فلم “کل کی جنگ” آخرالزمان کو ڈرامائی شکل دینے کی کوشش / شیعہ مفاہیم کا استعمال (۲)

ایسا لگتا ہے کہ اس پس منظر کے حامل شخص کو ہیرو کے طور پر منتخب کرنے کا سبب امریکہ جیسے ملک سے غیر متعلقہ نہیں ہے، جو جنگ پسندی اور عسکری معیشت کے لحاظ سے دنیا بھر میں سر فہرست ہے؛

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

کل کی جنگ (The Tomorrow War) اور کل کی دھار (Edge of Tomorrow) دونوں در حقیقت ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہیں اور اول الذکر فلم میں غیرماہرانہ انداز ٹام کروز سے شباہت رکھنے والے شخص [کرس پراٹ (Chris Pratt)] کو ہیرو کا کردار دیا گیا ہے، تاکہ فلم بینوں کو جو تقریبا ٹام کروز کا شبیہ ہے، تاکہ Edge of Tomorrow کے ماحول میں قرار دیا جا سکے۔ یہ دونوں فلمیں آج سے کل (آپ پڑھئے ماضی سے حال) کی طرف سفر سے شروع ہوتی ہیں، اور بالکل رجعت اور ظہور کے تصور اور عقیدے کی تصویر کشی کرتی ہیں جبکہ یہ اعتقاد امام زمانہ حضرت مہدی (علیہ السلام) کے سپاہیوں سے تعلق رکھتا ہے۔
ماضی کی طرف واپسی یا مستقبل کے سفر (Time Travel) کو دی ٹرمینیٹر (The Terminator) سے لے کر لوپر (Looper) تک میں سمویا گیا ہے۔ ٹائم ٹریول پر مشتمل فلموں کے ہیرو وقت پر حاوی ہوتے ہیں اور ایک نقطے سے دوسرے نقطے کی طرف سفر میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ وقت کو ایک طرح سے اپنے قابو میں رکھتے ہیں اور بہت سے مختصر وقت میں دنیا کے اِس گوشے میں بھی ہوتے ہیں اور اُس گوشے میں بھی؛ یہ خاص قسم کی خصوصیت بھی مقدس انسانوں کی خصوصیات میں سے ہے، اور یہ اعتقاد بھی بہرحال دینی اور مذہبی تعلیمات سے تعلق رکھتا ہے۔ جو منظر – ماضی کی طرف واپسی یا مستقبل کے سفر یا ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر کے سلسلے میں – دی ٹومارو وار اور ایج آف ٹومارو اور آخرالزمان سے متعلق دوسری فلموں میں فلمایا گیا ہے، وہ کافی دلچسپ ہے؛ گویا آخرالزمان سے متعلق ہالیووڈ کی فلموں میں اسی موضوع سے متعلق شیعہ احادیث و روایات ٹھاٹھیں مار رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہودیت اور صہیونی عیسائیت کو شیعہ تفکرات کو بروئے کار لانے کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟
جواب یہ ہے کہ یہودیت اور صہیونی عیسائیت کی تشہیری مشینری بنام “ہالیووڈ” اپنے نظریات و عقائد (یا Ideology) کو ڈرامائی بنانے اور اپنے نظریاتی حریفوں کے اعتقادی پیکر کو دھچکا پہنچانے کے لئے شیعہ تفکر اور مفاہیم و عقائد سے فائدہ اٹھانے اور انہیں مفہوم سازی اور تصور آفرینی کے لحاظ سے نہتا کرنے کے درپے ہے۔ مغرب اس طریقے سے اپنی زیرکی سے – آخرالزمان کو ڈرامائی شکل دینے – کا فائدہ اٹھاتا ہے، اور آخرالزمان کے بعد کے دلچسپ دور کو معرض وجود میں لاتا ہے تاکہ دنیا کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرا سکے۔
دی ٹومارو وار کی ایک اہم کارکردگی اور بھی ہے۔ اس فلم کا ہیرو ذہنی دباؤ، افسردگی اور عدم خوداعتمادی کا شکار ہے اور آج کی دنیا اور قابل ادراک حقائق کے میدان میں اپنی خواہشوں تک پہنچنے میں ناکام ہؤا ہے، لیکن کہانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ اس کہانی کا اصل ہیرو بن جاتا ہے۔ ہیرو اور سورما بنانے کے حوالے سے ہالیووڈ کی فلموں کی منطق و انداز بہت غائرانہ اور دلکش ہے۔ وہ پہلے ہی سے اپنے دیو ہیکل کمانڈروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے بجائے معاشرے کے معمولی افراد کو آگے لاتا ہے اور انہیں ہیرو بناتا تھا تاکہ عام لوگوں کے اندر “ہیرو بننے کے تصور” کو رائج کرکے معمول بنا دے۔
گوکہ دی ٹومارو وار میں اس پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے۔ ہیرو ایک عام سا آدمی اور عراق میں لڑا ہؤا ایک پرانا سپاہی (Veteran) ہے جو اب عسکری ماحول سے دور رہنے کے بعد – جبکہ ہائی اسکول میں کیمیا (Chemistry) کا استاد ہے اور ایک نجی کمپنی میں بھرتی ہونے کے سپنے دیکھ رہا ہے، – اچانک دنیا کی نجات کی مہم میں شامل ہوجاتا ہے اور ایک اس کی فوجی کارکردگی ایک بار پھر کام آتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس پس منظر کے حامل شخص – جس کی عادات و خصوصیات مسلسل بدلتی رہیں ہیں – کو ہیرو کے طور پر منتخب کرنے کا سبب امریکہ جیسے ملک سے غیر متعلقہ نہیں ہے، جو جنگ پسندی اور عسکری معیشت کے لحاظ سے دنیا بھر میں سر فہرست ہے؛ بالخصوص یہ کہ گذشتہ سال افغانستان سے امریکی فوجوں کا خفت آمیز فرار کا وسیع سطح پر چرچا ہؤا؛ جس کے بعد، امریکہ کے مقامی اور ملکی ذرائع کی طرف سے خطے اور دنیا میں واشنگٹن کی جنگ پسندی اور قتل و غارت گری کے خاتمے پر اصرار اور کھلی تنقید کی لہریں عروج تک پہنچ چکی ہیں؛ ان حالات میں ایسی فلم بنانا جو امریکی جنگ پسندوں اور فوجیوں کو نمایاں کرتی ہے، انکل سام کے ملک کی پرانی پالیسی – یعنی جنگ پسندی اور عسکریت پسندی – کو زندہ رکھنے کی ایک تشہیری-سیاسی کوشش ہی ہو سکتی ہے؛ جس کی آج کے زمانے میں یہودیوں کو ضرورت ہے جو انکل سام کو گرتا ہؤا دیکھ رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ امریکہ کی بقاء میں ہی ان کی نسلی-مذہبی اور غاصب ریاست کی بقاء ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حمید صنیعی