ذرائع ابلاغ کی آزادی کی دشمن آل سعود ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری کیوں کر رہی ہے؟
فاران ؛ آل سعود کے لئے اس قسم کی سرمایہ کاری کے کئی اسباب ہیں:
۱۔ سعودی عرب کو اپنی مخدوش حیثیت بحال کرنے کے لئے رائے عامہ کو سمت دینے کی ضرورت ہے
ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری اور بلومبرگ اور انڈیپنڈنٹ جیسے اداروں کے ساتھ معاہدوں سے آل سعود کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ آل سعود نے اپنی غلط اور ناپختہ پالیسیاں اپنا کر، اور اندرونی استبدادی پالیسیوں کو سرحدوں سے باہر نافذ کرنے کی کوشش کرکے اپنی حیثیت کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں اور اقوام عالم میں زبردست بدنامی کما چکے ہیں چنانچہ اب وہ اپنی حیثیت بحال کرنے کے لئے ابلاغیات کا سہارا لینے کے چکر میں ہیں جبکہ ابلاغیات کے لئے جو مواد فراہم کیا جائے گا اس کی بنیاد سعودی استبدادی سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بایں ہمہ آل سعود کی کوشش یہ ہے کہ ۲۰۳۰ سعودی منصوبے جیسی دستاویزات کی رو سے سعودی حکومت کا بالکل نیا اور مرمت شدہ چہرہ دنیا والوں کو دکھایا جائے۔ ان کے کام متشددانہ، تنگ نظرانہ، کالے اور مخدوش ہیں، اقدامات پہلے کی طرح خونی ہیں لیکن ظاہری چہرہ کچھ اور دکھانا چاہتے ہیں! یہ الگ بات ہے کہ کیا وہ اس تضاد بھری پالیسی میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟
۲۔ الجزیرہ جیسے دیوقامت ذرائع ابلاغ کا مقابلہ
آل سعود نے اس سے قبل العربیہ، اور ایم بی سی کے عنوان سے متعدد چینلوں اور فرقہ وارانہ اور وہابیت کے پرچارک چینلوں کا سہارا لیا تا کہ الجزیرہ وغیرہ کو شکست دے کر عرب دنیا میں ان کی جگہ لے سکے لیکن کامیاب نہ ہوسکے چنانچہ انھوں نے اپنے بانی مبانی ملک برطانیہ کے ذرائع ابلاغ نیز بلومبرگ کے ساتھ معاہدے منعقد کئے۔ الجزیرہ نیٹ ورک قطر کے ہاتھ میں ہے اور حالیہ تین سالہ سعودی ـ قطری تنازعے کی ایک بنیاد یہی نیٹ ورک ہے۔ الجزیرہ عرب دنیا میں اخوانیت کا پرچار کرتا ہے اور دین و سماج کی ایک ایسی تصویر پیش کررہا ہے جو آل سعود کے دینی اور سماجی تصور سے بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ سعودی چاہتے ہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے ساتھ معاہدے کرکے اس نیٹ ورک کو دیوار سے لگا دے۔
۳۔ علاقائی صورت حال پر اثر انداز ہونے کی کوشش
آل سعود نے گذشتہ ۸ برسوں میں کھربوں ڈالر خرچ کرکے علاقے کو اپنی اطاعتگزاری پر آمادہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اسے اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کے لئے کم از کم تین ملکوں کو ویران کرنا پڑا ہے: لیبیا، شام اور یمن؛ لیکن اب وہ ایسے ذرائع ابلاغ کی تلاش میں ہے جن کے ذریعے وہ علاقے کے حالات پر اثرانداز ہونے اور صورت حال کی تبدیلی کا سد باب کرنے کی کوشش کریں گے۔ تبدیلیوں سے یہاں مراد وہ سعودی خواہش ہے جس کے تحت وہ علاقے کے عوام کو اپنے ساتھ ملا کر، امریکی خواہش ـ یعنی تبدیلیاں لا کر نئے مشرق وسطی کی تشکیل ـ سے فائدہ اٹھا کر، علاقائی ممالک کی حکومتوں کو سعودی شہزادوں کی مرضی کے مطابق، تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایران، عراق، شام، ترکی، قطر، عمان سمیت خلیجی ریاستوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان ممالک کی نبض کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، اسلامی بیداری کا سدباب کرنا چاہتے ہیں اور بحرین، نجد و حجاز، امارات اور مصر میں اسلامی بیداری کے ذریعے نئی تبدیلیوں کا انسداد اور ان ممالک اور ریاستوں میں موجود استبدادیت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔
بقلم: صدیقہ احمدی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
تبصرہ کریں