بیک وقت نمرودیت، فرعونیت اور یزیدیت کا اتحاد بتاتا ہے کہ وقت ابراہیم، موسیٰ اور حسین کا منتظر ہے: عالم نقوی

اسرائیل کا مستقبل وہی ہے جواللہ سبحانہ تعالیٰ کی نازل کردہ ذِلَّت ،مَسکنَت اور لعنت میں مبتلا، اُس کی آیتوں کا انکار کرنے ، اپنے نبیوں کو قتل کرنے اور حق و باطل کی تلبیس کرنے والی قوم کا مستقبل ہونا چاہئیے۔

فاران؛ ہندوستان کے مانے جانے صحافی عالم نقوی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں اردو میدان صحافت میں چند ایک ہی گنے چنے نام ہیں جو اس میدان میں مستقل شخصیت اور مستقل فکر کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں ۔
انہوں نے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے ۱۹۷۴میں نفسیات (Psychology) میں ایم اے کر نے کے بعد صحافتی زندگی کا آغاز ۷۶۔۱۹۷۵میں ہفت روزہ ’روزگار سماچار ‘نئی دہلی سے کیاجہاں دعوت دہلی کے سابق ایڈیٹر محفوظ الرحمن ،روز نامہ الجمعیۃ کے ایڈیٹربہار برنی اور ہندی کے افسانہ نگار شاہنواز جیسے کہنہ مشق صحافیوں اور اہل علم کے ساتھ حشرو نشر رہا اور انکے ساتھ کام کیا ۔ ۔۱۹۷۶میں جمیل مہدی مرحوم کے روزنامہ ’عزائم ‘ لکھنو کے شعبہ ادارت میں شامل ہوئے جہاں حفیظ نعمانی ،عرفان صدیقی ،شوکت عمر اور مشتاق پردیسی جیسے معروف اہل قلم صحافیوں کے ساتھ صحافتی ذمہ داریوں کو نبھایا۔۱۹۸۰ سے ۱۹۸۷ تک قومی آواز دہلی میں عشرت علی صدیقی ،عثمان غنی ،موہن چراغی اور من موہن تلخ جیسے اپنے وقت کے بڑے صحافیوں اور دانشوروں کے تحت چیف سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا ۔ ۔۱۹۸۸ سے ۱۹۹۸ تک روزنامہ انقلاب ممبئی میں ہفت روزہ بلٹز کے سابق ایڈیٹر ہارون رشید علیگ اور صاحب اسلوب ادیب و نقاد اور شاعر فضیل جعفری کی سر براہی میں نیوز ایڈیٹر اور سینئیر اسٹنٹ ایڈیٹر رہے ۔ ۲۰۰۲ سے ۲۰۱۰ تک کارگزار (اکزیکٹو)ایڈیٹر کی حیثیت سے اردو ٹائمز ممبئی میں خدمات انجام دیں ۔۲۰۱۱میں سبکدوش ہوکر ۲۰۱۴ تک تین سال اودھ نامہ لکھنو میں گروپ ایڈیٹر رہے ۔اب چار سال سے علی گڑھ میں مستقل قیام کے ساتھ ممبئی اردو نیوز اور اودھ نامہ لکھنو کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات و جرائد کے لیے کالم نگاری جاری ہے ۔
نقوی صاحب کے اخبار و جرائد میں شائع ہزار کے قریب مضامین اور اداریوں (Editorials) کے درج ذیل چھے مجموعے شایع ہو چکے ہیں اور کم و بیش پانچ ہزار کالم ،اداریے اور مضامین کم از کم دو درجن کتابوں میں محفوظ کیے جانے کے منتظر ہیں ۔
(۱)لہو چراغ ۔۲۰۰۲موضوع گجرات نسل کشی (۲)امید ۲۰۱۰مختلف ملکی وعالمی سیاسی و سماجی مسائل پر مبنی مضامین کا مجموعہ (۳) بیسویں صدی کا مرثیہ ۔ماحولیاتی مسائل پر مشتمل مضامین (۴)اذان ۔ فلسطین اور مغربی ایشیا کے مسائل نیز صہیونی و قارونی مغرب کی اسلام دشمن اور مسلم دشمن پالیسیوں کے آثار و شواہد پر مشتمل کالم (۵) مستقبل۔ایران اور انقلاب اسلامی کے موضوع پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ (۶)زمین کا نوحہ ۔گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج کے تعلق سے لکھے گئے مضامین انکے اہم آثار میں شامل ہیں ۔پیش ہے جاگتے رہو عنوان کے تحت ان سے ایک مختصر و مفید گفتگو ۔
سوال: اسرائیل کی روز بروز بڑھتی طاقت اور مسلمانوں کی بے حالی پر بہت مختصر الفاظ میں آپ کس طرح روشنی ڈالیں گے ۔
نقوی صاحب: بعض افراد کا یہ خیال ہمارے نزدیک درست نہیں کہ’ اسرائل دن بدن جرئت مند ہوتا جارہا ہے‘۔ اِس کے بر خلاف ہم سمجھتے ہیں کہ جو چیز بظاہر ’جرئت مندی میں اضافہ ‘دکھائی دیتی ہے وہ’’ بجھنے سے قبل چراغ کی لَو بھڑکنے‘‘ سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔
آج دنیا میں بیک وقت فرعونیت، نمرودیت ، قارونیت ، یزیدیت اور دجالیت کا اضافہ بتاتا ہے کہ وقت اپنے موسیٰ ؑو عیسیٰؑ اور ابراہیمؑ و حسین ؑ کا منتظر ہے !فھل من مدکر؟
سوال : آپ کی نظر میں آنے والے کل میں اسرائیل کہاں کھڑا ہے ؟
نقوی صاحب: اسرائیل کا مستقبل وہی ہے جواللہ سبحانہ تعالیٰ کی نازل کردہ ذِلَّت ،مَسکنَت اور لعنت میں مبتلا، اُس کی آیتوں کا انکار کرنے ، اپنے نبیوں کو قتل کرنے اور حق و باطل کی تلبیس کرنے والی قوم کا مستقبل ہونا چاہئیے۔ رہی ظاہری غلبے والے موجودہ حالت تو اُس کے دو بنیادی اسباب ہیں ۔ایک تو ’’حبل من اللہ‘‘ سے محرومی کے بعد اُنیسویں صدی کے اختتام پر انہیں برطانیہ اور امریکہ جیسی طاقتوں اور خوارج کے عقائد و کردار کے حامل مسلمانوں پر مشتمل ’’حبل من الناس ‘‘کا حاصل ہو جانا ہے اور دوسرے یہ کہ دنیا ’عالم ِ اسباب ‘ ہے جہاں ’انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ‘لیس الانسان الا ما سعیٰ !
