فلم نوح (Noah) پر تنقیدی جائزہ
ڈارن آرونوفسکی (Darren Aronofsky) کی ہدایتکاری میں بنائی گئی فلم نوح (Noah) جو دوہزار چودہ(۲۰۱۴) میں ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں رلیز ہوئی اس میں جناب نوح علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم گوشہ یعنی مسئلہ نبوت کو منعکس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جناب نوح (ع) کی کہانی حقیقت پر مبنی ایک ایسی داستان ہے جو مختلف ادیان و مکاتب فکر کے نزدیک قابل قبول ہے یعنی کوئی بھی الہی دین اس تاریخی واقعہ کا انکار نہیں کرتا۔ اس حوالے سے ہالی وڈ کے فلمی اداکاروں اور صہیونی سرمایہ داروں نے اس عالمی تاریخی حقیقت کو اپنی مرضی اور منشاء سے فلمی صورت میں دنیا والوں کے لیے پیش کیا ہے۔ ہالی وڈ کے اداکاروں نے اس پیغمبر الہی پر نازل ہونے والی وحی اور ان کے الہی مکاشفوں کو صرف ایک خواب کی حد تک گرا کر پیش کیا ہے ایسی خواب جو انسان کو کبھی کبھی صرف کوئی دوا کھانے سے بھی دکھنے لگتی ہے۔ اس فلم میں جناب نوح کو امت کے رہبر اور الہی نمائندے کے بجائے صرف اپنے گھر والوں کو نجات دلانے والے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے اور امت کی نسبت گویا وہ اتنے لاپرواہ تھے کہ بے سہارا لوگوں کو بھی ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔
فلم نوح کی کہانی
یہ فلم یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ’’لامخ‘‘( جناب نوح کے والد) سانپ کی کھال کو اپنے ہاتھوں کے اردگرد لپیٹتے ہیں اور اپنی انگلی کو جناب نوح کی انگلی کے قریب کرتے ہیں تاکہ نور نبوت کو ان کے اندر منتقل کریں۔ یاد رہے کہ توریت کی نگاہ میں سانپ، شیطان کی علامت ہے۔ جونہی جناب نوح کے باپ لامخ نور نبوت کو جناب نوح میں منتقل کرنا چاہتے ہیں تو بادشاہ ’’ٹوبل قابیل‘‘ اس راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا اور لامخ کو قتل کر دیتا ہے۔
فلم کے اس حصے کا مقصد یہ ہے کہ مخاطب میں اس نقطہ نظر کو پروان چڑھایا جائے کہ جناب نوح کی نبوت صرف خیالی نبوت تھی اور وہ حقیقت میں معاذ اللہ نبی نہیں تھے! اور اس کے بعد فلم کی باقی کہانی اسی ایک نکتے سے تعلق رکھتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہر نبی کی نبوت پر سب سے اہم دلیل اس کا معجزہ ہوا کرتی ہے جس کا اس پوری فلم میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ اس حال میں ہے کہ جناب نوح کے دادا متوشلح معجزے کے مالک تھے اور انہوں نے معجزے سے ایلا (جناب نوح کے بیٹے سام کی بیوی) کے بانجھ ہونے کی مشکل کو حل کر دیا تھا۔
اس فلم میں جس ’’نوح‘‘ کو پیش کیا گیا ہے وہ صرف عالم خواب میں کچھ چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جنہیں سمجھنے کے لیے اپنے داد متوشلح سے مدد لینا پڑتی ہے! یہ طرز تفکر کتاب مقدس کے مضامین اور مطالب کے ساتھ بھی تضاد رکھتا ہے۔
مختصر یہ کہ الہی رسولوں کے سلسلے میں اس طرح کی ہلکی پھلکی، بے بنیاد اور سیکولر دید اور نظر رکھنا، انبیاء کی حقیقی تاریخ میں تحریف ہے، پیغمبروں کی عصمت پر سوالیہ نشان اٹھانا ہے، رسولوں کا خداوند عالم سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہونے اور وحی اور شہودی نگاہ کے بے معنی ہونے کا ثابت کرتا ہے یہ وہ مشترکہ مفاہیم ہیں جو انبیائے الہی کے حوالے سے بنائی گئی ہالی وڈ کی اکثر فلموں میں نظر آتے ہیں۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ہالی وڈ کے مورخین جیسے ’’نیل گویلر‘‘ جو یہودی ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ ہالی وڈ انڈسٹری اسّی فیصد سے زیادہ سیکولر اور صہیونی کمپنیوں کے زیر اثر ہے جو خود دین یہود کی تعلیمات سے بھی کوسوں دور ہے۔
ڈارن آرونوفسکی کی منحرف کرنے والی فلم نوح کو مختلف ممالک میں دینداروں اور مسلمانوں کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض اسلامی ممالک جیسے پاکستان، قطر، عرب امارات، بحرین، دیگر خلیجی ممالک ملیشیا، انڈونیشیا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک میں اس فلم کی نمائش پر قدغن لگا دی گئی۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی نے بھی ایک بیان جاری کر کے فلم ’’نوح‘‘ کو اسلامی مخالف قرار دیا اور اس ملک میں اسے دکھلانے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بین الاقوامی فلمی ڈائریکٹر مجید مجیدی جنہوں نے ماضی قریب میں ’’محمد‘‘ نامی فلم بنائی اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’ آج ہالی وڈ اور صہیونیت، میڈیا خاص طور پر فلمی میدان میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں اور حتی دینی موضوعات کی بھی اپنی مرضی سے منظر کشی کرتے ہیں کہ جس کی واضح مثال تازہ بنائی گئی فلم ’’جناب نوح‘‘ ہے۔ جب میں نے یہ فلم دیکھی تو میرا بدن لرز گیا۔ سچ میں پیغمبر خدا کو کیسا دکھلایا جا رہا ہے؟ اس عظیم واقع کے تئیں کتنی سطحی، تخریب کارانہ اور تعصب آمیز نگاہ کی گئی ہے کہ یقینا انسان افسوس کرتا ہے‘‘۔
تبصرہ کریں