کیا یہودی عورت کو مال و متاع یا مال مویشی سمجھتے ہیں؟ 2
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
یہودیت میں وصیت کے احکام
یہودی مذہب میں افراد کی وصیت اگر شرعی قواعد کے مطابق ہو تو نافذ العمل ہے، مگر قوانین اور ترکے میں افراد کے حصے کا تعین ربی (یا حاخام) کے فتاویٰ پر منحصر ہیں، اور عدالت کا فیصلہ بھی اسی فتویٰ پر مبنی ہوتا ہے۔ چنانچہ ترکے میں افراد کے حصے کچھ یوں ہیں:
1۔ بیٹے کا حصہ بیٹی کے حصے سے دو گنا بڑا ہے۔
2۔ اگر پہلی اولاد بیٹا ہو تو اس کے بقیہ بھائیوں کی نسبت دو گنا حصہ ملے گا۔
3۔ اگر بیٹی کنواری ہو تو اس کا حصہ ثابت ہے یعنی بیٹے کا نصف حصہ؛ لیکن اگر بیٹی شادی شدہ ہو تو اس کا حصہ جہیز کی صورت میں دے دیا جائے گا، اور ترکے میں متعینہ حصے سے محروم ہوگی۔ شاید یہودی لڑکیوں کے بڑے جہیز کا راز یہی ہے۔ تاہم آج کے یہودی مذہبی عمائدین اس قاعدے کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ شادی کی صورت میں ترکے میں سے اس کا حق تلف ہو جاتا ہے، لہٰذا ترکے میں سے اس کا حصہ ادا کرنا چاہئے۔
4۔ مرنے والے کی بیوی درختوں کے پھل کی طرح، جائیداد کا آٹھواں حصہ پاتی ہے اور اس کو سرپرستانہ حق حاصل ہے یعنی یہ کہ اس کی عزت و وقار کے تحفظ کے لئے، وہ اس وقت تک اپنے شوہر کے گھر میں رہ سکتی ہے جب تک کہ وہ زندہ ہے، اور کسی کو بھی اسے بے دخل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
5. بیوہ، دوبارہ شادی کرنے کی صورت میں، ارث ميں اپنے جصے سے محروم ہو جاتی ہے۔
یورپ اور امریکہ نیز مغربی ایشیا میں رہائش پذیر یہودی شادی بیاہ، ارث،
یورپ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں رہنے والے یہودی شادی، وراثت، ذاتی حیثیت اور غیر ذاتی حیثیت کے معاملے میں اپنی رہائشی ممالک کے قوانین کے تابع ہیں۔
عورت پر زیادتی ہو تو بھی مرد مقدم ہے!
توریت ایک کنواری لڑکی پر جنسی زیادتی کو، اس کے ہونے والے شوہر کے خلاف جرم سمجھتی ہے نہ کہ اس کے اپنے خلاف: کتاب استثنا کے باب نمبر 22 کی آیات 23 اور 24 میں بیان ہؤا ہے: “اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی اور کوئی دوسرا آدمی اُسے شہر میں پا کر اُس سے مجامعت کرے * تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں لڑکی کو اِس لئے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چِلائی [اور کسی کو مدد کے لئے نہیں بلایا] اور مرد کو اِس لئے کہ اُس نے اپنے پڑوسی کی بیوی کو بے حُرمت کیا”؛ یعنی یہ کہ ایک عورت پر جنسی زیادتی درحقیقت مرد کی عزت پر حملہ سمجھا جاتا ہے نہ کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت پر!
عورت قربانی کا مناسب ترین وسیلہ
تحریف شدہ توریت عورت کو قربانی کا مناسب ترین وسیلہ سمجھتی ہے۔ قضاۃ، باب 11 ایات 30 تا 40۔ میں یِفتاح جلعادی [یا افتاح گلعادی] کا قصہ بیان ہؤا ہے جہاں یفتاح منت مانتا ہے کہ بنی عمون پر فتح پانے کی صورت میں اسی کو قربان کرے گا جو گھر سے اس کے استقبال کے لئے نکلے گا، اور جب فتح پا کر آیا تو اس کی بیٹی نے اس کا استقبال کیا اور آخرکار گلعادی نے اسے قربان کردیا۔ یہ داستان البتہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھ بیٹے اسمٰعیل (علیہ السلام) کی قربانی سے زیادہ مشابہت نہیں رکھتی کیونکہ اس قربانی کے لئے یہوہ (خدا) کا حکم نہیں آیا تھا اور پھر جب قربانی کا وقت آیا تو یہوہ کی طرف سے اس بے چاری لڑکی کے بچاؤ کی بھی کوئی ترکیب نہیں آئی۔
کتاب پیدائش، باب 19، آیات 1 تا 8 میں لوط (علیہ السلام) کا افسانہ ہے جس میں عورتوں کو مردوں کا شر مٹانے کے لئے قربان کیا جاتا ہے۔ اس افسانے میں بیان ہؤا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اہلیان شہر سے، شر ہٹانے کی غرض سے، اپنی دو بیٹیوں کو قربان کر دیا تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خوبرو فرشتوں کو – جو آدمیوں کی صورت میں یہوہ کی طرف سے بھجوائے گئے تھے، – قوم لوط کے ہم جنس بازوں کی طرف سے کوئی گزند نہ پہنچے!
