خطے میں اسلامی بیداری کی تحریکوں نے مقاومت اور مسئلہ فلسطین پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: خطے میں اسلامی بیداری کی تحریکوں نے مقاومت اور مسئلہ فلسطین پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں؟ کیا اسلامی بیداری کی تحریکوں نے غاصب اسرائیلی ریاست کے زوال کی رفتار کو تیز تر کردیا ہے اور مسلمانوں کی زیادہ توجہ کو فلسطین کی طرف مبذول کرا سکی ہیں؟
سنہ 1914ع سے پہلے “فلسطین” کی اصطلاح کا اطلاق – کسی معینہ قلمرو کا احاطہ کئے بغیر شام کے جنوب مغربی حصے – پر ہوتا تھا اور سلطنت عثمانیہ کے زیر انتظام صوبوں میں شامل تھا؛ اور اس سرزمین کے زیادہ تر باشندے عرب مسلمان تھے جبکہ عیسائیوں اور یہودیوں کی چھوٹی چھوٹی اقلیتیں بھی قدیم الایام سے یہاں – بطور خاص قدس [اورشلیم = یروشلم] میں – آباد تھیں۔
یہ شہر اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے ہاں مذہبی اعتبار و اہمیت کا حامل ہے؛ یہاں تک کہ ان تینوں مذاہب کے پیروکار تاریخی اور مذہبی مسائل کی بنا پر اس شہر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بہرحال جس علاقے پر آج لفظ “فلسطین” کا اطلاق ہوتا ہے اس کی غالب اکثریت عرب مسلمانوں پر مشتمل تھی اور اس کی سرحدیں مصر، اردن، شام اور لبنان سے ملتی ہیں۔ سنہ 1919ع میں انگریزوں نے نیشنز لیگ سے اس علاقے کی سرپرستی (guardianship) حاصل کر لی۔ تب ہی اس کی حدود متعین ہوئیں۔
بعدازاں فلسطینی قوم کی اصطلاح کا اطلاق بھی ان لوگوں پر ہؤا جنہوں نے اس سرزمین پر برطانیہ کے تسلط کے بعد برطانویوں اور یہودی پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا۔ غاصب ریاست کی تاسیس سے پہلے برطانیہ نے اس سرزمین کو “صہیونی ایجنسی” نامی یہودی تنظیم کے حوالے کیا اور سنہ 1948ع میں برطانیہ اور امریکہ کی تحریک پر نومولود “اقوام متحدہ” نے اپنے پہلے مشن کے طور فلسطین میں – اور فلسطینی قوم کی موجودگی میں – باضابطہ طور پر اسرائیل نامی ریاست کے قیام کو تسلیم کیا اور عرب اسرائیل جنگ کے خاتمے پر سرزمین فلسطین کا 77 فیصد حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
بہرحال فلسطین مشرقی وسطیٰ میں مسلمانوں کے تشخص کے بنیادی اجزاء میں سے ایک ہے جو اسلامی بیداری کی لہر کے بنیادی سرچشموں میں شامل ہے۔
مذہبی اور سیاسی جہتوں کے علاوہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کے وقار اور تشخص کا مسئلہ بھی بنا ہؤا ہے، چنانچہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے میں ناکامی عرب حکمرانوں کی ناکامی نے ان کی قانونی حیثیت کو مجروح کرکے رکھا ہے اور یہ مسئلہ امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے مقابلے میں مسلمانوں کے درمیان وسیع پیمانے پر مایوسی، اضطراب اور خفت و ذلت کے احساس اور شدید بے چینی کا باعث بنا ہؤا ہے۔
اسی بنا پر یہودی مؤرخ برنارڈ لیوس (Bernard Lewis)، مسئلہ فلسطین کو عرب اور اسلامی دنیا کے لیے ناقابل برداشت تذلیل و تحقیر سے تعبیر کرتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگ مسئلہ فلسطین کو اسلامی بیداری کی دوسری لہر (1945-1979) کا آغاز سمجھتے ہیں اور مسئلہ فلسطین کو اسلامی تحریکوں کی دوسری ترجیح قرار دیتے ہیں۔ رہبر معظم نے بھی علمائے کرام اور اسلامی بیداری کے عالمی سربراہی اجلاس میں فرمایا: “اسلامی بیداری کی تحریکوں کے راستے کی درستی کی کسوٹی فلسطین کے بارے میں ان کا موقف ہونا چاہئے”۔ [دیکھنا چاہئے کہ مسئلۂ فلسطین کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے، تک ہی فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس کی راہ و روش صحیح ہے یا کہ نہیں]۔
