صہیونی ریاست کے انہدام کے اسباب/ اسرائیل کے زوال میں مقاومت کا کردار
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: مغربی ابلاغی نظام اسرائیل کو طاقتور دکھانے کی کوشش کر رہا ہے؛ تو اس صورت حال کو آپ اسرائیل کی نابودی کے سلسلے میں رہبر معظم کے کلام کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ذرائع ابلاغ بنیادی طور پر مغربی جدیدیت (Modernity) کا ثمرہ ہیں اور مغربی انسانیات (Humanism) میں پروان چڑھے ہیں اور اس فضا میں ان کا مغربی اہداف اور پروگراموں کے مطابق کام کرنا فطری سی بات ہے۔ مغربی ابلاغیاتی نظام، جس نے بنیادی طور پر اپنا ثقافتی اور فنی تسلط دوسرے ممالک پر جمایا ہؤا ہے، بنیادی طور پر چاہتا ہے کہ دنیا والے وہی دیکھیں جو وہ دکھانا چاہتے ہیں اور وہی سنیں جو وہ سنانا چاہتے ہيں اور وہی تصور کریں جو وہ باور کرانا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ثقافتی لحاظ سے بھی ہے اور سیاسی لحاظ سے بھی۔ عالمگیریت جس کو “دنیا کو مغربی بنانے” سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، اسی تناظر میں قابل تفسیر و تشریح ہے۔
چنانچہ فطری امر ہے کہ ذرائع ابلاغ مغرب کے ہاتھ میں رہیں اور مغرب کے مفادات کے لئے کام کریں۔ یہ امر ناقابل انکار ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اسرائیل کی طاقت کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسلام اور مقاومت (مزاحمت) کو کمزور کرنے کے لئے کوشاں اور ان کے خلاف تشہیری مہم چلا رہے ہیں۔
رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے حکمت آمیز اور دور اندیشانہ کلام نے اس تخیلاتی تصویر سازی کو توڑ دیا اور دنیا کے مسلمانوں اور حریت پسندوں کو بلند آفاق کی طرف راہنمائی فراہم کی تاکہ وہ مغرب کی تشہیری یلغار سے مرعوب نہ ہوں اور اللہ پر توکل اور ایمان کی طاقت کا بھروسہ کرکے اس عہدشکن اور مکار دشمن کی نابودی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوں، جس کے دن گنے جا چکے ہیں۔
سوال: آپ کے کہنے کے مطابق، صہیونی دشمن کے زوال اور انحطاط کا مسئلہ ایک محض تشہیری اور ابلاغیاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ حقائق پر مبنی ہے اور ہو کر رہنے والی حقیقت ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ کون سے مسائل صہیونی ریاست کے زوال و انہدام کا باعث بنیں گے؟
قدس شریف پر قابض صہیونی ریاست کو متعدد اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کے وجود کو خطرے میں ڈالتے ہیں گوکہ یہ ریاست ان عوامل و اسباب کو چھپا رہی ہے یا پھر ان سے اندرونی اور بیرونی سطح پر توجہ ہٹانے میں مصروف ہے۔
اس مسئلے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ کچھ لوگ صہیونی ریاست کے خاتمے کے بات کرتے ہوئے “مقاومتی محاذ” کی طرح کسی بیرونی عنصر کو اس کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں حالانکہ اندرونی عوامل و اسباب کی طرف بھی توجہ دینا، زیادہ معقول ہے اور بیرونی عوامل کو بھی مقاومت ہی تک محدود کرنا درست نہیں ہے بلکہ امریکہ – جو اس ریاست کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے – کو بھی بعض مسائل میں طفل کُش یہودی ریاست کے زوال کا سبب گردانا جا سکتا ہے۔
سوال: صہیونیت کے زوال میں مقاومت کا کیا کردار ہو سکتا ہے؟
حزب اللہ اور فلسطین کی مقاومتی تحریکوں کے ساتھ [آج نومبر 2015ع تک] صہیونی ریاست نے چار اہم لڑائیوں میں شکست کھائی ہے۔ (1) اہم نکتہ یہ ہے کہ صہیونیوں کو ان کے حلیفوں نے جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح کیا تھا جبکہ حزب اللہ کے ساتھ 33 روزہ جنگ میں اور فلسطینی مقوامت کے ساتھ 22 روزہ اور آٹھ روزہ لڑائیوں میں مقاومتی مجاہدین فوجی وسائل کے لحاظ سے کمزور تھے لیکن اس کے باوجود کامیاب ہوئے۔
