یہودی متون کا متن اور اس کی سند / عہد عتیق پر ایک نظر
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عہد عتیق ایک مجموعے کا عیسائی عنوان ہے جسے عیسائی کتاب مقدس کا ایک حصہ سمجھتے ہیں جو انہیں یہودیوں سے ورثے میں ملا ہے۔ عیسائی اس کے ساتھ اپنا اصلی حصہ “عہد جدید” کے عنوان سے ملا لیتے ہیں، اور ان دو کے مجموعے کو “کتاب مقدس” کا عنوان دیتے ہیں۔ (1)
الف- عہد عتیق (یا عہد قدیم) کے دو نسخے
عہد عتیق کے مجموعے کی بنیادی زبانی عبرانی ہے اور اس کا کچھ حصہ آرامی (Aramaic) زبان میں ہے جو عبرانی کے (لسانی) خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن چوتھی صدی قبل از مسیح میں اسکندر مقدونی کی فتوحات کے بعد بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں پر یونانی زبان چھاگئی تو یہودیوں کی پہلی زبان بھی عبرانی نہیں رہ سکی بلکہ وہ بھی یونانی بولنے لگے۔ چنانچہ تیسری صدی قبل از مسیح میں اس وقت کے مصری بادشاہ (بٹلسی خاندان کے دوسرے فرعون) بطلیموس فلاڈیلفس (Ptolemy Philadelphus) (247-285 ق م) کے حکم پر عہد قدیم کے مجموعے کے یونانی ترجمے کا اہتمام کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ 72 یہودی علماء نے اس ترجمے میں کردار ادا کیا اور اس نسخے کو اسی بنا پر “سبعینیہ” یا ہفتادی (Septuagint) کہا گیا اور اس کو رومن میں Lxx لکھا جاتا ہے۔ (2) ارسٹیاس کا خط (The Letter of Aristeas) اس قوم کا تاریخی ثبوت ہے۔ (3) کہا جاتا ہے کہ یروشلم کے کاہن نے بطلیموس کی درخواست پر ہر قبیلے سے چھ علماء کو ترجمے کے لئے مصر روانہ کیا۔ اور بطلیموس دوئم فلاڈیلفس نے ماہ “تیوت” (طيڤيت = طیویت = Tevet) کی آٹھویں تاریخ کو توریت کے ترجمے کا حکم دیا۔
کتاب مقدس کے معاصر علماء اس داستان کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ترجمہ تدریجا انجام کو پہنچا ہے اور یکے بعد دیگرے اس کے مختلف حصوں کا اضافہ ہؤا ہے؛ بطلیموس کے زمان میں توریت کے اسفار خمسہ کا ترجمہ ہؤا اور اس کے بعد تقریبا 180 ق م تک بقیہ کتب کا ترجمہ مکمل ہؤا ہے۔ (4) نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ترجمیہ یہ ترجمہ یونانی بولنے والے یہودیوں کی ضروریات کی تکمیل کے لئے انجام کو پہنچا ہے، اور بطلیموس کی ہدایات اس میں زیادہ مؤثر نہیں تھیں۔ (5)
بہرحال ہمیں عہد عتیق کے دو نسخوں کا سامنا ہے؛ ایک نسخہ عبرانی زبان میں ہے جس کو یہودی “عبرانی کتاب مقدس” (6) کا نام دیتے ہیں اور دوسرا یونانی زبان کا نسخہ سبعینیہ یا Lxx کہلاتا ہے۔ ان نسخوں میں جزوی اور محتوائی فرق بھی پایا جاتا ہے (7) لیکن دو فرق بہت اہم اور قابل توجہ ہیں:
1۔ سبعینیہ میں سات مستقل کتب موجود ہیں جو عبرانی نسخے میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں نیز جو کتابیں دونوں نسخوں میں مشترکہ ہیں، ان میں بھی سعبینیہ میں اضافی ابواب و فصول دکھائی دیتی ہیں: (اضافی کتب: یعنی دوسرے درجے کی قانونی کتابیں، یا اپاکریفل (Apocryphal) [اور مستند حوالوں سے عاری] کتابیں)۔
2۔ ان دو نسخوں کی ترتیب و تقسیم بھی مختلف ہے۔ گویا عبرانی نسخہ لکھنے والے کی اہمیت اور وثاقت کی بنیاد پر تقسیم ہؤا ہے۔ اس مجموعے کے آغاز میں توریت کے پانچ سِفر (یا کتابیں) درج ہیں اور اس کے بعد انبیاء سے منسوب کتابیں ہیں جنہیں “نبیییم” (Neviim) کہا جاتا ہے۔ تیسرے حصے اور آخری حصے میں مکاتیب ہیں جنہوں “کتوبیم” (Ketuvim) کہا یا لکھا جاتا ہے۔
جبکہ سبعینیہ کو موضوعات کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے۔ (8) ابتداء میں عہد عتیق کا تاریخی حصہ واقع ہؤا ہے جو تورات کے پانچ سِفروں سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد حکمت، مناجات اور شاعری ہے اور آخر میں پیشن گوئیوں کی کتابیں ہیں۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ عبرانی نسخے کی بعض کتابیں ایک کتاب کی صورت میں آئے ہیں لیکن سبعینیہ کے نسخے میں یہ کتابیں دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہیں۔ چنانچہ عبرانی نسخے میں عہد عتیق کی کتابیں ذیل کی ترتیب سے آئی ہیں:
1۔ توریت پانچ اسفار پر مشتمل ہے: سِفرِ پیدائش (Genesis)، سِفرِ خروج (Exodus)، سِفرِ احبار یا لاویان (Leviticus)، سِفرِ گنتی یا اعداد (Numbers) اور سِفرِ تثنیہ یا استنیٰ (Deuteronom)۔
2۔ انبیاء یا نبییم دو حصوں پر مشتمل ہے: متقدم انبیاء اور متأخر انبیاء، اور دوسرا حصہ بڑے اور چھوٹے انبیاء نامی ابواب پر مشتمل ہے۔ (بڑے اور چھوٹ سے مراد ان کی کتابوں کا حجم ہے جو کم یا زیادہ ہے)۔
متقدم انبیاء کی کتابیں یشوؔع (Joshua)، قضاۃ (Judges)، سموئیل (Samuel) اور سلاطِین (Kings) پر مشتمل ہیں اور متأخر انبیاء کی کتابوں کی تعداد 15 ہے جن میں أیسعیاہ یا اشعیا (Isaiah) اور حزقی ایل (Ezekiel) بڑے انبیاء کہلاتے ہیں اور باقی بارہ کتابوں کا تعلق چھوٹے انبیاء سے ہے جیسے: ہوسیع (Hosea)، یو ایل (Joel)، عامُوس (Amos)، عبدیاہ (Obadiah)، یونس (Jonah)، میکاہ (Micah)، ناحوم (Nahum)، حَبقوق (Habakkuk)، صَفَنیاہ (Zephaniah)، حجّی (Haggai)، زکریاہ (Zechariah) اور ملاکی (Malachi).