فلسطین کا مسئلہ زمین پر قبضے اور سلطنت عثمانیہ کی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد فلسطین کے بطور ایک اسلامی مملکت کے مسئلے سے بڑھ کر ہے، جیسا کہ شام اور لبنان بھی ایسے ہی ہیں؛ حقیقت یہ ہے کہ اس بحث کا ایک بنیادی پہلو اسلامی بین الاقوامیت اور بین المذاہب کا مسئلہ ہے جو تہذیبی نقطہ نظر سے یہ دوسری قوموں اور تہذیبوں کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کی عظمت و قوت کی یاددہانی کراتا ہے۔
اسلامی بیداری بھی ممالک کے اندرونی سیاسی اور سماجی مسائل سے بڑھ کر ہے اور بیداری کی تحریکوں کا مشترکہ نقطہ دینی اور اسلامی رجحانات ہیں۔ یوں یہ اسلامی دھارے تاریخ کی وسعتوں میں ایک دوسرے سے متصل ہوجاتے ہیں اور اسلامی تہذیب کی عظمت و عزت کی یاددہانی کراتی ہیں۔
اصولی طور پر مقاومت تحریک بھی اسلامی بیداری ہی سے جنم لیتی ہے کیونکہ بصورت دیگر صہیونیوں کے مطالبات مانے جاتے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا۔ اسلامی سرزمینوں اور اقدار پر یلغار کرنے والوں کے سامنے جم جانے اور تحریک چلانے کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کا جذبہ دینی و مذہبی ہے اور وہ اس کے پابند ہیں اور وہ ان اقدار کے احیاء کے لئے جدوجہد کی صعوبتیں جھیلنے پر رآضی ہیں۔
اگر امت مسلمہ “تہذیبی غفلت” سے دوچار ہوں تو یہ بات مہمل ہوگی کہ مسلمان امت کے احیاء اور اپنی مذہبی-تہذیبی میراث کے تحفظ کی خاطر کیل کانٹے سے لیس اور بڑی طاقتوں کی حمایت یافتہ طاقت کے خلاف جدوجہد کریں اور سازباز سے دور رہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ عرب-اسرائیل تنازعہ جو 1936ع – 1939ع کے دوران سیاسی جماعتوں کی عام ہڑتال کے دوران ہی عروج کو پہنچا تھا، اخوان المسلمین کی حکمت عملی کی تبدیلی کا سبب بنا، اور یہ جماعت یوتھ کلب سے ایک طاقتور سیاسی قوت میں تبدیل ہوئی۔ اور اس کے ارکان اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنے نظریئے کی تشریح کے ضمن میں اس حقیقت کی تائید کریں کہ اسلام ایک ہمہ جہت نظریئے میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سنہ 1967ع کی جنگ میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو اسلام پسند تحریک بھی شدت پسندی کی طرف مائل ہوئی۔ عربوں [اور مسلمانوں کی] اس شرمناک شکست نے البتہ اس حقیقت کو بھی آشکار کردیا کہ ایک صدی پر محیط مغربی جدیدیت اور اسلام کو مٹانے کی سو سالہ سازشوں اور منصوبوں کے باوجود مغرب اور عالم اسلام کے درمیان طاقت کے توازن کی ناپسندیدہ بگاڑ پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے اور یہی نہیں بلکہ مغرب اور عالم اسلام کے درمیان طاقت کی دراڑ مزید گہری ہوگئی ہے اور اسلامی ممالک پر بیرونی جارحیتوں میں اضافہ ہؤا ہے۔
گویا یہ صورت حال عربوں سے کہہ رہی ہے کہ عروبت (یا عربیب) اسلام سے الگ ہوجائے تو وہ ایک خالی برتن اور بے جان جسم سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور ان کی بقاء کا راز امت مسلمہ کی تقویت میں مضمر ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے فلسطینیوں کے اتحاد کا سبب “عربیت” تھی لیکن اس کے بعد اسلام ہے جو مجاہدین کو متصل کرتا ہے، جس کا سبب یہ ہے اسلامی انقلاب اسرائیل کا دشمن ہے اور اسرائیل کے بڑے حامی (شاہ) کو نابود کر چکا ہے۔
یعنی یہ کہ اسلامی بیداری نے فلسطین کو عربیت کی قید سے نکال کر امت مسلمہ میں اہم مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور اس کو کسی ایک قوم یا سرزمین کے دائرے سے نکال کر آفاقی بنایا ہے۔ چنانچہ اسلامی بیدری نے مقاومت کے ماڈل کو تقویت پہنچائی اور فلسطین کو ایک سرزمین یا نسل و قوم کے دائرے سے نکال کر اسلامی تہذیب و تمدن کے مرکزی مسئلے کی حیثیت عطا کی۔
جاری
تبصرہ کریں