عراق کا سرکاری نقطہ نظر صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کی برقراری کے خلاف

آج ایران تن تنہا دنیا کے چھ بڑے ممالک کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ کتنی بڑی طاقت ہے؟ کونسا ملک ہے جو چھ ممالک کے آگے کھڑا ہوجائے اور اکیلے ہی ان کے ساتھ مذاکرات کا انتظام و انصرام کرے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کا رقبہ بھی ایران سے بڑا ہے اور آبادی بھی زیادہ ہے لیکن سنہ 2015ع‍ سے ایران کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں؛ یہ طاقت کہاں سے آئی ہے؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آج خطے کے بعض ممالک صہیونی غاصبوں کے ساتھ معمول پر آنے (Normalization یا تعلقات معمول پر لانے) کی سازشی دلدل میں دھنس گئے ہیں لیکن عراق اس لہر کے سامنے مزاحمت کر رہا ہے کیونکہ قومی شعور اور ملّی ضمیر اسلامی ہوشیاری اور قومی بیداری کے دور سے گذر رہا ہے اور “صہیونیوں کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے” کا تصور اسے چونکا دیتا ہے کیونکہ عراق سنہ 1948، سنہ 1967 اور سنہ 1973ع‍ میں تین مرتبہ اس غاصب ریاست کے خلاف لڑ چکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ خاص افراد مختلف کانفرنسوں میں اس سلسلے میں صہیونی تشہیری مہم کا حصہ بنیں لیکن عراق کا سرکاری نقطۂ نظر اور تمام جماعتوں اور تنظیموں کا مشترکہ سیاسی موقف یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کی مخالفت پر استوار ہے۔ غاصب صہیونی دشمن کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ممالک در حقیقت “ایک علاقائی اور بین الاقوامی پیشرفت” [محور مقاومت] کی پیشقدمی سے بچانا چاہتے تھے، جبکہ عراق اسی پیشرفت کا حصہ ہے چنانچہ یہ ملک نہ آج اور نہ ہی کل، سازباز کے اس ذلت و خفت راستے پر گامزن نہیں ہوگا۔

امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) اور امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی)
– امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) اپنی قوم کے ساتھ صادق تھے / آپ نے اسلامی امت کو خود اعتمادی اور تشخص کا تحفہ دیا
امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) اپنے آپ اور اپنی قوم کے ساتھ صادق اور دیانت دار تھے اور جو شخص اپنے آپ اور اپنی قوم کے ساتھ دیانت دار ہوتا ہے وہ اپنے رب کے ساتھ بھی دیانت دار ہے اور خدا ہی اس کا مددگار ہوتا ہے؛ چنانچہ آپ کو جو فتح و نصرت حاصل ہوئی اس کا سبب امام کی یہی امتیازی خصوصیت تھی۔ یہ ایمانداری اور دیانتداری کا صلہ تھا جو اللہ نے آپ کو عطا کیا ورنہ تو یہ کسی معمول کی سیاسی سرگرمی کا ثمرہ نہ تھا۔ امام کے نزدیک آپ کا مشن بہت اہمیت رکھتا تھا یہ بہت اہم بات ہے کہ انسان اپنے مشن کی تکمیل کو اپنے اوپر فرض سمجھے اور اس کے لئے یہ اہم نہ ہو کہ اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوتا ہے یا نہیں، اور بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالی نے آپ کو اپنی اس نیت کی بنیاد پر فتح و کامیابی سے ہم کنار کیا۔
امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) اور امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ) کی خصوصیات میں سے ایک خود اعتمادی اور تشخص کا استحکام ہے۔ وہ مسلم اقوام کو مسلسل گوش گذار کرتے ہیں کہ “اسلام سب کچھ کرسکتا ہے”، “اسلام جمنے اور ڈٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے”۔ اور یہ نکتہ بہت اہمیت رکھتا ہے جو اس سے پہلے فراموشی کے سپرد کیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام آج کے انسان کی ضروریات کی تکمیل سے قاصر ہے اور سائنس اور آج کی دنیا کی تیز رفتار تبدیلیوں کے قدموں سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران تمام، تر دشمنیوں اور دشمن کے شدید اور ہمہ جہت دباؤ کے باوجود، آج اس خطے کی واحد پرامن جوہری طاقت ہے۔ اور ایران سب سے پہلے، اس امر کا باعث ہؤا ہے کہ آج امت مسلمہ اپنے اسلامی تشخص ہی کو اپنے عمل اور پیشرفت کا سرچشمہ گردانتی ہے۔