3۔ مکتوبات یا تحاریر، 11 کتابوں پر مشتمل ہیں جیسے: کتاب زبور یا مزامیر داؤد (Psalms) امثال (یا امثال سلیمان Proverbs)، ایوب (Job)، غزل الغزلات (Song of Songs)، روت (Ruth)، نوحہ (مَراثیِ یرمیاہ = Lamentations)، آستر اِستِر ((Esther)، واعظ (یا جامعہ [سلیمان] بن داؤد = Ecclesiastes)، دانی ایل (Daniel)، عزرا (Ezra)، نحمیاہ (Nehemiah) اور تواریخ (Chronicles)۔
لیکن عہد عتیق کے نسخے سبعینیہ کے مطابق (ان کتابوں کے سوا، جو عبرانی نسخے میں موجود نہیں ہیں)، کتابوں کی ترتیب کچھ یوں ہے:
1۔ تاریخی کتب توریت کے پنجگانہ اسفار یشوؔع، قضاۃ، روت، سموئیل کی دو کتابیں، سلاطین کی دو کتابیں، تواریخ کی دو کتابیں، عزرا، نحمیا اور آستر پر مشتمل ہیں۔ سموئیل، سلاطین، تواریخ – جن میں سے ہر ایک عبرانی میں میں ایک کتاب تھی – اس نسخے میں ہر کتاب دو کتابوں پر مشتمل ہے۔ نیز عزرا اور نحمیا – عبرانی نسخے میں ایک کتاب تھی – اس نسخے میں دو الگ الگ کتابیں ہیں۔
2۔ دوسرا حصہ – یعنی “حکمت، مناجات اور اشعار” کا حصہ، پانچ کتابوں یعنی ایوب، زبور، امثال، واعظ اور غزل الغزلات – پر مشتمل ہے۔
3۔ پیشن گوئیں پر مشتمل کتب کی تعداد 17 ہے جو أیسعیاہ، یرمیاہ (Jeremiah)، نوحہ، حزقی ایل، دانی ایل، ہوسیع، یو ایل، عاموس، عبدیاہ، یونس، میکاہ، ناحوم، حبقوق، صَفَنیاہ، حجّی، زکریا اور ملاکی۔
چنانچہ سبیعینیہ کے نسخے میں کتب کی تعداد – اضافی کتب کو شمار کئے بغیر – 39 ہے اور اضافی کتاب کے ساتھ مل کر ان کی تعداد 46 تک پہنچتی ہے۔ تاہم عبرانی نسخے میں – جس میں سات اضافی کتب موجود نہیں ہیں اور بعض کتب دو کے بجائے ایک ہیں – کتب کی تعداد کم ہے۔ علاوہ ازیں [عبرانی نسخے میں] چھوٹے انبیاء کی 12 کتابوں کو – اپنے حجم کی کمی کی وجہ سے – ایک طومار میں درج کیا جاتا تھا چنانچہ یہود کی کتاب عہد عتیق مجموعی طور پر 24 کتابوں پر مشتمل تھی۔ (9)
ب- عہد عتیق کے قانونی ہونے کا عمل
کتاب مقدس کے نئے دانشوروں نے – اس عمل کے لئے جس کی رو سے بعض تحریریں کتاب مقدس کے مجموعے میں شامل کی گئی ہیں – “قانونی ہونے” (Canonization) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جو کہ لفظ ” Canon” بمعنی “قانون” سے ماخوذ ہے۔ (Loc. cit) جب اس اصطلاح کو کتاب مقدس کے سلسلے میں بروئے کار لایا جاتا ہے اس کا مقصود کتاب مقدس کی حدود کا متعین ہونا ہے؛ اس طرح سے کہ وہ وحیانی اور الہامی تحریریں کتاب مقدس میں داخل ہوتی ہیں جو کہ مستند ہیں اور حجت و دلیل ہو سکتی ہیں۔ اور جن تحریروں میں ان خصوصیات کا فقدان ہوتا ہے انہیں کتاب مقدس سے نکالا جاتا ہے۔ (10)
کہا جاتا ہے کہ یہودی سنت میں اس لفظ کو استعمال نہیں کیا جاتا تھا اور اس کے بجائے عبارت “ہاتھ کا ناپاک ہونا” استعمال کی جاتی تھی۔ یہودی دانشوروں نے کتاب تلمود (Talmud) میں – یہ جتانے کے لئے کہ یہ حجیت رکھتی ہے، اور مستند و مقدس ہے – کہا کرتے تھے: “یہ کتاب ہاتھ کو ناپاک کرتی ہے” اور مقصود یہ تھا کہ یہ کتاب حرمت رکھتی ہے اور اس کو ہاتھ نہیں لگانا چاہئ! (11)
یہودی – عیسائی روایت بھی اور کتاب مقدس کے نئے نقاد بھی مانتے ہیں کہ عہد عتیق کے مجموعے کو مختلف دانشوروں نے تدریجا، کئی صدیوں کے دوران، لکھا ہے۔ لیکن ان کے درمیان ان تمام تحریروں کی تحریر کی ان صدیوں کے آغاز اور اختتام، کاتبین، اور تاریخ کتابت کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اب نکتہ یہ ہے کہ ایک ایسے مجموعے کی تشکیل کے دو مرحلے ہیں، ایک کتابت و تدوین کا مرحلہ اور دوسرا [تحریروں کے] انتخاب کا مرحلہ۔
حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مرحلے میں موجودہ کتب میں سے بعض کو منتخب کرکے کتاب مقدس کا حصلہ بنایا جاتا ہے اور بعض کو کتاب سے نکال باہر کیا جاتا ہے لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ دوسرا مرحلہ، یعنی انتخاب کا مرحلہ، وہی “قانونی ہونے کا مرحلہ” ہے۔ یہ عمل عہد عتیق کے مجموعے کے حوالے سے تدریجی انداز سے کئی صدیوں کے دوران انجام کو پہنچا ہے؛ چوتھی صدی قبل مسیح سے شروع ہؤا ہے اور دو صدیوں تک جاری رہا ہے۔ (12)
ایک یہودی مصنف کہتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی تک یہ نظریہ رائج تھا کہ حضرت سلیمان کی غزل الغزلات اور کتاب واعظ (یا جامعۂ سلیمان بن داؤد = Ecclesiastes) ہاتھ کو ناپاک نہیں کرتیں۔ نیز کتاب آستر کا الہامی ہونا مشکوک تھا اور بعض یہودی علماء حزقی ایل کی کتاب کو اس لئے چھپانے کے لئے کوشاں تھے کہ اس میں مندرجہ احکام کو توریت کے احکام سے متصادم سمجھتے تھے۔ (13)
تلمود میں آیا ہے:
وہ شخص یعنی حنین بن حزقی ایل، کو برکت کی وجہ سے یاد رکھنا چاہئے کیونکہ اگر وہ نہ ہوتے تو کتاب حزقی ایل (جو کہ رسمی کتب کے مجموعے میں شامل ہے) حذف ہو جاتی، کیونکہ تصور یہ تھا کہ اس محتویات توریت کے مندرجات سے متصادم ہیں۔ انھوں نے کیا کیا؟ ان کے لئے گھی کے 300 پیمانے لائے گئے، اور وہ اپنے گھر کے بالاخانے میں بیٹھ گئے اور اس کتاب کی تفسیر لکھ دی۔ (تلمود بابلی، حگیگا 13 الف) (14)
چنانچہ حنینا کے زمانے تک گمان یہ تھا کہ کتاب حزقی ایل کے احکام ان احکام کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتے جو توریت میں مندرج ہیں اور اس شخص نے اپنی تفسیر کے ذریعے اس ناسازگاری اور تفاوت کا ازالہ کیا۔ مذکورہ بالا متن کے مختلف حصوں سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ عہد عتیق کے قانونی ہونے کا عمل، ایک سادہ اور آسان عمل نہیں تھا، بلکہ یہ عمل تنازعات اور جھگڑوں اور مخالفتوں کے سائے میں مکمل ہؤا ہے۔
کہا گیا کہ عہد عتیق کے دو مختلف نسخے ہیں، یعنی یہ کہ یہودی میلاد مسیح سے کئی صدیاں پہلے سے دو مختلف زبانیں بولتے تھے اور دو مختلف ثقافتوں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہودیوں کی ایک جماعت اپنی آبائی – عبرانی اور اسرائیلی – زبان و ثقافت سے الگ نہیں ہوئے تھے اور اس زبان و ثقافت سے اُنسیت رکھتے تھے لیکن دوسری جماعت یونانی ثقافت میں ضم ہوکر آبائی زبان و ثقافت کو تقریبا ترک کر چکے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عہد عتیق کے قانونی ہونے کا عمل، یہودیوں کی ان دو جماعتوں کے پیش نظر، دو الگ الگ راستوں سے گذر کر مکمل ہؤا ہے: ایک عبرانی زبان کا راستہ، جو عبرانی نسخے پر منتج ہؤا ہے اور دوسرا یونانی زبان کا راستہ، جس کا نتیجہ نسخۂ سبعینیہ تھا۔
جیسا کہ کہا گیا، عبرانی نسخہ تین حصوں “توریت، نبییم (انبیا) اور کتوبیم (کتب یا تحریرات) پر مشتمل ہے۔ اس نسخے کی تشکیل کے عمل کو کبھی “تین حصوں پر مشتمل قانون” (The tripartite canon) کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے (15) کہ کتاب یشوع بن سیراخ (Ecclesiasticus) – جو ایپوکریفا (16) کی ایک کتاب ہے – کے مصنف نے سنہ 180 قبل از مسیح میں تین حصوں پر مشتمل کتاب مقدس کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے: “صنعتکاروں کی شان و منزلت اس شخص کی شان و منزلت سے مختلف ہے جو اپنے آپ کو خدائے متعال کی شریعت میں غور کرنے کے لئے وقت کرتا ہے؛ کیونکہ وہ اسلام کی حکمت و دانش کی تلاش میں ہے اور اس کی زندگی پیشن گوئیوں پر خرچ ہوتی ہے”۔ (حکمت یشوع بن سیراخ، 39: 1).
