اسلامی ممالک امت کے دفاع کے لئے مشترکہ فوج تشکیل دیں۔۔۔ ایڈمرل تنگسیری
فاران: سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے العالم نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے امت مسلمہ کے خلاف دشمن کے جرائم اور جارحیتوں سے نمٹنے کے لئے مشترکہ فوج قائم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے العالم نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ نے ہم چاروں اطراف سے پابندیاں لگا دیں اور اپنے مشیروں کو ایران سے نکال دیا، بہت سے افسر اور جوان فوج چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور ثابت قدم انقلابی نوجوانوں کے پاس بالکل وسائل نہيں تھے، ہمارے ہتھیار اور نقل و حرکت کے تمام وسائل امریکی ساختہ تھے اور ان کی نگہداشت کے لئے امریکی مشیروں کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن وہ چلے گئے اور ہمارے ہاتھ خالی اور ہم نہتے رہ گئے، جس کے بعد امریکیوں نے ہم پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی۔
ملک کے اندر بھی جھگڑے تھے۔ ہم نے خوزستان، کردستان اور دوسرے علاقوں میں بہت سے تنازعات پر قابو پا لیا اور اللہ پر توکل کرکے جمے رہے اور آٹھ سالہ جنگ کو بھی کامیابی سے پیچھے چھوڑ گئے اور ان ہی حالات نے ہمیں بعد کے مقابلوں کے لئے تیار کر لیا۔
ہم نے انقلاب اسلامی سے پہلے مکمل طور پر امریکہ سے وابستہ تھے
اسلامی انقلاب سے پہلے ہماری بحریہ کے کے میزائلوں کی زیادہ سے زیادہ رینج صرف 40 کلومیٹر تک تھی اور ملک کے اندر کوئی اسلحہ اور میزائل تیار نہیں ہوتا تھا؛ حتی کہ ہماری وزارت دفاع میں گولہ بارود بھی امریکی مشیروں کی نگرانی میں تیار ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے زیر انتظام کارخانہ قائم کئے تھے۔ بحریہ اور دوسری فورسز کی ماہرانہ تربیت کے حوالے سے بھی ہم امریکہ سے وابستہ تھے، اور ہمارے پاس کچھ بھی اپنا نہیں تھا۔ ہم نے جنگ کے زمانے میں اسلحے کی تیاری سیکھ لی اور 107ایم ایم توپوں کو جنگ کے زمانے میں تیار کیا۔ جس کے بعد ہم نے کشتیاں اور جہآز بنانے کا آغاز کیا، حالانکہ اس سے پہلے سب کچھ امریکی ساختہ تھا۔ یہاں تک کہ مچھیروں کی کشتیاں بھی امریکی سے آتی تھیں۔ اور جنگ کے بعد سے ہم آہستہ آہستہ تمام عسکری شعبوں میں خودکفیل ہوگئے
انقلاب اسلامی سے پہلے ایران علاقے کا پولیس مین سمجھا جاتا تھا، اس کے پاس سب سے بڑی فوج تھی لیکن جب بھی ہم پر حملہ ہوتا تھا ملک کا ایک حصہ ہاتھ سے نکل جاتا تھا۔
ہماری بحریہ مکمل طور پر امریکیوں کے ہاتھ میں تھا اور جب بھی چاہتے ہماری جنگی مشینری میں خلل ڈال دیتے تھے، لیکن آج سارے اختیارات ہمارے پاس ہیں اور تمام وسائل کو اسلامی جمہوریہ کے اندر تیار کرتے ہیں۔
آٹھ سالہ جنگ، اور کیل کانٹے سے لیس دشمن کے سامنے استقامت
ہم آٹھ سال جنگ میں خالی ہاتھ کیل کانٹے سے لیس دشمن کے مقابلے میں جم کر لڑے، عوام نے استقامت دکھائی، ہم اس دن کو نہیں بھول سکتے کہ ایک ہی دن میں اندیمشک شہر میں 350 شہیدوں سمیت 1000 سے زیادہ نہتے شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ لیکن آج ہمارے پاس وہ سب کچھ موجود ہے، جس کی ہمیں ضرورت ہے۔
ہم نے جنگ کے بعد، ظالمانہ پابندیوں کے باوجود، اپنے جنگ جہازوں اور چھوٹی کشتیوں کی رفتار بڑھا دی۔ پہلے ان کی زیادہ سے زیادہ رفتار 31 ناٹ تک تھی اور ہم نے اسے 55 ناٹ، 75 ناٹ اور 110 ناٹ تک بڑھا دیا۔ ہم نے چھ سے آٹھ میٹر کی چھوٹی کشتیوں پر میزائل لانچر نصب کئے جو دنیا میں بے مثال ہے، یہ میزائل 25 ناٹ کی رفتار سے چلنے والی چھ میٹر لمبی عاشورا نامی چھوٹی کشتیوں پر نصب ہیں جو 30 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہم نے پابندیوں کے اس دور میں میزائل اور بحری جہاز بنائے ہیں، آج ہم اپنے جہازوں کو فائبرگلاس سے نہیں بلکہ کاربن سے تیار کرتے ہیں، جن کی رفتار زیادہ ہے اور بہت پائیدار ہیں۔ ہم نے اپنے جہازوں کو مضبوط اور طاقتور بنایا اور ان کی تعداد میں زبردست اضافہ کیا۔
