ایرانی وزیر خارجہ: آنے والے ہفتوں میں غزہ میں ممکنہ جنگ بندی/ شام میں مذہبی مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے مشاورت, (دوسرا حصہ)

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کی اپنی پیچیدگیاں ہیں اور اس وقت بات ہو رہی ہے کہ 20 جنوری سے قبل غزہ میں جنگ بندی قائم ہو جائے گی اور مسٹر ٹرمپ کی آمد کے بعد مجھے کوئی یقینی بات نظر نہیں آتی۔

گزشتہ سے پیوستہ

حزب اللہ نے تیزی سے خود کو منظم کردیا

انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت نے گولان کے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے اور مزاحمتی محاذ ایک سال سے زیادہ عرصے سے مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اس نے مثالی مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ غزہ میں اب بھی مزاحمت جاری ہے اور صیہونی حکومت ابھی تک قیدیوں کو رہا نہیں کر سکی ہے۔

عراقچی نے کہا: “حزب اللہ لبنان سخترین حملے برداشت کرنے کے باوجود تیزی سے خود کو دوبارہ منظم کرنے اور مدمقابل کو جانی نقصان پہنچانے اور صیہونی حکومت کو جنگ بندی پر مجبور کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ صیہونی حکومت جنوبی لبنان میں جنگ بندی پر راضی کیوں ہوئی؟ حزب اللہ کی مزاحمت کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے اور انہیں جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ مزاحمت ایک سوچ ہے، یہ ایک اسکول آف تھاٹ ہے، اور اس میں بہت سے نشیب و فراز آئے ہیں۔

وزیر خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حزب اللہ لبنان نے اپنے رہنما شہید سید حسن نصراللہ کو کھو دیا لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے مسئلے سے گزرے ہیں، مزاحمت کا فلسفہ استقامت اور ثابت قدمی ہے۔ میری رائے میں مزاحمت نے اپنا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: “ایسا نہیں ہے کہ شام کے بغیر مزاحمت رک جائے گی، یمن کے ساتھ ہمارا مواصلاتی راستہ کہاں ہے؟ کیا غزہ کے ساتھ ہمارا مواصلاتی راستہ کھلا ہے؟ یمن اور غزہ مزاحمت کر رہے ہیں۔ بہرحال، مزاحمت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے کیونکہ یہ ایک مثالی جنگ ہے نہ کہ کلاسیکی جنگ، اور اسی وجہ سے مزاحمت کو ختم نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ اسے محدود کر دیا جاتا ہے، لیکن آخر میں وہ اپنے ہتھیاروں کو فراہم کرنے اور اپنا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ شام کے مزاحمت کے مدار سے نکلنے کے بعد یہ راستہ رک جائے گا۔

اگر شامی فوج مزاحمت کرتی تو حلب بھی نہ گرتا

وزیر خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا: “حزب اللہ لبنان کی مزاحمت ایک حقیقت ہے جس کے پاس اتنے ہتھیار اور جنگی سازوسامان و سہولیات موجود ہیں کہ وہ ایک دو سال سے زیادہ عرصے تک مزاحمت کرنے کی قابلیت رکھتی ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شام میں پیش رفت کے ساتھ حزب اللہ کمزور ہو جائے گی۔ جنگ بندی معاہدے کے مطابق صیہونی حکومت کو 60 دن کے اندر اپنے موقف سے دستبردار ہونا ہوگا اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: شام میں حالیہ اقدامات کا وقت، صیہونی حکومت کے ساتھ ایران کا تصادم، یوکرین میں روس کی شمولیت، ان سب نے ان کے حساب کتاب میں کردار ادا کیا ہے، لیکن میرے خیال میں شام میں اس حالیہ اقدام کی کامیابی کا بنیادی عنصر صرف شامی فوج تھی، جس نے مزاحمت نہیں کی، ورنہ مزاحمتی قوتیں، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ دیگر جگہوں پر مشغول تھیں لیکن پھر بھی وہ اپنا کردار نبھاتیں، لیکن اگر شامی فوج مزاحمت کرتی تو حلب تک بھی ان کے ہاتھ سے نہ جاتا چہ جائے پورا شام، اور میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں۔

عراقچی نے کہا: “مزاحمت کی کمزوری کا تصور بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ مزاحمت ایک مکتب فکر ہے اور اسے کبھی تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ حماس اور حزب اللہ دونوں ثابت قدم رہے اور اسلامی جمہوریہ ایران پوری دانشمندی اور قوت کے ساتھ ان مسائل کی نگرانی کر رہا ہے اور ہم مزاحمت اور حزب اللہ کی حمایت جاری رکھیں گے۔

آنے والے ہفتوں میں غزہ میں ممکنہ جنگ بندی

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کی اپنی پیچیدگیاں ہیں اور اس وقت بات ہو رہی ہے کہ 20 جنوری سے قبل غزہ میں جنگ بندی قائم ہو جائے گی اور مسٹر ٹرمپ کی آمد کے بعد مجھے کوئی یقینی بات نظر نہیں آتی لیکن ایسی باتیں کہی گئی ہیں مگر میں یہ امکان ظاہر کرتا ہوں کہ کچھ چیزوں کی بنیاد پر اگلے چند ہفتوں میں جنگ بندی قائم ہو جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور خود نیتن یاہو حماس کے خاتمہ کے اعلانیہ مقصد کے ساتھ غزہ میں داخل ہوئے تھے اور اگر حماس اب جنگ بندی میں داخل ہوتی ہے تو اس کا مطلب نیتن یاہو کا شکست قبول کرنا ہے۔ لہٰذا نیتن یاہو کے لیے شکست تسلیم کرنے کا مسئلہ یہ ہے کہ جنگ بندی کو تسلیم کر کے وہ درحقیقت اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں اور غزہ میں اسرائیل کی شکست کی مہر لگ جائے گی۔

عراقچی نے مزید کہا: “کچھ پیشگوئیاں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تجزیے اور کچھ معلومات کی بنیاد پر، نہ صرف عراق بلکہ پورے خطے میں تنازعات کے پھیلنے کا امکان ہے چونکہ شام میں جب دہشت گردی کا دروازہ کھول دیا جائے گا اور داخلی تنازعات اور داعش کی واپسی کے لئے ایک میدان تیار کیا جائے گا، تو اس کے نتائج پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ صیہونی حکومت کی سازشیں کبھی ختم نہیں ہوئیں اور نہ ہی ختم ہوں گی، لہٰذا محتاط رہنا یقینی طور پر ضروری ہے۔

شام کے مستقبل کے بارے میں ایران کے سفارتی نظام کے سربراہ نے کہا: “اب مسلح گروہ داخل اور تعینات ہو چکے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام میں مختلف نسلوں اور مختلف سیاسی طبقوں کے مختلف گروہوں کی ایک وسیع رینج موجود ہے، اگر آپ ان دنوں مختلف علاقوں کے غلبے کے رنگین نقشے پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ مختلف گروہوں میں سے ہر ایک کے زیر کنٹرول علاقے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں شامی عوام کی مرضی غالب رہے، لیکن میرے خیال میں یہ ایک آسان راستہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا: “شام کے موجودہ سیاسی منظر نامے کو دیکھ کر ہر بات کا امکان موجود ہے خاص طور پر جب خطے کے کچھ ممالک ان واقعات پر ناراض اور غصہ کے حالت میں ہیں جب کا میں نام نہیں لینا چاہوں گا لیکن مجھے لگتا ہے کہ کچھ اور تحریکیں دوسری طرف سے شروع ہوں گی، اور ہم نے لیبیا، سوڈان اور لبنان میں ان مسائل کی مثالیں دیکھی ہیں۔ اور خطے کے ممالک کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ خطے میں امن کے قیام کو مشکل بنا دیتا ہے۔

شام میں سفارتی اور مذہبی مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے مشاورت

انہوں نے کہا کہ ہم انتظار کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ شام میں کس قسم کی حکومت قائم کی جائے گی، اگر ہم اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ہم اس حکومت کی نشاندہی کر سکیں تو یہ فطری بات ہے کہ ہم انہیں تہران میں شامی سفارت خانہ فراہم کریں گے اور اس وقت تک موجودہ سفیر اور موجودہ عملہ ان کے سفارت خانے میں ہی رہے گا۔ اپنے سفارت خانے کے حوالے سے ہم نے شام میں مختلف فریقوں سے دمشق میں اپنے سفارت خانے اور حلب میں اپنے قونصل خانے کی حفاظت کے ساتھ ساتھ حضرت زینب (س) کے حرم اور حضرت رقیہ(س) کے حرم کی حفاظت کے بارے میں بات کی ہے اور ہمیں مذکورہ مقامات کے تقدس کے تحفظ کے حوالے سے گارنٹی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج صبح دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ہونے والا حملہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حملہ مخصوص گروہوں کی جانب سے منظم نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن حلب میں جو کچھ ہوا، جو بہت ہی برا تھا۔ ہمارے لیے سب سے اہم چیز مقدس مقامات ہیں جو ابھی تک محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ کوئی بے حرمتی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ہم مختلف پارٹیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جن کا میں نام نہیں لوں گا۔

وزیر خارجہ نے کہا: “شام میں موجود ایرانیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ہمارے مختلف فریقوں سے مختلف رابطے ہیں اور ہم ان تمام افراد کو ملک واپس کریں گے جو تعمیر اور دیگر کاموں کے لئے شام گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان پیغامات کا تبادلہ کوئی عجیب بات نہیں ہے اور یہ ہمیشہ سوئس سفارت خانے کے ذریعے موجود رہا ہے، وہ اپنے پیغامات دیتے ہیں اور ہم ان کا جواب دیتے ہیں۔ یہ صرف شام کے بارے میں نہیں ہے، اور غلط فہمیوں کو روکنے کے لئے مختلف امور پر پیغامات کا تبادلہ کیا جاتا ہے.

ہمیں صیہونی حکومت کی سازشوں سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہئے

انہوں نے مزید کہا: ہم شام میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ ہمارا رویہ ان کے طرز عمل پر منحصر ہے، وہ شام کے شیعوں کے بارے میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں، ان کے اور صیہونی حکومت کے درمیان کتنا فاصلہ ہوگا، ان کے اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان کیا فاصلہ ہوگا، ہم اس سب کا مشاہدہ کریں گے اور اس کے مطابق اپنے طرز عمل کو ایڈجسٹ کریں گے.

وزیر خارجہ نے کہا: “یہ فطری بات ہے کہ آستانہ اجلاسوں کا تسلسل دیگر ارکان کے طرز عمل پر منحصر ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہم ان اجلاسوں کو جاری رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔ اب تک جب شام کی حکومت وہاں موجود تھی تو ہم نے ان کے داخلی معاملات شامی حکومت پر چھوڑ دیے تھے لیکن اب ہم نے جو بیان دیا ہے اس کی بنیاد پر سیاسی عمل کے لیے ہمارا معیار ایک ایسی قرارداد ہے جو شام میں ایک جامع حکومت کے قیام کی طرف لے جاتی ہے تاکہ تمام فریق اس ملک میں ترقی کے عمل میں اپنا کردار اور اثر و رسوخ ادا کر سکیں۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنا اور فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنا ایک جاری جدوجہد ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف بہت سے اقدامات کر رہے ہیں اور ہمیں صیہونی حکومت کی سازشوں سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہئے اور اب پہلے سے کہیں زیادہ۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ شام میں جو کچھ ہوا ہے وہ اتنا تیز اور غیر متوقع تھا کہ اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