(کتاب کا یونانی زبان میں ترجمہ کرنے والے) یشوع بن سیراخ کے پوتے کے دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب در اصل عبرانی زبان میں لکھی گئی تھی اور اس نے در حقیقت اپنے دادا کی کتاب کا عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ (البتہ اس وقت صرف یہی یونانی ترجمہ دستیاب ہے)۔ اس دیباچے کا تعلق سنہ 132 ق۔م سے ہے، اور اس میں تین حصوں پر مشتمل کتاب کی طرف واضح اشارے پائے جاتے ہیں۔ لکھتا ہے: “ہم نے کثرت سے بہت قابل قدر تعلیمات توریت، نبییم (انبیا کی کتب) اور اگلی کتابوں سے حاصل کی ہیں۔۔۔ میرے دادا یشوع نے عرصہ دراز تک توریت، کتب انبیا اور اسلاف کی کتب کی تلاوت کی۔۔۔ اصلی زبان اور ترجمے کی زبان میں فرق – نہ صرف اس کتاب میں بلکہ توریت، کتب انبیاء اور دوسری کتب میں بھی – دکھائی دیتا ہے”۔ (17)
یشوع کے پوتے کے کلام کے آخری حصے سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ دوسری صدی قبل مسیح کے دوسرے نصف میں عبرانی توریت کے تینوں حصوں کے – خواہ مکمل خواہ ناقص – یونانی تراجم اس زمانے میں موجود تھے۔ یہودی مفکر فلو یودیس (Philo Judaeus) یا اسکندریہ کا فلو (Philo of Alexandria) (تقریبا سنہ 15 ق۔م – 50ع) تین حصوں پر مشتمل کتاب مقدس سے آگاہ تھا، کیونکہ اس نے “شریعت”، کتب انبیاء، مزامیر (زبور) اور دوسری کتب” کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (cont. 25) اور رومی یہودی مؤرخ فلاویس یوسیفس (فلاویوس یوسیفوس = Flavius Josephus) (37ع – 100ع) موسیٰ کی پانچ کتابوں، کتب انبیاء اور بقیہ کتب کو جانتا تھا۔ (Apion, 1: 39-41) نیز عہد جدید کی کتاب “انجیل لوقا” کے مصنف نے اپنے انداز سے ان تین حصوں کی طرف اشارہ کیا ہے: “موسیٰ کی توریت، اور انبیاء کے صحیفوں نیز زبور میں میرے بارے میں لکھا گیا ہے۔ (لوقا، 24: 44). (18)
اس کے باوجود ایک یہودی لکھاری کہتا ہے کہ اس زمانے (یعنی میلاد مسیح سے قبل اور بعد کی دو صدیوں) میں تین حصے کسی کے لئے جانے پہچانے نہیں تھے، اسی بنا پر کسی نے ان کا نام لے کر تذکرہ نہیں کیا ہے۔ مکابیوں (Maccabees) کی چوتھی کتاب [جو کہ ایپوکریفل اور متروکہ کتب میں سے ہے] جس کی کتابت کی تاریخ پہلی صدی عیسوی کا نصف اول ہے۔ (19) صرف دو حصوں یعنی “شریعت اور انبیاء” کی طرف اشارہ کرتی ہے (18: 10)؛ اور اس میں “دانیال، زبور اور امثال” کا تذکرہ نہیں آیا ہے (18: 13-16)۔ گویا کہ اس زمانے میں صرف توریت اور کتب انبیاء کا تذکرہ کتب کا معمول تھا؛ جیسا کہ عہد جدید (انجیل) میں کئی بار صرف توریت اور صحفِ انبیاء کی طرف اشارہ ہؤا ہے اور تیسرے حصے کا ذکر نہیں ہؤا ہے (متیٰ، 15: 17؛ 7: 12؛ 11: 13؛ 22: 40؛ لوقا، 16: 16؛ یوحنا، 1: 45؛ رومیون، 3: 21). یہی مسئلہ حاخامی ذرائع اور صحراؤں میں عزلت گزینی اختیار کرنے والے یہودیوں سے ملنے والے طوماروں میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد عتیق کا حصہ “کتوبیم” پہلے دو حصوں کے بہت بعد قانونی مراحل سے گذرا ہے اور اس مجموعے کے تین حصے تین الگ الگ مرحلوں میں، اور وقت گذرنے کے ساتھ، قانونی بن سکے ہیں۔ (20)
ارسٹیاس کے خط (Letter of Aristeas) سے – جو کہ سبعینیہ یا یونانی نسخے کے ظہور کی کیفیت کا واحد ذریعہ (Source) ہے – سے معلوم ہوتا ہے کہ سبعینیہ کے ظہور سے پہلے، عبرانی متن کے ترجمے کا کام شروع ہو چکا تھا اور یہ ایک معمول کا کام تھا۔ ارسٹیاس کے خط میں آیا ہے کہ بطلیموس بادشاہ ڈیمیٹریوس فالرومی (Démétrios) کو ہدایت کی کہ وہ اسکندریہ کے کتب خاونے کو مکمل کرے۔ ڈیمیٹریوس نے تحقیق کے بعد بادشاہ کو لکھا کہ “آپ کے کتب خانے میں “شریعت یہود” اور چند دوسری کتب موجود نہیں ہیں اور یہ کتابیں عبرانی زبان میں ہیں اور ان کے یونانی تراجم بھی صحیح نہیں ہیں؛ اسی وجہ سے ان کتابوں کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا، اور ضروری ہے کہ شریف اور شریعت سے آگاہ افراد ان متون کا دقیق اور صحیح ترجمہ کریں۔ (رسالۂ ارستیاس (Letter of Aristeas)، فارسی ترجمہ: حسین توفقی، 2: 1-10). (21)
