واقع ہونا – وہ بھی خوف و ہراس پھیلا کر – کافی حد تک ممکن تھا؛ لیکن آج کا زمانہ اس لحاظ سے بالکل مختلف ہے، ذرائع ابلاغ بہت طاقتور ہیں، راز بہت جلد فاش ہوجاتے ہیں اور [اگر کچھ قوتوں کا متفقہ ارادہ اسرار چھپانے پر مرکوز نہ ہو تو] خبریں کافی حد تک شفاف ہو جاتی ہیں، چنانچہ اس طرح کہ مفروضہ – کہ مثلاً روس خوفناک موجودات کی پیدا کرنے اور پالنے پوسنے میں مصروف ہے، بیسویں صدی کے آغاز کا ایک بے پھیکا سا مذاق اور بے ڈول توہم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
لیکن یہ کہ ہالیووڈ اس بچگانہ مفروضے کو ایک بار پھر کیوں سامنے لا رہا ہے، اس نکتے کی طرف پلٹتا ہے کہ ” ہالیووڈ ہستی کا انحصار ہی مجازی اور فرضی دشمنوں پر ہے”؛ اور اگر فرضی دشمن نہ ہوں تو ہالیووڈ کی چھٹی ہو جائے گی۔
یہ جو ہالیووڈ اس قضیئے کو دہرا رہا ہے، واضح اور ظاہری طور پر – اس کے کاروبار اور امریکی اہداف و مقاصد کی رو سے – معقول ہے؛ کیونکہ نوعمر لڑکے اور لڑکیاں فلمی اور خیالی ہیروز کو چاہتے ہیں، اور یہی لوگ ہالیووڈ کی فلموں کے اصل فلم بین ہیں، اور انہیں نسل بہ نسل ان ہی فلموں کو اسی تصور و تفکر کے ساتھ دیکھنا چاہئے، اور ہر نسل میں یہ موضوعات و مضامین کو دہرانا چاہئے، اور مغرب میں، ہر نسل کے نوعمر افراد کو چاہئے کہ ان فلموں کو دیکھ لیں تاکہ ان کے شعور اور لاشعور میں یہ مضامین بیٹھ جائیں اور وہ باور کریں کہ کچھ ان جانے دشمن ان کی گھات میں بیٹھے ہیں۔ یہی تشہیری رویہ ہی تھا جو 11 ستمبر 2001ع‍ کے واقعے کے بعد دنیا بھر – بالخصوص مغربی ممالک – کی رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہؤا، کہ مغربی ایشیا (مشرق وسطیٰ) کے مسلم ممالک مغرب کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ سازی میں مصروف ہیں اور دفع شرّ اور برائی کے ازالے کے لئے ان ممالک پر حملہ کرنا چاہئے۔
چنانچہ ہالیووڈ نے پرانے تصورات کی بنیاد پر کچھ مختلف سی فلم بنانے کے لئے “آخرالزمانی دشمنوں کی تباہی کے لئے سائنسی اور تجربہ گاہی ہتھیار” کی نئی تمّیل (اور نئے مرکزی خیال) کا سہارا لیا ہے۔ البتہ یہ مرکزی خیال اس سے قبل مزاحیہ کتابوں (Comic Books) اور پرانی فلموں میں بھی بروئے کار لایا جاتا رہا ہے۔ لیکن ہالیووڈ نے کچھ عرصے سے اس سے استفادہ نہیں کیا تھا؛ اور اب ایک بار پھر اسی تصور اور مرکزی خیال کی جلوہ نمائی پر مرکوز ہو چکا ہے۔
لیکن اس طرح کے تکراری (Repetitive) اور بیزارکن (Boring) تصورات کے علاوہ، ہالیووڈ ان تصورات کو کیوں استعمال کرتا ہے جو شیعہ ثقافت اور مذہبی عقائد – بالخصوص رجعت – میں رائج ہیں؟!

 

جاری