سوال : دنیا بھر میں مسلمان جس ظلم و فساد کا شکار ہیں آپکی نظر میں انکے اسباب کیا ہیں ؟
نقوی صاحب: آج پوری دنیا میں مسلمان جس ظلم و فساد کے شکار ہیں وہ اُن ہی کی کرنی کا پھل ہے ۔ قرآن کتاب ہدایت اور مؤمنین کے لئیے شفا و رحمت ہے انہوں نے اُسے ’مہجور ‘بنا رکھا ہے !ظاہر ہے کہ غلبے کا وعدہ مؤمنین سے ہے قرآن کو مہجور بنا دینے والے نام نہاد مسلمانوں سے نہیں ۔
’’ثقلین ‘‘ کے دوسرے جز و اہل بیت النبوۃؑ کو تو مسلمانوں کی اکثریت پہلے ہی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دنیا سے پردہ کرتے ہی ’مہجور‘ بنا چکی تھی۔ پھر بھی، مسلمان جب تک اہل ِایمان کے دائمی دشمنوں (المائدہ ۔۸۴) یہود و مشرکین کوکھلم کھلا اپنا ولی اور سرپرست بنائے رکھنے سے باز رہےاور حسب ِ استطاعت، حصول ِقوّت میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دی(الانفال ۔۶۰)، تلوار و تسبیح دونوں کو قرآنی معیار پر حرز ِجاں بنائے رکھا اور دین و دنیا کے متحارب خانوں میں تقسیم کیے بغیر جب تک علم و ہنر کے فروغ اور توسیع میں منہمک رہے تو دشمنوں کے دلوں میں اُن کی ہیبت بھی قائم رہی، اُن کی ہوا بھی نہیں اُکھڑنے پائی، اُن کاِ اِقبال بھی بلند رہا اور اُنہیں غلبہ و اقتدار اور تمکُّن فی الاَرض بھی حاصل رہا ۔
لیکن، مسلمانوں کی سیاست ، چونکہ دین سے جدا ہو کر چنگیزی میں تبدیل ہونا شروع ہو چکی تھی اس لیے طاؤس و رباب کے شمشیر و سناں پر غالب آتے ہی، اُن کی تلوار ، مستقل طور پر بے عملی اور جہالت کی نیام میں چلی گئی۔ اور جب نیام سے باہر آئی بھی تو مفسدوں اور ظالموں کے بجائے اپنوں ہی کے گلے کاٹنے کے لیے ۔نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے !
سوال : آپکی نظر میں مسلمانوں کی ابتر صورت حال نے اسرائیل کو فائدہ پہنچایا ؟
نقوی صاحب: جی بالکل سقوط ہسپانیہ اور اس کے بعد کے پچھلے سَوََا پانچ سَو برسوں میں یہ سب کچھ اپنی انتہا کو نہ پہنچا ہوتا تو نہ ڈیڑھ سو برس قبل صہیونیت کا پَودَا ظلم و دہشت گری کے کٹیلے پھل دینے کے لائق بنتا نہ سَتّر برس پہلے قلبِ مُسلِم میں اِسرائیل کا خنجر پیوست ہو پاتا !
سوال : ہندوستان کی اسرائیل نواز پالیسی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
وطن عزیز بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اَب عَلانیہ اَہل ِایمان کے دائمی دشمنوں میں سے دوسرے گروہ کی حکومت ہے جن کا ایجنڈا وہی ہے جو اُن کے فطری دوستوں یعنی پیدائشی بلندی و پستی والے نسل پرست صہیونیوں کا ایجنڈا ہے! اِن دونوں گروہ دشمناں سے خیر اور بھلائی کی اُمید رکھنے والے اگر منافق نہیں تو خالی از حکمت ضرور ہیں !
رہی یہ بات کہ ۔۔’اُمورِ مَملکتِ خِویش خُسرَواں دانَند ‘۔۔تو ہم سارا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں کہ بہر حال۔۔مکروا و مکر اللہ واللہ خیر الماکرین!
نقوی صاحب وقت دینے کا بہت شکریہ انشاء اللہ آگے بھی آپ سے اس موضوع پر گفتگو ہوتی رہے گی بہت شکریہ