سبعینیہ کے (یونانی) ترجمے کے بعد دوسرے تراجم بھی ہوئے ہیں لیکن صحیح نہیں تھے لہٰذا ایک نئے ترجمے کی ضرورت پڑی ہے۔ بہرحال بادشاہ بطلیموس نے ڈیمیٹریوس کی تجویز کو پسند کیا اور یہ ترجمہ انجام کو پہنچا۔ ارسٹیاس کے خط میں اس ترجمے کی صحت اور غائرانہ ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ نیز اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یونانی زبان بولنے والے یہودیوں نے اس ترجمے کا بہت بہت خیر مقدم کیا ہے۔ (22) فلو یودیس (Philo Judaeus) یا اسکندریہ کے فلو (Philo of Alexandria) نے بھی کہا ہے کہ یونانی زبانی بولنے والے یہودیوں نے اس واقعے کو بہت اہم قرار دیا ہے۔ (23) وہ اس کتاب کا یونانی ترجمہ کرنے والے 72 افراد کے بارے میں لکھتا ہے:
“وہ عزلت کے ایک گوشے میں بیٹھے گئے اور مجذوب ہونے والے شخص کی طر، الہام کے ساتھ قلم فرسائی کرتے تھے اور ایک کاتب نے بھی دوسرے کے خلاف، کچھ نہیں لکھا، بلکہ سب نے لفظ بہ لفظ ایک ہی طرح تحریر کیا، گویا کہ ایک ان دیکھا عامل ان میں سے ہر ایک کو املاء کرکے لکھوا چکا ہو، اور ہم سب جانتے ہیں تمام زبانوں – بالخصوص یونانی زبان – کثیر الفاظ کا مجموعہ ہیں، اور ایک لفظ یا پورا جملہ بدل کر حالات پر تطبیق کرکے، ایک ہی بات کو مختلف صورتوں میں لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ہماری توریت کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہؤا اور اس کتاب کے یونانی مترجمین کے استعمال کردہ الفاظ کَلْدانی زبان (یعنی عبرانی) کے عین مطابق ہیں، اور مطلوبہ مفاہیم و معانی پہنچانے کے لئے بالکل مناسب ہیں”۔ (فلو آف الیگزانڈریا، زندگی موسی [De Vita Mosis = The Life of Moses]، 4502-65). (24)
دریں اثناء تلمود میں یہودیوں کی کتاب مقدس کے یونانی ترجمے کے دور کو بنی اسرائیل کا “سیاہ دور” قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں [جو انتہاپسندانہ نسل پرستی کی بنیاد پر لکھی گئی ہے اور آج کے بعض یہودی مصنفین اور ان کے عیسائی وکالت کار اس کو ایک جعلی کتاب قرار دیتے ہیں اور اس سے یہودیت کی جان چھڑانے کے درپے ہیں] لکھا گیا ہے کہ “یہ 70 افراد مختلف کمروں میں بیٹھ گئے اور ان سب کو الہام ہؤا کہ کتاب میں ایسی تبدیلیاں کر دیں کہ اصلی متن بادشاہ کو پسند نہ آئے”، چنانچہ لگتا ہے کہ یہودیوں کے ان دو گروہوں کے درمیان ایک نزاع چلتا آیا تھا؛ (25) یہاں تک کہ یہودیوں نے بظاہر پہلی صدی عیسوی کے آخری برسوں میں ایک یفنہ (یا یاونہ = Yavne) شہر میں منعقد ہؤا اور سب نے عبرانی نسخے کو تسلیم کیا، اور ان مکتوبات اور رسالوں کو غیر قانونی قرار دیا جو عبرانی نسخے میں موجود نہیں تھے۔ ظاہرا اسی وقت، یا کچھ عرصہ بعد حصۂ کتوبیم (کتب) کی تالیف اور قانونیت کا سلسلہ مکمل ہؤا ہے اور اس میں مندرج قانونی کتابوں کا اعلان ہو چکا ہے۔ اس زمانے سے آج تک یہ کتاب اسی حجم اور اسی ترتیب سے چلی آ رہی ہے، جس کی طرف پہلے اشارہ ہو چکا ہے۔ اس زمانے کے بعد یہودیوں نے سبعینیہ کے نسخے کو ترک کر دیا ہے۔ (26)
کہا جاتا ہے کہ یہودیوں کی کتاب مقدس کے تین عبرانی حصوں میں پہلا حصہ یعنی “توریت” تقریبا 400 ق۔م میں، دوسرا حصہ “یعنی نبییم، 200 سال بعد، سنہ 200 ق۔م میں اور آخری حصہ یعنی “کتوبیم” اس کے 300 سال قبل یعنی 100 عیسوی میں مکمل ہؤا ہے۔ (27)
یہودی اپنی کتاب مقدس کے تینوں حصوں کو الہامی تو سمجھتے ہیں مگر ان کے ہاں ان کے درجات و مراتب مختلف ہیں۔ ان کے خیال میں توریت کلام خدا ہے جو الہامیت کے اعلیٰ ترین درجے پر ہے؛ انبیاء کی کتابیں [نبییم] نبوت کا درجہ رکھتی ہیں جو کلام خدا تو ہیں لیکن انبیاء کے واسطے سے آئی ہیں اور الہامیت کے دوسرے درجے پر آتی ہیں۔ مکتوبات یا [کتوبیم] الہامیت کے سب سے نچلے درجے پر ہیں، اور روح القدس کے ذریعے الہام ہوئی ہیں! لیکن عملی طور پر ان تین حصوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور سب مستند اور حجت سمجھے جاتے ہیں۔ (28)