ہم اور محاذ مقاومت کے ممالک اگر مستقل اور خودمختاری چاہتے ہیں تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا
جو کچھ ہم نے کیا اللہ پر توکل اور خود اعتمادی کے ذریعے کیا، آج محاذ مزاحمت کے ممالک بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ ہم بہادر غزہ کی 100 سے زیادہ دنوں سے جاری جنگ کو دیکھ رہے ہیں، جہاں ہزاروں بچوں سمیت 30000 کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں لیکن دنیا نے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا چنانچہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر اپنے ملک اور عوام کا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو اپنے بازوؤں کا سہارا لینا پڑے گا۔ ورنہ تو استکبار کے سامنے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہونگے، جس کی اجازت خدا نے بھی ہمیں نہیں دی ہے۔ اسی تفکر کی بنیاد پر ہم سائنس اور ٹیکنالوجی، خلائی ٹیکنالوجی، جوہری ٹیکنالوجی اور طب کے میدانوں میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں۔ دشمن کی طرف کا خطرہ جتنا بڑھتا رہے گا ترقی کے لئے ہمارے محرکات میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ہم زیادہ سے زیادہ طاقتور ہوتے رہیں گے۔
بے شک اسلامی جمہوریہ ایران ان 45 برسوں میں بڑے بڑے مظالم کا نشانہ بنتا رہا ہے اور ہم نے مظلوموں کا دفاع کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے وزارت جنگ کو وزارت دفاع میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ ہم کسی ملک کو بھی للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ لیکن ہم ایسا بھی نہیں کر سکتے کہ ایک مدد مانگنے والے مسلمان کی مدد نہ کریں۔ ہم اسلامی ممالک کو مسلسل پیغام امن دیتے رہے ہیں لیکن غیر ملکی طاقتیں رکاوٹ بنی ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے امیرالبحر کا اسلامی ممالک کو اہم پیغام
ہمارا عقیدہ ہے کہ مظلوم کا دفاع کرنا چاہئے، قبلۂ اول کا دفاع کرنا چاہئے جو آج دشمن کے زیر قبضہ ہے، یہ عزم و اعتقاد ہماری مسلسل ترقی کا باعث ہے۔
یہ ہمارا پیغام ہے اسلامی ممالک کے لئے
اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی کسی اسلامی ملک کے لئے، اور ان ممالک کے لئے جو ہمارے لئے خطرہ کھڑا نہیں کرتے، خطرہ نہیں ہے۔ ہم اسلامی ممالک کا دفاع کرتے ہیں۔ شہید الحاج قاسم سلیمانی نے اپنی پوری زندگی شام، عراق، یمن، لبنان اور فلسطین کے عوام کے دفاع میں گذار دی؟ کیا ہمارے بھی کچھ خفیہ عزائم تھے؟ ہم تو صرف مسلمانوں پر اجنبیوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی ـ جنگ کے ذریعے ـ حکمرانی کو مسترد کرتے ہیں، البتہ مراد وہ یہودی اور عیسائی ہیں جو ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور ہم پر جنگیں مسلط کرتے ہیں، ورنہ تو ہمارے اپنے ملک میں بھی عیسائی اور یہودی موجود ہیں۔
بے شک مسلمانوں کے مشترکہ دشمن کے لئے مسلمانوں کا خون ـ خواہ وہ جو فلسطین میں شہید ہو رہے ہیں، خواہ وہ جو یمن پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں شہید ہوئے ـ کوئی اہمیت نہیں رکھتا؛ اس لئے کہ مسلمانوں کے پاس امت کے دفاع کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
اسلام میں یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا خون گرا دے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو ہمیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی غرض سے نہیں بلکہ کفار سے نمٹنے کے لئے طاقتور بننے کی رغبت دلا رہے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے لئے ہمارا پیغام ہے لیکن مغربی ذرائع ہمارا یہ پیغام مسلم ممالک تک نہیں پہنچنے دیتے۔
اتحاد بین المسلمین کا دور آن پہنچا ہے
آج جبکہ مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے یہ اتحاد قائم کرنے کا وقت ہے۔ اگر ہم اس سے پہلے متحد ہو چکے ہوتے تو صہیونی ریاست، امریکہ اور برطانیہ فلسطینیوں کے ساتھ یہ سلوک برتنے کی جرات نہ کر سکتے۔ اگر یہ برتاؤ کسی یورپی ملک کے ساتھ روا رکھا جاتا تو وہ سب اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرتے جیسا کہ ہم نے یوکرین کے واقعے میں دیکھا؛ لیکن مسلمانوں کے خلاف اتنے عظیم جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور کوئی بھی ان کے کندھے سے کندھا لگانے والا نہیں ہے۔
اگر ہم اسلامی اتحاد قائم کر چکے ہوتے اور ہمارے پاس اسلامی ممالک کے دفاع کے لئے مشترکہ فوج ہوتی تو امریکہ اور اس کے اتحادی اتنی آسانی سے ان ممالک میں داخل ہونے کی جرات نہ کرتے اور ایک خونی جنگ شروع کرنے کے بعد شام کا تیل چوری نہ کرتے، ہمیں اسلامی اتحاد کی ضرورت ہے۔ بہرصورت اسلامی ممالک اسلامی ممالک اسلامی جمہوریہ ایران کی آج کی دعوت اتحاد کو سمجھ لیں گے۔ [لیکن دیر ہو چکی ہوگی]۔
مسلم پڑوسی ممالک کے لئے ہمارا پیغام امن اور دوستی کا پیغام ہے
ہمارا پیغام ہمیشہ، اور بطور خاص خلیج فارس میں جنگی مشقوں کے دوران، پڑوسی مسلم ممالک کو امن اور دوستی، اور اجنبی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا پیغام ہوتا ہے۔ وہی دشمن جن کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اس علاقے میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے؛ آج اگر خلیج فارس میں امارات، ایران، بحرین، سعودیہ اور عمان اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کا خون گرتا ہے، تو ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ وہ ایسے علاقے میں سرگرم عمل ہیں، جو اگر نیست و نابود بھی ہو جائے تو ان کے لئے اہم نہیں ہے۔
ہمارے دشمن اپنے طیارہ بردار جہازوں کو بند علاقوں میں تعینات نہیں کرتے بلکہ اس طرح کے علاقوں میں متعین کرتے ہیں، اور یوں وہ مسلمانوں کی عقل و ہوش کا مذاق اڑاتے ہیں؛ دشمنوں کی سوچ یہ ہے کہ ہم اور ہمارے پڑوسی ممالک خلیج فارس میں حاضر نہیں ہو سکتے، اور اپنے پانیوں سے فائدہ اٹھانے کے مجاز نہیں ہیں، وہ اپنے مفادات اور اپنے عزائم کے درپے ہیں، وہ لوٹ مار کے لئے آتے ہیں جیسا کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے دو ٹوک الفاظ میں بعض ملکوں سے کہا کہ “تم دودھ دینے ولی گائے ہو”۔
انہیں ہمارے تیل اور گیس کی ضرورت ہے، وہ ہمارے ممالک کو شیر دار گائے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ ہمارے مفادات کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ ہمارے ممالک کو لوٹنے اور ہمارے درمیان تنازعات پیدا کرنے کے لئے یہاں آئے ہیں، تاکہ اپنے ہتھیار، بحری جہاز اور میزائل بیچ سکیں۔
یقینا اگر اسلامی اتحاد کے ہدف کو حاصل کر سکے ہوتے تو اپنی دولت اپنے ملکوں اور علاقے کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرتے، اور اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس مرحلے تک پہنچے ہوتے تو کیا ہوتا؟ مغربیوں اور ان کی آمدنیوں کا کیا بنتا؟ اور وہ جو اپنی بقاء کے لئے جنگوں کے محتاج ہیں، تو ان کی بقاء کی ضمانت کیونکر دی جاسکتی تھی؟
تبصرہ کریں