یہودیوں کی خونخواری کے کچھ اور نمونے (2)
فاران؛ سنہ ۱۴۷۵ع کو اٹلی کے شہر ٹیرنٹ میں ایک یہودی ڈاکٹر نے سائمن (Simon) نامی دو سالہ عیسائی بچہ یہودی مقدس رسومات کے ایام میں اس کے والدین کی غیرموجودگی میں گھر سے چوری کرلیا۔ بچہ غائب ہوا تو نگاہیں یہودیوں کی طرف گئیں اور یہودیوں نے بھی تلاش میں حصہ لیا اور راز فاش ہونے کے خوف سے بچے کی لاش کو لاکر کہا کہ یہ ہم نے تلاش کرلی ہے اور بچہ پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوا ہے۔ لیکن تفتیش کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ بچہ ڈوبا نہيں بلکہ اس کی گردن، ہاتھوں اور پاؤں پر بےشمار گھاؤ لگے ہوئے ہیں جن سے بچے کے خون کا آخری قطرہ بھی نکالا گیا ہے۔ یہودیوں نے مجبور ہوکر اعتراف جرم کیا لیکن اپنے اس غیر انسانی عمل کا جواز پیش کرتے ہوئے کہ انہیں مذہبی رسومات میں قربانی کے لئے اس بچے کی ضرورت تھی اور اس کے خون سے عید فصح کی روٹی تیار کی گئی۔ سات یہودی اس جرم کے بموجب تختہ دار پر لٹکائے گئے۔
سنہ ۱۸۴۰ع کو وینس (Venice) میں بھی تین یہودیوں کو ایک عیسائی بچے کی قربانی کے جرم میں پھانسی دی گئی۔
سنہ ۱۴۸۵ع کو شہر پاڈوا (Padua) کے نواح میں لورنزین (Lorenzin) نامی عیسائی بچی یہودیوں کے ہاتھوں ذبح ہوئی۔
سنہ ۱۶۰۳ع کو شہر ویرونا (Verona) میں ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کے بدن سے ماہرانہ انداز میں خون کی ایک ایک بوند تک نکالی گئی تھی۔ اس قضیئے میں کئی یہودیوں کو سزائیں ہوئیں۔
مجارستان (ہنگری)
سنہ ۱۴۹۴ع کو شہر تیرانان (Teranan) میں یہودیوں نے ایک بچے کو صلیب پر لٹکایا اور اس کے جسم کا پورا خون نکال لیا۔ ایک معمر خاتون نے درندگی کی اس واردات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا چنانچہ اس نے واقعے میں ملوث افراد کو متعارف کرایا۔ یہودیوں نے تفتیش اور مقدمے کے دوران اعتراف کیا کہ انھوں نے چار دوسرے بچوں کو بھی ذبح کیا ہے اور ان کے خون کو “طبی مقاصد” کے لئے استعمال کیا ہے۔
اپریل ۱۸۸۲ع کو یہودیوں کی خونی عید سے کچھ دن پہلے ۱۴ سالہ عیسائی لڑکی ٹریسا ایزلر (Tisza-Eszlar) کے نواح میں یہودیوں نے ۱۴ سالہ عیسائی لڑکی ایستر سالیموسی (Esther Solymosi) کو اغوا کیا۔ اسے آخری بار یہودی عبادتخانے کے باہر دیکھا گیا تھا۔ لوگوں کی توجہ یہودیوں کی طرف گئی۔ عبادت خانے کے ملازم جوزف شارف (Josef Scharf) کے دو بچوں ساموئل اور مورتیز (Samuel and Mortiz) نے اپنے باپ پر الزام لگایا اور کہا کہ ان کے والدین نے اس کو درندگی کا نشانہ بنا قتل کیا۔ لڑکی کی لاش ہرگز نہیں ملی۔ کئی یہودیوں نے کہا کہ انھوں نے عید فصح کے لئے لڑکی کے قتل میں حصہ لیا تھا۔ عبادتگاہ کے ملازم کے ایک بیٹے نے کہا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کہ لڑکی کے خون کو ایک بڑے برتن میں جمع کیا گیا۔ ۱۵ یہودی ملوث پائے گئے، مقدمہ ۱۹ جنوری سے ۳ اگست تک جاری رہا اور ماضی میں اتنا طویل مقدمہ کبھی نہیں لڑا گیا تھا۔ یہودی مال و دولت نے عیسائی لڑکی کا خون پامال کرہی لیا اور مجرمین اقرار جرم کے باوجود بےگناہ قرار دیئے گئے۔ یہودی درندگی کی یہ واردات پورے یورپ میں یہودیوں کے خلاف زبردست نفرت اور دشمنی پھیل جانے کا باعث ہوئی۔ (تو یہودی دشمنی یورپ میں بےسبب نہیں ہے)۔
روس