اور ہاں! سبعینیہ (یعنی یہودیوں کی کتاب مقدس کا یونانی ترجمہ) کو یہودیوں نے ترک کر دیا، تو اسے بھلایا نہیں گیا، کیونکہ ابتدائی عیسائیوں نے اسی نسخے سے رجوع کیا، یہاں تک کہ – کہا گیا ہے کہ – عہد عتیق سے عہد جدید میں نقل ہونے والی تمام تر نقلوں کا اصل منبع و مصدر (Source) نسخۂ سبعینیہ ہے۔ (29) ابتدائی عیسوی صدیوں میں، عیسائیوں نے، جو یونانی زبان سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے، یونانی روایت (Narration) سے رجوع کیا، اور نسخۂ سبعینیہ کو عہد عتیق کے طور پر قبول کیا؛ اور نسخۂ سبعینیہ میں مندرجہ تمام اضافی کتب کو بھی [یہودیوں اور عیسائیوں کی] کتاب مقدس کے حصے کے طور پر تسلیم کیا۔ اگرچہ ابتدائی عیسوی صدیوں کے آغاز میں بھی اضافی کتب کو کتاب مقدس کے حصے کے طور پر قبول کرنے کے مسئلے پر کئی لوگوں نے اختلاف کیا۔ ساردس کے بشپ میلیتوس (یا میلیٹو = Melito of Sardis متوفیٰ 190ع) اور سنت جیروم (Saint Jerome, 345-420) کتاب مقدس سے اضافی کتب کے ہٹانے اور عہد عتیق کے عبرانی نسخے کو تسلیم کرنے کے حامی تھے۔ (29)
جیروم نے ان کتابوں کی تمیز و تشخیص کے لئے بہت محنت کی اور صرف عبرانی نسخے میں مندرجہ کتب کو ہی تسلیم کرتا تھا۔ جیروم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عبرانی نسخے میں موجود کتب کے سوا باقی ساری مکتوبات مشکوک و مشتبہ اور اصطلاحا ایپوکریفل سمجھے جاتے ہیں۔ (31)
لیکن دوسری طرف سے کچھ لوگوں نے یونانی زبان کے نسخے “سبعینیہ” کی شدت سے حمایت کی اور مشتبہ یا اضافی کتب کو بھی قانونی قرار دیتے ہوئے عبرانی نسخے کے ہم پلہ قرار دیا۔ ان لوگوں میں مشہور ترین سنت آگوسٹین (Saint Augustine [Augustine of Hippo] 354-430 AD) ہے جس نے چوتھی صدی عیسوی کے آخری سالوں میں، افریقہ میں منعقدہ کلیسائی کونسلوں میں شرکت کی اور ان کتابوں کو قانونی حیثیت دینے کی تجاویز کی وکالت کی۔ ان کونسلوں نے بعض کتب کو قطعی طور پر قانونی قرار دیا۔ (32) آگوسٹین نے اپنی مشہور کتاب “شہر خدا” (The City of God) میں، ترجمۂ سبعینیہ کی اہمیت پر زور دیا، یہاں تک کہ یونانی زبان میں عہد عتیق کے نسخۂ سبعینیہ کے مترجمین کے کام کو “الہامی” قرار دیا، جو یونانی زبان میں دستیاب دوسرے تراجم سے ممتاز ہے۔ آگوسٹین لکھتا ہے:
“حالانکہ، دوسرے بھی کئی مترجمین موجود تھے جنہوں نے ان الہامات کا عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ کیا جن میں آقلا سیماخوس (Aquila, Symmachus) اور تھیوٹوٹین (Theodotion) شامل تھے۔ ایک نسخہ وہ بھی جس کا مترجم نامعلوم ہے اور اسی وجہ سے پانچواں نسخہ کہلاتا ہے، لیکن کلیسا نے اس نسخۂ سبعینیہ کو ایسے نسخے کے طور پر اخذ کیا کہ گویا یہ عہد عتیق کا واحد [دستیاب] نسخہ ہے، اور یونانی عیسائیوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور ان میں سے زیادہ تر اس نسخے کے سوا کسی اور نسخے کو جانتے ہی نہیں ہیں۔۔۔ حالانکہ یہودیوں کا خیال تھا کہ سبعینیہ کے مترجمین نے بہت سے مقامات پر غلطیاں کی ہیں لیکن عیسائی کلیساؤں کا فیصلہ یہ ہے کہ کسی کے مستند ہونے کو اتنے سارے علماء اور دانشوروں پر – جو کاہن اعظم سنت لعزر (33) کے منتخب کردہ تھے – کے مستند ہونے پر ترجیح نہیں دینا چاہئے۔ کیونکہ اگر ان میں قطعی طور پر [حتیٰ] ایک الٰہی روح نے ان میں عمل نہ کیا ہوتا تو وہ 70 دانشور یکجا نہ ہوتے جنہوں نے اپنے ترجمے کے الفاظ کا دوسرے مترجمین کے ساتھ موازنہ کیا اور وہ کچھ حاصل ہؤا جو سب کے لئے قابل قبول تھا، اور وہی کچھ باقی رہا، چنانچہ کسی واحد مترجم کو ان سب پر ترجیح دینا درست نہیں ہے؛ لیکن چونکہ یہ عظیم نشانی خدا کی طرف سے ان دانشوروں میں ظہور پذیر ہوئی ہے، لہٰذا ام مسلّم یہ ہے کہ اگر عہد عتیق کا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرنے والا کوئی مترجم سچا ہے، تو اس صورت میں اس کے کام کو ان 70 مترجمین کے کام کے موافق و مطابق ہونا چاہئے۔۔۔ کیونکہ جو روح انبیاء میں، ان امور کے بارے میں بات کرتے ہوئے، پائی جاتی تھی، اسی روح نے، انبیاء کے مکتوبات کا ترجمہ کرنے والے ان 70 لوگوں میں بھی کام کیا”۔ (آگوسٹین، شہر خدا (The City of God)، 18، 43) (34)
