یہودی ریاست باکو کو اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہے: ڈاکٹر کاظمی
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: قفقاز کے کے امور کے ماہر و مبصر ڈاکٹر احمد کاظمی نے “ابرار معاصر” کے بین الاقوامی مرکز مطالعاتی مرکز میں قفقاز کے حوالے سے ارمینیا کے نقطۂ نظر اور علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے رجحانات کا جائزہ لینے کے لئے “قفقاز کا مستقبل” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس علاقے میں جعلی یہودی ریاست “اسرائیل” کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: “جُغ-سیاسی نقطۂ نظر سے، قفقاز یورپ اور وسطی ایشیا کی طرف آنے کی گذرگاہ ہے، بحیرہ کیسپئن، وسطی ایشیا اور چین کی مغربی سرحدوں اور ایران کی شمالی سرحدوں تک جنوبی روس کی رسائی کا راستہ ہے؛ اور صہیونیوں کے لئے بھی برسوں سے یک ایک اہم دریچہ ہے اور جیو معاشی لحاظ سے یہودی ریاست کھلاڑیوں کے اس زمرے میں آتی ہے جنہوں نے سب سے پہلے، بحیرہ کیسیئن اور جمہوریہ آذربائیجان کی حدود میں موجودہ توانائی کے ذخائر سے فائدہ اٹھایا ہے”۔
ان کا کہنا تھا:
جیوثقافتی حوالے سے بھی قفقاز کا خطہ ایرانی تہذیبی حلقۂ اثر میں شمار ہوتا ہے؛ اور اس خطے کی ایرانی تاریخی اور ثقافتی تہھیں (Cultural layers) یہودیوں کے لئے باعث تشویش ہیں، چنانچہ صہیونی ریاست قفقاز اور جمہوریہ آذربائیجان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ صہیونی اس علاقے کو دوسرے اسرائیل کا عنوان دیتے ہیں۔ البتہ ماضی میں – سابق سوویت اتحاد کے زوال کے بعد – موجودہ آذربائیجان صہیونیوں کی سرگرمیوں کا مرکز نہیں تھا بلکہ انھوں نے جارجیا سے اپنا کام شروع کیا ہے؛ کیونکہ، اگرچہ قفقاز کے لوگ پرامن زندگی کے قائل تھے، لیکن جمہوریہ آذربائیجان کے عوامی ثقافت میں یہودیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
یہودی ریاست نے آذربائیجان میں اپنے لئے اڈہ قائم کرنے کی غرض سے، آذربایجانی رائے عامہ کی تبدیلی کے لئے چار مرحلوں پر مشتمل منصوبے پر کام کیا۔ جعلی ریاست نے آذربائیجان کے ساتھ تعلقات کو دوسرے یورپی ممالک کے ساتھ رابطے پر مقدم رکھا ہے، اور اس کو صہیونیت کے علاقائی اڈے کی نظر سے دیکھتا ہے۔
چار مراحل:
1۔ یہودی-اسرائیلی اثر و رسوخ کا پہلا مرحلہ معیشت، زراعت اور آبپاشی میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے راستے سے انجام پایا۔ صہیونیوں نے جمہوریہ آذربائیجان کی ضروریات اور اس کے عوام کی تھوڑی سی حساسیت کی بنا پر، ان شعبوں میں برسوں سے سرمایہ کاری کی ہے۔
2۔ دوسرے مرحلے میں اس نے جمہوریہ آذربائیجان کے ثقافتی شعبوں میں موجود رہنے کی کوشش کرتے ہوئے یہاں صہیونی مراکز قائم کئے، تعمیراتی شعبے میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کی غرض سے شہری منصوبہ بندی اور فن تعمیر کے میدان فعال کردار ادا کیا اور یہودی انجنیئرنگ اور فن تعمیر کو فروغ دیا۔
3۔ صہیونی ریاست نے پہلے دو مراحل طے کرلئے اور صہیونی اس ریاست میں زیادہ نمایاں ہوئے تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ جمہوریہ آذربائیجان نے اپنی جغرافیائی سالمیت کی بحالی کے لئے یہودی ریاست سے اسلحہ وصول کیا۔