دوسرا نقطہ آزادی و استقلال عور عدم وابستگی ہے۔ آپ اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر ایک مستقبل موقف اختیار کرسکتے ہیں اور فطری طور پر دوسرے ممالک بھی آپ کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؛ لیکن اگر آپ دوسروں سے وابستہ ہوں، تو دوسرے بھی آپ کو حقیر اور خوار سمجھیں کے۔
آج ایران تن تنہا دنیا کے چھ بڑے ممالک کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ کتنی بڑی طاقت ہے؟ کونسا ملک ہے جو چھ ممالک کے آگے کھڑا ہوجائے اور اکیلے ہی ان کے ساتھ مذاکرات کا انتظام و انصرام کرے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کا رقبہ بھی ایران سے بڑا ہے اور آبادی بھی زیادہ ہے لیکن سنہ 2015ع‍ سے ایران کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں؛ یہ طاقت کہاں سے آئی ہے؟ اس طاقت کا سرچشمہ اسلام ہے۔ یہ طاقت اسلام سے حاصل ہوئی ہے اور اسلام اس طاقت کا سرچشمہ ہے اور اس احساس کے ساتھ آئی ہے کہ جب آپ اپنے لوگوں کے مفادات پر توجہ دیں گے تو لوگ آپ کی عزت کریں گے اور جب آپ دوسروں کے پیرو اور تابع ہوں گے تو لوگ وہ آپ کی عزت نہیں کریں گے۔ یہ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کے مکتب کا دوسرا نکتہ ہے۔ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کا مکتب وہ مکتب ہے جو طاقت اور خودکفالت پر مبنی ہے۔ اس مکتب میں “اسلام” صرف ایک نعرہ اور محض ایک عبادت نہیں ہے؛ بلکہ اسلام طاقت کا سرچشمہ ہے۔ ایک قوی اور طاقتور مؤمن ایک کمزور مؤمن سے بہتر ہے۔ اج ایران میزائلوں، زبردست بحریہ اور پرامن جوہری طاقت کا حامل ملک ہے، یہ قوتیں اور صلاحیتیں کہاں سے آئی ہے؟ یہ سب اسلامی تشخص پر توجہ دینے اور مرتکز رہنے کا نتیجہ ہے اور امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کا مکتب اسی تشخص کا داعی اور منادی ہے اور امام خامنہ ای نے بھی اس دعوت کو جاری رکھا ہے۔ یہ مکتب کہتا ہے:
“وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ؛ (سورہ انفال، آیت 60)
اور تم طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں – جو تم سے بن پڑیں – ان [دشمنوں] سے نمٹنے کے لئے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اﷲ کے دُشمن اور اپنے دُشمن پر خوفزدہ کر دو۔ اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی [ڈرا دو] جنہیں تم نہیں جانتے، [مگر] اﷲ انہیں جانتا ہے”۔
یعنی یہ کہ تمہیں طاقتور ہونا چاہئے تا کہ دوسرے [دشمن] تم سے مرعوب ہوں اور تمہارا احترام کریں۔ یہ مکتب اور یہ درسگاہ اسباق و عبرتوں سے مالامال ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودگی اور شرکت کے بغیر کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا
آج ایران کے اسلامی انقلاب کی برکت سے دشمن بھی اور دوست بھی، اس مکتب کے احترام کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان سب کی رائے یہی ہے کہ اس مکتب نے ہی ایران کو مغرب سے وابستگی کے دائرے سے نجات دلائی اور مستضعف اور محروم اقوام کے ایران کے گرد اکٹھے ہونے کا سبب فراہم کیا اور آج یہ اقوام اسلامی جمہوریہ سے جُڑی ہوئی ہیں اور ایران کی اتحادی ہوچکی ہیں؛ اور نہ صرف مسلم اقوام بلکہ وینزویلا (Venezuela) سمیت لاطینی امریکی ممالک ایران کے دوست اور اتحادی ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ایران میں ایسے مکتب کی حکمرانی ہے جس نے عقیدے، آزادی اور طاقت پر مبنی ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے۔ حتیٰ وہ لوگ جو اس مکتب کے ساتھ دشمنی برتتے ہیں، اور اس کی ناکہ بندی کرنے کے لئے کوشاں ہیں، دل ہی دل میں اس مکتب کا احترام کرتے ہیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک دنیا بھر میں کوئی بھی اخبار یا رسالہ شائع نہیں ہوتا جس میں ایران کے بارے میں کوئی خبر، رپورٹ یا مضمون نہ ہو؛ کبھی انقلاب کے بارے میں، کبھی ایران پر صدام کی مسلط کردہ جنگ کے بارے میں اور کبھی ایران کے جوہری پروگرام اور اس پروگرام پر عالمی سطح کے مذاکرات کے سلسلے میں۔ یہ سلسلہ 43 برسوں سے جاری رہا ہے۔ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ایران طاقتور اور با اثر ہے اور اس وقت ایران ایک علاقائی طاقت ہے اور صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ایران کی شرکت کے بغیر حل نہیں ہوتا۔