بہرحال کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں نے ابتدائی عیسوی صدیوں میں، یونانی زبان کا نسخۂ سبعینیہ تسلیم کر دیا اور اس نسخے کے اضافات کو بھی کتاب مقدس کا حصہ قرار دیا، لیکن اس زمانے میں بھی اور قرون وسطیٰ (Medieval period) میں بھی، عیسائی علماء صرف نسخۂ سبعینیہ میں مندرج اضافی کتب اور دونوں نسخوں میں مندرجہ مشترکہ کتب کے درمیان فرق کے قائل ہوتے تھے، اور اول الذکر کو دوسرے درجے کی اہمیت دیتے تھے۔ (35) گوکہ آگوسٹین نے یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کتابوں میں کسی قسم کا فرق نہیں ہے اور یہ سب یکسان طور پر الہامی ہیں:
“چنانچہ اگر تقاضا یہی ہے کہ ان مقدس کتابوں میں ہم وہی کچھ پا لیں جو اللہ کی روح نے لوگوں کے ذریعے بیان کیا ہے، ہرگاہ کوئی بات عبرانی نسخے میں ہو، لیکن ستر افراد کے ترجمے میں نہیں آیا ہو، تو معلوم ہوتا ہے کہ روح خدا کی مشیت نہیں تھی کہ وہ بات ستر مترجمین کے زبان بیان ہو جائے، بلکہ اللہ نے چاہا ہے کہ وہ صرف انبیاء کے زبانی بیان ہو! لیکن جو کچھ سبعینیہ میں پایا جاتا ہے، لیکن عبرانی زبان میں نہیں ہے، وہ بھی خدا کی روح کا تقاضا ہے، کہ اس نے اس کو سعبینیہ کے ذریعہ بیان نہیں کرنا چاہا ہے! اور یہ بتانا چاہا ہے کہ یہ دونوں گروہ نبی نہیں تھے۔”۔ (آگوسٹین، شہر خدا =The City of God)، 18، 43) (36)
عیسائیوں کے دو قدیم فرقے یعنی کیتھولک اور ارتھوڈاکس نے یونانی نسخے کو کتاب مقدس کے طور پر قبول کیا، لیکن اس کے باوجود، ان دو فرقوں کے درمیان بعض کتب کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ (37)
قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ سلطنت روم کے مشرقی اور مغربی حصوں کی تدریجی جدائی، نیز کلیسائے روم کی مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کے ساتھ ہی ان دو حصوں کی مذہبی زبان بھی دو حصوں میں تقسیم ہوئی؛ مشرقی حصے کی زبان یونانی رہی اور مغربی حصے کی زبان لاطینی بن گئی، جس کی وجہ سے یہودی [و عیسائی] کتاب مقدس کا ترجمہ لاطینی میں بھی ہؤا۔ کیتھولک عیسائیوں نے سنت جیروم (Saint Jerome) کے لاطینی ترجمے کو قبول کیا جو عہد عتیق اور عہد جدید پر مشتمل اور ولگاتا (Vulgate or Catholic Vulgate) کے نام سے مشہور ہے۔ سنت جیروم نے سنہ 392ع سے سنہ 400ع تک، عہد عتیق کا عبرانی زبان سے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا اور نسخۂ سبعینیہ کی اضافی کتب کو ضمائم کے طور پر کتاب کا حصہ بنایا۔ (38)
لیکن پروٹسٹنٹ مسیحیت (Protestantism) – جو سولہویں صدی ہجری میں ظہور پذیر ہونے والا عیسائیت کا متاخرہ فرقہ ہے، – نے عبرانی نسخے کو عہد عتیق کے طور پر تسلیم کیا لیکن کتابوں کی ترتیب میں، نسخۂ سبعینیہ کی ترتیب کو ملحوظ رکھا۔ (39) اگرچہ ان کے درمیان بھی کچھ اختلاف ضرور ہے۔ مثال کے طور پر لوتھریوں (Lutherans) نے نسخۂ سبعینیہ کی اضافی کتب کو کتاب کے آخر میں درج کیا؛ کیونکہ اگرچہ وہ ان کتابوں کو قانونی قرار نہیں دیتے تھے، لیکن مطالعے اور تعلیم کے لئے مفید سمجھتے تھے، تاہم کالوینی (Calvinis) پروٹسٹنٹ فرقے نے انہیں مکمل طور پر یہودی کتاب مقدس سے حذف کر دیا۔ (40)
کیتھولک چرچ سنہ 1546ع میں، ٹرینٹ کونسل (Council of Trent) میں تشکیل پایا، اور اس نے اضافی کتابوں کو کتاب مقدس میں کھپایا اور ان کے درمیان کسی بھی تضاد و تصادم کو مسترد کیا۔ (41)
*****
نکتے کی بات یہ ہے کہ توریت تقریبا ڈیڑھ ہزار سال قبل از مسیح نازل ہوئی ہے اور قانونی سفر طے کرتے کرتے اس کو تقریبا ڈیڑھ ہزار سال کا عرصہ لگا ہے؛ چنانچہ اس طویل عرصے میں یہ کتاب صاحبان اقتدار کے منشیوں، مستوفیوں اور سرکاری کاتبین نیز مذہبی نسخہ برداروں کے رحم و کرم پر تھی؛ اسی بنا پر یہ کہنا درست لگتا ہے کہ یہ کتاب کسی صورت میں بھی، اپنی اصل شکل میں، قائم نہیں رہ سکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ:
1. The Oxford Bible Commentary, p. 4.
2. Ibid., pp. 7-8; The New International Dictionary of the Bible, p. 916.
3. The Jewish Religion: A Companion, P. 453.
4. Loc. cit.; The New International Dictionary of the Bible, P. 916.
5. Loc. cit.
6. Hebrew Bible (= Hebrew Scripturs)
7. Loc. cit.
8. ہنری ہیلے ہیمپٹن (Henry Hampton Halley)، راہنمائے کتاب مقدس (Bible Handbook)، (فارسی ترجمہ: جیسیکا باباخانیان وغیرہ) ص171۔ نیز
The New International Dictionary of the Bible, P. 148; The Oxford Bible Commentary, p. 11.
9. The Oxford Companion to the Bible, p. 19 The Jewish Religion: A Companion, p. 50.
10. Encyclopedia Judaica, p. 817
11. پیٹرز (فارسی ترجمہ: حسین توفیقی)، یہودیت، مسیحیت و اسلام (Francis Edward Peters, Judaism, Christianity and Islam: the Monotheists,)، ج2، ص62۔ نیز
The Jewish Religion: A Companion, p. 50.
12. الکتاب المقدس، ص48-50.
13. The Jewish Religion: A Companion, pp. 50-51.
14. یهودیت، مسیحیت و اسلام، ج2، ص61.
15. Encyclopedia Judaica, Vol. 4, p. 821.
16۔ ایپوکریفا Apocrypha یا مشتبہ کتب یہودی اور عیسائی مواد پر مشتمل قدیم کتابیں ہیں جنہیں یہودیت، کیتھولک، آرتھوڈوکس اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے کچھ گروہ نیم شرعی کا عنوان دیتے ہیں۔
17. اپوکریفای عهد عتیق، (عہد عتیق کے یپوکریفا) ص167-168.
18. Ibid., Vol. 4, p. 221.
19. Harper’s Bible Dictionary, p. 219.
20. Encyclopedia Judaica, Vol. 4, p. 821.
21. یهودیت، مسیحیت و اسلام، ج2، ص53.
22. وہی ماخذ، ج2، ص54-55.
23. The Jewish Religion: A Companion, p. 453.
24. یهودیت، مسیحیت و اسلام، ج2، ص56.
25. Loc. cti.
26. حبيب سعيد، المدخل الی الکتاب المقدس، ص180-181؛ الکتاب المقدس، ص49-50؛ نیز
Encyclopedia Judaic, vol. 4, pp. 822-824.
27. حبيب سعيد، المدخل الی الکتاب المقدس، ص179-181؛ الکتاب المقدس، ص48-50؛ نیز
Encyclopedia. pp. 821-824.
28. The Jewish Religion; A Companion, p. 50.
29. بولس الفغالي، المدخل الی الکتاب المقدس، ج1، ص66؛
The Oxford Companion to the Bible, p. 66.
30. The Jewish Religion: A Companion, p. 50.
31. حبيب سعيد، المدخل الی الکتاب المقدس، ص182.
32. وہی ماخذ.
33۔ لعزر = بیت عنیاہ کا لعزر (فارسی میں الیعازر و العزار و عازر = انگریزی میں = Lazarus of Bethany ۔۔۔ لاطینی میں = Lazar عبرانی میں = Eleazar)
34. یهودیت، مسیحیت و اسلام، ج2، ص57-58.
35. حبيب سعيد، المدخل الی الکتاب المقدس، ص182.
36. یهودیت، مسیحیت و اسلام، ج2، ص58-59.
37. The Oxford Companion to the Bible, p. 5 and 79.
38. بولس الفغالي، المدخل الی الکتاب المقدس، ج1، ص86-89؛ سعید، المدخل الی الکتاب المقدس، ص52؛ نیز
Encyclopedia., p. 753.
39. Encyclopedia., p. 19.
40. حبيب سعيد، المدخل الی الکتاب المقدس، ص182-183؛ نیز
Encyclopedia., p. 5.
41. حبیب سعید، وہی ماخذ، ص183.
۔۔۔۔
ماخوذ از، عبدالرحیم سلیمانی اردستانی، “بررسی متنی و سندی متون مقدس یہودی – مسیحی”، (یہودی مسیحی مقدس کتابوں کا متنی اور دستاویزی مطالعہ) تہران: سازمان مطالعہ و تدوین کتب علوم انسانی دانشگاہ ہا (سمت) (جامعات کی انسانیات کی کتب کے مطالعہ اور تدوین کا ادارہ)، پژوہشکدہ تحقیق و توسعہ علوم انسانی (انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق و ترقی انسانیات)، طبع اول: بہار 1396 ہجری شمسی۔
۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں