تحریف شدہ یہودیت؛

مغربی تہذیب، یونانی تہذیب سے یہودی ہیلینیت تک

یہودی قوم کی خصوصیات کے پیش نظر، کیا یہ کہنا چاہئے کہ بنی اسرائیل میں دائما رائج "دین دشمنی کے رججانات" یا "آسمانی شریعتوں کی مخالفت" یونانیوں کی غیر الہی تعلیمات اور محض تجربیاتی اور مادی تفکرات کی پذیرائی کا پیش خیمہ نہ تھی؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یونانی تہذیب ایک قلیل آبادی پر مشتمل قوم کی چھوٹی سی سرزمین پر معرض وجود میں آئی، لیکن یہ یورپ کی قدیم ترین تہذیب ہے اور مغربی تہذیب میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ جدید مغرب فکر، ثقافت، طرز زندگی اور حکمرانی کی روش کے لحاظ سے یونانی تہذیب کا تسلسل ہے۔
اگرچہ تاریخی جائزون سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم یونانی اپنی تہذیب اور علوم و فنون کو “مصری، کلدانی یا کالدیہ (Chaldean)، (1، ایران اور ہند” جیسی مشرقی تہذیبوں کے مرہون منت سمجھتے تھے، لیکن قدیم یونانیوں کا مذہب اساطیر اور دیومالائی افسانوں کا مجمُوعہ ہے۔ [اساطیر اسطورہ کی جمع ہے] اور ہر اسطورہ کا اپنا دیوتا ہوتا تھا، چنانچہ دیوتا پرستی (یعنی متعدد معبودوں کی پوجا) رائج تھی۔
سرزمین مغرب میں علم اور فلسفے کا عروج چھٹی صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے جو کہ مشہور یونانی فلسفیوں کی موجودگی کے لئے جانا جاتا ہے جیسے: تھیلس (یا طالس = Thales of Miletus) ، اناکسا غورث (Anaxagoras)، ہیراکلیٹس (Heraclitus) اور بعد میں ان جیسے: دیموقراطیس (Democritus)، سقراط، افلاطون اور ارسطو وغیرہ۔ اور جدید مغرب کے بنیادی عناصر اور احزائے ترکیبی اس زمانے سے تشکیل پائے ہیں۔
اس بحث کا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہودیت ایک توحیدی مذہب ہے لیکن اس کی تعلیمات قدیم یونان کے فکری مکتب سے متاثر ہوئے ہیں؛ البتہ اگرچہ شاید مسلسل تحریفات کی وجہ سے یہودیت کی یکتا پرستی میں شک و شبہہ ہو سکتا ہے، لیکن یونان میں اس دور کے رائج شرک اور دیوتا پرستی یا بت پرستی میں کوئی شک نہیں ہے۔
تاریخی حوالے سے کہا جاتا ہے سکندر مقدونی کی سلطنت کے پھیلاؤ کے بعد عبرانی سنت اور یہودی تعلیم و ثقافت یونانی بن گئی ہے۔ سکندر کی فتوحات اور یونانیت یا ہیلینیت (Hellenism) کے فروغ کی وجہ سے یہودیوں میں جدت پسندی رائج ہوئی۔۔۔ سلوقیوں (Seleucid Empire) کی سخت گیر حکومت کے دور میں یونانی ثقافت نے یہودیوں میں مزید رسوخ کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ یہودی جو اپنے زمانے میں توحید کے واحد اور متعصب مبلغ تھے، یونان کے مشرکانہ ماحول سے کیوں متاثر ہوئے؟! جان بی ناس (John Boyer Noss) نے اس سوال کا اجمالی جواب دیا ہے جو کچھ یوں ہے:
ہیلینیت (Hellenism) نے یہودی مفکرین کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور وہ جو اپنے زمانے کی ناکامیوں سے بدگمان ہو چکے تھے اور اپنے انبیاء کی کتب سے اداس اور مایوس ہو چکے تھے، اس قسم کے افکار کی طرف راغب و مائل ہوئے۔
لیکن سوال کا اگلا حصہ یہ ہے کہ یہودی اپنے انبیاء کی کتب سے اکتا کیوں گئے اور مایوس کیوں ہوئے؟! مشکل انبیاء کی طرف سے تھی یا بنی اسرائیل کی طرف سے، یا نہیں بلکہ مشکل ان کتابوں سے جنم لے رہی تھی جو انبیاء سے منسوب تھیں لیکن ان میں ہیرا پھیری اور تحریف ہوئی تھی؟!
یہودی قوم کی خصوصیات کے پیش نظر، کیا یہ کہنا چاہئے کہ بنی اسرائیل میں دائما رائج “دین دشمنی کے رججانات” یا “آسمانی شریعتوں کی مخالفت” یونانیوں کی غیر الہی تعلیمات اور محض تجربیاتی اور مادی تفکرات کی پذیرائی کا پیش خیمہ نہ تھی؟
اگر پھر وہ اس بات کے قائل ہوں کہ قدیم یونانی فلسفیوں کی تعلیمات یہودیت سے زیادہ جامع و کامل تھیں، تو کیا اس صورت میں یہودی مذہب کے کامل اور جامع ہونے میں شک نہیں کرنا چاہئے؟!
چنانچہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کم از کم “یہودیت کی غیر الہیت یا شرک آمیز ہونے کے لحاظ سے یہودیت اور قدیم مغربی فلسفے میں اشتراک پایا جاتا تھا؛ کیونکہ کوئی بھی معاشرہ، جب تک کہ فکری لحاظ سے آمادہ نہ ہو، اجنبی ثقافت سے متاثر نہیں ہؤا کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔
مقالہ “سیر شکل‌گیری تمدن غرب مدرن / از تمدن یونانی تا هلنیسم یهودی” (/ جدید مغربی تہذیب کی تشکیل کا تاریخی سفر / یونانی تہذیب سے یہودی ہیلینیت تک) کا خلاصہ
بقلم: سید محمدباقر رکنی