سنہ ۱۸۲۳ کو شہر ویلیژ (Velizh) میں یہودیوں کی عید فصح کے موقع پر ایک اڑھائی سالہ عیسائی بچہ لاپتہ ہوا اور ایک ہفتہ بعد اس کی لاش کو شہر کے قریبی تالاب سے برآمد کیا گیا۔ جس کے ننھے جسم پر نوکدار کیلوں کے لگنے سے بے شمار زخم آئے تھے، بچے کو کیلوں کے ذریعے زخمی کرنے کے بغیر اس کا ختنہ بھی کیا گیا تھا اور بدن میں خون کی ای بوند بھی نہیں پائی گئی، چنانچہ چند سال بعد تین روسی عورتوں سمیت پانچ یہودی حراست میں لئے گئے، جنہوں نے اقرار جرم کیا اور تین روسی عورتوں کو ـ جنہوں نے یہودی مذہب اختیار کیا تھا ـ سائبریا جلاوطن کیا گیا جبکہ یہودیوں کو بری کیا گیا جبکہ انھوں نے بھی اعتراف جرم کیا تھا لیکن یہودی پیسہ یہاں بھی کام آیا۔
یہودیوں کے ہاتھوں اغوا کی وارداتیں جاری رہیں۔ دسمبر ۱۸۵۲ع میں ایک دس سالہ عیسائی بچہ اغوا ہوا۔ یہودیوں کو اس جرم میں ملوث پایا گیا اور انھوں نے بچے کے قتل اور اس کا خون جاری کرنے کا اقرار کرلیا۔
جنوری ۱۸۵۳ع میں ایک ۱۱ سالہ بچہ اغوا کیا گیا اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا گیا جو دوسروں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ یہودیوں کو ملوث پایا گیا۔
مورخہ ۲۰ مارچ سنہ ۱۹۱۱ع کو شہر کیف (Kiev) کے نواحی علاقے سے ایک ۱۳ سالہ عیسائی بچے آندیری یوشچنکی (Andrei Yushchinsky’s) کی لاش برآمد ہوئی جس کو چاقو کے ۴۸ وار کرکے قتل کیا گیا تھا اور اس کا پورا خون نکالا گیا تھا۔ قتل میں مناحیم مینڈل بیلیس نامی حسیدی (Hasidic) فرقے کا یہودی ملوث پایا گیا اور اس پر سنہ ۱۹۱۳ع میں مقدمہ چلایا گیا لیکن آخرکار اسے بھی بری کیا گیا اور اس مقدمے کی وجہ سے سلطنت روس پر یہودی دشمنی کے الزام میں زبردست عالمی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہودی قاتل بہر حال بری ہوا اور قاتل پر مقدمہ چلانے والے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ (چمک کی برکت سے)۔
ترکی
سنہ ۱۸۳۹ع میں دمشق کے کسٹمز اہلکاروں نے ایک یہودی سے خون کی ایک بوتل برآمد کرلی۔ یہودی نے ۱۰۰۰۰ پیاسٹر رشوت کی پیشکش کرتے ہوئے مسئلہ دبانے کی درخواست کی۔
سنہ ۱۸۴۰ع کو یہودیوں کی عید “پوریم” کے موقع پر جزیرہ روڈز (Rhodes island) میں ایک یونانی عیسائی تاجر کا ۸ سالہ بچہ لاپتہ ہوا۔ اس کو آخری بار یہودی محلے میں دیکھا گیا تھا۔ وہ کچھ یہودیوں کو انڈے پہنچانے کے لئے اس محلے میں پہنچا تھا۔
ترک بادشاہ یوسف پاشا نے یونانی عوام کے شدید مطالبے پر یہودی محلے کو گھیر لیا اور یہودی سرغنوں کو گرفتار کرکے قید کرلیا۔ دائرۃ المعارف یہود طبع چہاردہم، کے صفحہ ۴۱۰ پر اقرار کیا گیا ہے کہ یہودی سرمایہ دار اور برطانوی یہودیوں کا سربراہ موسی مونتفیوری (Moses Montefiore) بیچ میں آیا اور ترک دربار کو بھاری رشوت دی۔ عثمانی سلطنت کے بینکوں کا یہودی سربراہ “کونٹ کمانڈو (Count Camondo) نے حقیقت کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہودی سرمائے کی قوت نے نہ صرف اس جرم کے دوران حق کو چھپایا اور دبایا بلکہ بہت سے دوسرے واقعات میں حق کشی میں مصروف رہی تھی اور آج تک مصرف ہے۔
یہودی آج بھی خاموشی سے خونخواری میں مصروف ہیں لیکن روش بدل گئی ہے
گوکہ یہودیوں کی آج کی جرائم پیشگی ذرا عجیب سے معلوم ہو لیکن یہودی خونخواری کی روایت میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چونکہ آج کے زمانے میں جرم کا تیزی سے سراغ لگایا جاتا ہے اور قانون کا تعاقب کچھ زیادہ رائج اور ناگزیر اور رشوت وسیع سطح پر بدنامی کا سبب بنتی ہے چنانچہ یہودیوں نے روش بدل دی ہے، بڑوں کو چھوڑنا پڑا ہے لیکن شیرخواروں کا خون چوسنا جاری و ساری ہے۔
تبصرہ کریں