لیکن 51 روزہ جنگ [سنہ 2014ع] میں فلسطینی مقاومت نے اپنے جدید ہتھیاروں کی رونمائی کرکے، اسرائیلیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور صہیونیوں کو ایک نئی شکست کا مزہ چکھا دیا۔ اس وقت البتہ فلسطینی مقاومتی تحریکوں نے جدیدترین میزائلوں اور ہتھیاروں تک رسائی کا اعلان بھی کیا ہے، چنانچہ جعلی اسرائیلی ریاست کا وجود اور اس کی بقاء کو مزید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ بے شک اس ریاست کی سلامتی کو لاحق خطرات فلسطین سے صہیونیوں کی معکوس نقل مکانی کے اہم ترین اسباب میں سے ایک ہے۔
چنانچہ اسرائیل کی وسعت پسندانہ یلغاروں کی وجہ سے خطے میں لبنانیوں اور فلسطینیوں کے سامنے امریکہ اور اسرائیل کی کمزوریاں طشت از بام ہوئی۔ لبنان میں – لبنانی – مقاومت کے سامنے صہیونیوں کی مرحلہ وار شکست نے واضح کیا کہ یہ ریاست اور اس کا اصل حامی – امریکہ – کس قدر زد پذیر، غیر محفوظ اور زودشکن ہیں اور اگر اسلامی ممالک [نہ ڈریں اور] اچھی طرح منظم ہوجائیں تو نہ صرف دشمن کو کسی بھی جنگ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے محروم کر سکتے ہیں بلکہ انہیں بہت بھاری شکست بھی دے سکتے ہیں۔
ان تمام مسائل میں، حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں قدس پر قابض دشمن کی تین مرحلوں پر مشتمل شکست بہت زیادہ اہم ہے۔ پہلا مرحلہ سنہ 1982ع میں جنوبی لبنان پر قبضے کے بعد صہیونیوں جارحوں کی خفت آمیز پسپائی تھی جو مغربی اور صہیونی مراکز پر لبنانی مجاہدوں کی عظیم استشہادی کاروائیوں کے نتیجے میں انجام کو پہنچی۔ دوسرا مرحلہ سنہ 2000ع میں جنوبی لبنان سے صہیونیوں کے ذلت آمیز فرار پر مشتمل تھا اور پھر سنہ 2006ع میں حزب اللہ لبنان نے “آپریشن سچا وعدہ” (عملية الوعد الصادق) انجام دیا جس کے نتیجے میں غاصب صہیونی ریاست کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کاروائی کو 33 روزہ جنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے اور یہ لبنانی مقاومت کے مقابلے میں صہیونیوں کی شکست کا تیسرا مرحلہ تھا۔
نیز غزہ 38 سال تک قبضہ جمائے رکھنے کے بعد غاصب صہیونیوں کا اس خطے سے فرار ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا؛ حالانکہ غزہ ایک نہایت کم رقبے کا نہایت گنجان آباد علاقہ ہے جس کو مسلسل ناکہ بندی کا سامنا ہے؛ لیکن صہیونی غاصب اس خطے پر قبضہ کرنے کے لئے کئی حملے کرنے کے بعد ناکام رہے ہیں۔ اور غزہ در حقیقت مقاومت کی قوت اور غاصبوں کی کمزوری کی علامت ہے۔
دو نکتے
اس سلسلے میں مقاومت کی حصول یابیوں میں دو اہم نکتے ہیں جو غاصب ریاست کے زوال و انحطاط کے تناظر میں قابل تشریح ہیں:
ایک نکتہ یہ کہ فلسطینیوں، اور بالخصوص فلسطینی اور علاقائی مقاومت کے اندر اسرائیل سے خوف مکمل طور پر زائل ہوچکا ہے؛ اور دوسرا نکتہ یہ کہ فلسطین سمیت مغربی ایشیا کی مقاومتی تحریکوں اور تنظیموں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ “غاصب اسرائیل کو جنگ میں شکست دی جا سکتی ہے”۔ اور یہ دو نکتے صہیونیوں کی پالیسیوں اور منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔
تمام تر فلسطینی مردوں اور خواتین کا غاصبوں اور قابضوں کے مقابلے میں میدان میں آنا – جو مستقبل میں جدوجہد اور مقاومت کی مزید وسعت اور طاقت کا موجب ہے – بھی صہیونیوں کے زوال کے امکانات کو تقویت پہنچا رہا ہے۔ نیز فلسطینی خواتین اور بچوں کی شہادت نے عالمی سطح پر صہیونیوں کی مخالفت کو ہوا دی ہے، حتی کہ صہیونیوں کے اندر بھی اس صہیونی جبر کی مخالفت سامنے آنے لگی ہے۔
جاری
تبصرہ کریں