4۔ چوتھا اور اخری مرحلہ یہ تھا کہ ارمینیا کے ساتھ قرہ باغ کی دوسری جنگ شروع ہوئی، جس کے دوران صہیونی فوجی افسران ڈرون چلانے اور اپنے دیئے ہوئے ہتھیاروں کے استعمال کے بہانے، آذربائیجان میں آ ٹپکے اور اسلام و بنی نوع انسان کے بدترین دشمن کا پرچہ آذربائیجان کی اسلامی سرزمین میں لٹکایا گیا؛ جس کا مقصد جعلی ریاست اور صہیونیت کے علاقائی اڈے کا قیام ہے۔
صہیونیت اور اردوگانی ترکیہ کے مشترکہ مقاصد
1۔ جعلی یہودی ریاست کا سب سے بڑا مقصد یہودیوں کو جمہوریہ آذربائیجان میں بسانا ہے۔ غاصب اسرائیلی صہیونیوں کے لئے دوسرا گھر ڈھونڈ رہے ہیں؛ [وہ بھی روس اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان]۔
2۔ ایران کو قفقاز سے نکال باہر کرنا صہیونیوں کا دوسرا بڑا مقصد ہے۔ صہیونی ریاست کا خیال ہے کہ جب تک کہ ایران اور قفقاز کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہونگے، اور جب تک قفقاز میں تشیّع موجود رہے گا، اس خطے میں غاصب ریاست کے لئے پاؤں جمانے کی گنجائش نہیں رہے گی۔
3۔ ترکیہ بھی یہودی ریاست کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر، [آذربائیجان کو فوجی امداد دینے کے ساتھ ساتھ] اپنے خاص عزائم کے ساتھ اس قفقاز میں موجود ہے، وہ ارمنیوں کی نسل کشی کے تاریخی جرم سے بھی جان چھڑانا چاہتا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ارمینیا اس قضیے میں ترکیہ کے قانونی تعاقب نیز ترکیہ کے ہاتھوں اپنے مقبوضہ علاقوں پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائے؛ اور بالکل تنہا ہو جائے؛ ایران سے جغ-سیاسی طور پر بالکل کٹ جائے، اس طرح سے کہ اس کے پاس مزید کوئی بھی راستہ نہ ہو جس پر گامزن ہوکر ترکیہ کے خلاف عالمی سطح کی قانونی سرگرمیوں کی طرف پلٹ سکے۔
ادھر عجب یہ ہے کہ غاصب اسرائیلی ریاست سمجھتی ہے کہ جمہوریہ ارمینیا کی طرف سے ترکیہ کے خلاف نسل کشی کا مسئلہ، در حقیقت اس کے ہالوکاسٹ کے دعوے کے لئے رقیب کا کردار ادا کر رہا ہے اور وہ اس مسئلے سے کافی ناراض ہے [کیونکہ ترکیہ کے ہاتھوں ارمینیائی باشندوں کے قتل کا مسئلہ صحیح اور مستند ہے جبکہ ہالوکاسٹ ایک استعماری دعوے سے زیادہ کچھ نہیں ہے]۔ چنانچہ وسیع پیمانے پر تجارتی، معاشی اور عسکری تعاون کے ساتھ ساتھث اس مسئلے میں بھی ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔ چنانچہ، آذربائیجان کو صہیونیت کا علاقائی اڈہ بنایا جائے تو یہ ایران، ارمینیا، روس اور چین کے خلاف کثیر جہتی منفی نتائج کا حامل ہوگا؛ اور اس صہیونی اڈے کی دوسری کارگزاری یہ ہے کہ آذربائیجان صہیونیوں ہتھیاروں کا گودام بن جائے گا جس کا آغاز 10 سال قبل سے ہو چکا ہے۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان ایک انتہائی خطرناک جغ-سیاسی کھیل میں الجھ گیا ہے، نیٹو، برطانیہ اور یہودی ریاست کے جال میں پھنس گیا ہے اور واحد حل یہ کہ یہ ملک 3 + 3 (آرمینیا، آذربائیجان، جارجیا + ایران، روس، ترکیہ) کے ماڈل کی طرف پلٹ آئے۔ یوں قفقاز کے ممالک اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں، ان ممالک میں استحکام آئے گا، اور دہشت گردوں اور صہیونیوں کو اس علاقے سے بے دخل کیا جاسکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں