کیا غاصب جعلی اسرائیل قرآن میں مذکورہ بنی اسرائیل کے وارث ہیں؟ (1)

کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی ذریت سے ہیں اور آج کے انسانی معاشروں کے تمام افراد ان ہی افراد کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر طوفان کے مہلکے سے چھوٹ گئے تھے۔ یہ تاریخچہ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ چند حصوں میں بیان کیا جاتا ہے

فاران: قوموں، ملتوں اور معاشروں کو پہچاننا ہو تو سب سے پہلے ان کے ظہور کے تاریخچے کا گہرا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
یہودیوں کے تاریخی مآخذ نیز مغربی مآخذ نے بنی اسرائیل کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام؛
۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا؛ جن کا البتہ موجودہ اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی ذریت سے ہیں اور آج کے انسانی معاشروں کے تمام افراد ان ہی افراد کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر طوفان کے مہلکے سے چھوٹ گئے تھے۔ یہ تاریخچہ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ چند حصوں میں بیان کیا جاتا ہے:
قوم بنی‌اسرائیل:
الف۔ تاریخی مستندات کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں واقع اور’’کلدانیان‘‘ نامی شہر میں پیدا ہوئے۔ دجلہ اور فرات کے درمیان واقع “بابل” میں سکونت پذیر تھے، نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا، بتوں کو توڑ دیا، آگ میں پھینکے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ عراق ہی کے شہر “حران” ہجرت کرگئے۔ اس علاقے کو ـ جو آج عراق کہلاتا ہے ـ رافدین کہا جاتا تھا اور عبری قوم کے کچھ لوگ بھی اس شہر میں سکونت پذیر تھے۔ بعدازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فلسطین، حجاز اور مصر کی طرف ہجرت کی۔
ب۔ مغربی اور یہودی مآخذ کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے : اسحاق اور یعقوب، اور یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ وہ کنعان میں سکونت پذیر ہوئے، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات، مصر میں ان کی وزارت عظمی، کنعان میں قحط سالی وغیرہ کے بعد وہ اپنی قوم کے ہمراہ مصر چلے گئے اور یہ قوم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے تک مصر میں رہی۔
۔ ان کی قوم کو فرعونیوں نے آزار و اذیت کا نشانہ بنایا گیا، اور وہ موسی علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے نکل کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے۔ جیسا کہ قرآن میں کریم میں بیان ہوا ہے: “انھوں نے کہا اے موسیٰ !ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اس میں ہیں لہذا بس آپ جائیے اور آپ کا پروردگار اور دونوں لڑ لیجئے۔ ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا پروردگار!میں قابو نہیں رکھتا مگر اپنے اوپر اور اپنے بھائی پر، لہذا تو ہی فیصلہ کردے ہمارے درمیان اور اس بد اعمال جماعت کے درمیان۔ ارشاد ہوا کہ پھر اب وہ ان پر چالیس برس کے لیے حرام ہے، وہ جنگل میں سرگردان پھرتے رہیں گے تو تمہیں ان بداعمال لوگوں پر افسوس نہ ہونا چاہئے”۔
یعنی یہ کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے انہیں ہدایت کی کہ سرزمین فلسطین میں داخل ہوجاؤ، لیکن انھوں نے منع کیا جس کے نتیجے میں وہ ۴۰ سال تک صحرائے سینا میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور بھٹکتے رہے اور ان کی کئی نسلیں وہیں ختم ہوئیں۔ اور نئی نسلیں ظہور پذیر ہوئیں۔
۔ حضرت موسی علیہ السلام کی رحلت کے بعد اور یوشع بن نون کی جانشینی کے دوران، کنعان تدریجی انداز سے فتح ہوا۔ – بعدازاں بادشاہی کا دور شروع ہوا، طالوت اور داؤود اور پھر سلیمان علیہم السلام اس دور کے طاقتور بادشاہ تھے۔ لیکن اسباط (یعنی فرزندان یعقوب میں سے ہر ایک سے معرض وجود میں آنے والے قبائل) کے درمیان اختلافات نے زور پکڑ لیا اور بادشاہی تقسیم ہوگئی۔ شمالی حصے میں اسرائیلی بادشاہت دس سبطوں پر حکمرانی کررہی تھی۔ اور بنیامین اور یہودا کی اولادوں نے جنوبی فلسطین میں چھوٹی سی بادشاہت تشکیل دی۔
۔ بُختُ النصر (نبوکدنصر) نے حملہ کرکے اسرائیلی بادشاہت پر قبضہ کیا اور ہیکل والی عبادتگاہ منہدم ہوئی اور قوم بنی اسرائیل کو بابل لےجایا گیا۔ سنہ ۵۳۸ قبل از مسیح میں ایران طاقتور ہوا تو کوروش نے بابل کو فتح کیا اور حکم دیا کہ یہودیوں کو اپنی سرزمین میں لوٹایا جائے اور ان پر مہربانیاں کیں اور ان کو اپنی حمایت کے تحت قرار دیا۔ انھوں نے یروشلم کی عبادتگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا، لیکن فلسطین پلٹنے کے بعد اسباط کے درمیان اختلاف حل نہیں ہوا اور وہ دوبارہ اپنی خودمختاری حاصل نہ کرسکے۔ یہ قوم ایران کے بعد بالترتیب یونانیوں، بطلیمیسیوں (Ptolemaic Dynasty)، سلوکیوں (Seleucid Empire) اور رومیوں کے زیر تسلط رہے۔ حتی کہ آخرکار سنہ ۷۰ عیسوی میں ـ جب یروشلم میں ہیکل ثانی بھی منہدم ہوا ـ بنی اسرائیلی حکومت انتشار اور شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ سنہ ۳۹۵ع‍میں سلطنت روم تقسیم ہوئی تو فلسطین مشرقی روم یا بازنطین کا صوبہ ٹہرا جہاں عیسائیوں کی سکونت تھی۔
۔ یہ قوم حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے بعد شہر ناصرہ میں یہودی اور عیسائی ادیان میں تقسیم ہوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت کے بعد ان کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔
نکتہ – لیکن، یہودی تواریخ کہتی ہیں کہ اسرائیل کا نام حضرت یعقوب کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے کے ساتھ جنگ میں معجزانہ طور پر غالب آگئے تھے!:
” ان سے کہا: “تمہارا نام کیا ہے؟”، کہا: “یعقوب”۔ اس نے کہا کہ تمہارا نام بعدازیں یعؔقوب نہیں بلکہ تمہارا نام اِسرائیل ہوگا کیونکہ تُو نے خُدا اور انسان کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالِب ہُوا”۔