ہر صورت میں، گنہگار عورت ہی ہے
یہودیوں کے خدا “یہوہ” کی رائے میں عورت اور مرد کے درمیان کسی بھی ناجائز جنسی تعلق کا گناہ مرد پر نہیں بلکہ عورت پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ عورت اپنی جنسی کشش کی طاقت سے مرد پر جادو کر دیتی ہے، اور اس کو جنسی تعلق برقرار کرنے پر آمادہ کرتی ہے!
نکاح اور ازدواج یہودیت میں بھی خدا کی رضا کے موافق ہے کیونکہ خدا نے خلقت کے آغاز پر، فرمایا کہ چونکہ یہ [عورت] اس مرد [میاں] کی خاطر ماں باپ کو چھوڑ کر اس [شوہر] سے مل جاتی ہے، لہٰذا یہ دونوں ایک جسم بن جائیں گے۔ رشتہ مانگنے اور شادی بیاہ کی رسم عموماً متعلقہ معاشرے کی رائج ثقافت کے زیر اثر ہوتی ہے۔
مرد اور عورت کی عدم برابری / کنوارے پن کی شرط
یہودیت میں، شادی کے معاملے میں عورت مرد کے ہم پلہ، کفو اور ہمسر نہیں ہے اور یہ معلوم کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ شادی بیاہ یہودیت میں واجب ہے یا نہیں، لیکن اس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور اگر کوئی شادی کرے اسے ایک سال تک لشکر [فوج] میں خدمت سے معاف ہے۔ لڑکی کی بکارت [کنوارا پن] عقد و ازدواج کی بنیادی شرطوں میں شامل ہے؛ چنانچہ سفر تثنیہ کے باب 22 کی 13 سے 22 تک کی آیتوں میں بیان ہؤا ہے کہ اگر “اگر شادی کے بعد لڑکی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے گئے * تو شوہر اُس لڑکی کو اُس کے باپ کے گھر کے دروازے پر نکال لائے اور اُس کے شہر کے لوگ اُسے سنگسار کر دیں؛ اور اگر شوہر یہ الزام ثابت نہ کر سکے تو اس پر ایک سو مثقال چاندی جرمانہ عائد کیا جائے گا اور مجبور ہوگا کہ اس لڑکی کے ساتھ زندگی بسر کرے”۔
بھاوج [بھابی] سے جبری شادی
یہودی مذہب ميں ایک قسم کی شادی “یبوم” نامی شادی (یعنی بھائی کی بیوہ سے شادی) ہے۔ یبوم کا قانون کتاب استثنا، باب 25 آیات 5 تا 10 میں یوں بیان ہؤا ہے: “ہر گاہ دو بھائی ایک مقام پر باہم رہائش پذیر ہوں اور ان میں سے کوئی ایک بیٹے کا باپ بنے بغیر مر جائے، تو اس کی بیوہ کو خاندان سے باہر کسی مرد سے شادی نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اس کے دیور کو اسے اپنی بیوی بنانا چاہئے اور دیور ہونے کا حق ادا کرنا چاہئے۔ اس شادی سے جنم لینے والے پہلے بیٹے کو مرحوم بھائی کا بیٹا قرار دینا چاہئے اس لئے کہ مرے ہوئے شخص کا نام بنی اسرائیل سے فراموش نہ ہو۔ لیکن اگر متوفیٰ کا بھائی اس شادی پر راضی نہ ہو، تو وہ عورت شہر کے سفید ریش بزرگوں کے پاس جائے اور ان سے کہہ دے: “میرا دیور میرے سلسلے میں اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہا ہے اور اپنے بھائی کا نام بنی اسرائیل میں باقی نہيں رہنے دیتا”؛ تب اس شہر کے بزرگ اس شخص [یعنی دیور] کو بلوا کر سمجھا دیں۔ اگر وہ پھر بھی آمادہ نہ ہؤا تو بیوہ عورت ان بزرگوں کی موجودگی میں اس مرد کی طرف جائے، اس کے پاؤں سے جوتی اتار دے اور اس کے منہ پر تھوک دے اور کہہ دے: “جو مرد اپنے بھائی کا چولہا گرم نہیں رکھتا، وہ ایسا ہی ہو جائے”، بعدازاں اس مرد کا خاندان اسرائیل میں ایسے خاندان کے نام سے مشہور ہوگا جس کی جوتی اتاری گئی تھی۔”
جاری
تبصرہ کریں