امریکہ کے زوال کا اسرائیل کے زوال سے کیا تعلق ہے؟

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد - جس نے فلسطین کو ایک بار پھر بین الاقوامی مسئلے میں تبدیل کر دیا - حالیہ دہائیوں میں مقبوضہ سرزمین پر قائم غاصب ریاست کی عملداری میں نہ امن و سکون ہے اور نہ ہی خوشحالی۔ حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت اور صہیونی ریاست کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں صہیونی ریاست کا اندرونی محاذ نشانے پر رہا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

اس میں شک نہیں ہے کہ امریکہ کا زوال اسرائیل کے زوال پر بلا واسطہ اثرات مرتب کر رہا ہے؛ کیونکہ غاصب اسرائیل کی بقاء اور کامیابیوں میں امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں کی مدد بنیادی کردار ادا کرتی تھی۔ صہیونی فوج امریکی، برطانوی اور فرانسیسی ہتھیاروں اور گولہ بارود سے وابستہ ہے۔ 33 روزہ جنگ میں صہیونیوں کے گولہ بارود کے گودام کئی مرتبہ خالی ہوئے اور امریکہ نے بھاری طیاروں کے ذریعے ان کی کمی پوری کردی۔ امریکہ کی سالانہ کے حساب سے اربوں ڈالر کی امداد نے صہیونی فوج کو سنبھالا دیئے رکھا تھا۔
امریکہ کو گذشتہ سال ان ہی دنوں اربوں ڈالر کے ہتھیار چھوڑ کر نہایت ذلت آمیز انداز سے افغانستان سے فرار ہونا پڑا؛ امریکہ کے جو یار تھے وہ امریکہ پر اعتماد کھو گئے، اور امریکیوں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی، اسرائیل سمیت کئی دوسرے امریکی حواری مایوسی کا شکار ہوئے۔ غاصب ریاست پر اس امریکی شکست کے اثرات دوسروں سے کہیں زیادہ تھے۔ امریکی ہیبت کے سہارے رعب جمانے والی اسرائیلی ریاست کا دبدبہ بھی خاک میں مل گیا۔ ہم سب نے دیکھا کہ امریکی، صہیونی ریاست، صہیونیوں اور مغربیوں کے عرب حواریوں اور پورے یورپ نے شام کے قانونی حکومتی نظام ختم کرکے اس ملک کو ٹکڑیوں میں تقسیم کرنے کی کوششیں کیں، لیکن محور مقاومت نے ان کی کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنایا۔ اس دوران امریکہ نے کئی مرتبہ شام پر حملے کا اعلان کیا لیکن اسے یہ اعلان — امریکی استعماری تاریخ میں پہلی مرتبہ ۔۔۔ واپس لینا پڑا! جس سے اس کی ساکھ مجروح ہوئی اور اس کے حواری مشکل حالات میں امریکہ کی بروقت امداد سے مایوس ہوگئے۔
شام کے خلاف مغرب اور اسرائیل کی جنگ اور حالیہ برسوں میں داعش کے نام پر عظیم ترین امریکی سازش ناکام ہوئی۔ ان واقعات نے یہ دو ٹوک پیغام دنیا والوں تک پہنچایا کہ کہ امریکہ مزید وہ طاقت نہیں رہی ہے جس کا وہ دعویٰ کر رہی تھی۔ جب آقا کا حال یہ ہو تو غلاموں کا حال کیا ہوگا؟ چنانچہ سب سے پہلے اس صورت حال نے سب سے پہلے جعلی ریاست اسرائیل کو متاثر کیا؛ اور حتیٰ اسرائیل اور امریکہ نیز ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تناؤ کی کیفیات سامنے آئیں۔ اسرائیل کو اندرونی لحاظ سے عدم استحکام کی بدترین صورت حال کا سامنا ہے، چار سال کے عرصے میں پانچویں انتخابات کا اعلان ہؤا ہے اور مستحکم حکومت تشکیل نہیں پا سکی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ بہت سے مواقع اور مقامات پر صہیونی ریاست کی حمایت نہیں کر سکتا گوکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیلی ریاست بھی اپنی تشکیل کے فلسفے کے مطابق مغربی مفادات کا تحفظ کرنے سے عاجز ہو چکی ہے۔ البتہ غاصب اسرائیل کچھ عرب ریاستوں کی طرح، ہنوز امریکہ سے “سوپر پاور” یا “واحد سوپر پاور” کا کردار ادا کرنے اور اس ریاست کی حمایت میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کرنے کی توقع رکھتی ہے؛ لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ میں اب ان صلاحیتوں کا فقدان ہے جو وہ انہیں بچانے کے لئے بروئے کار لاتا تھا؛ امریکہ ماضی والا امریکہ نہیں ہے؛ امریکہ کو ان حمایتوں کے عوض بہت بڑی قیمت چکانا پڑی ہے؛ اور شاید اس کے زوال کے اسباب میں سے ایک اسرائیل کی حمایت ہی ہے۔ چنانچہ یہ کہنے کے لئے مزید کوئی سند و ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکہ کا زوال اسرائیل کے زوال پر براہ راست اثر رکھتا ہے۔
صہیونی ریاست کا زوال کن شعبوں میں زیادہ نمایاں ہے؟
جعلی اسرائیل میں بہت سے شعبوں میں زوال کے اثرات نمایاں ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے اندر ہی متعدد ماہرین، مبصرین، سیاستدان، قلمکار اور حتیٰ کہ اسرائیلی حکام، کا اعتراف ہے کہ اسرائیل کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہودی ایجنسی نے دو چیزوں جھانسہ دے کر یہودیوں کو فلسطین میں آنے پر آمادہ کیا تھا؛ 1۔ خوشحالی، 2۔ امن و سلامتی۔ ایجنسی نے دنیا کے یہودیوں سے کہا تھا کہ “اگر تم اپنے آبائی وطن چھوڑ کر ارضِ موعود (فلسطین) میں آؤگے تو اپنے وطن سے کہیں زیادہ امن و خوشحالی سے ہم کنار ہوجاؤگے، کیونکہ تم اپنے آبائی ملکوں میں مطلق اقلیت ہو، لیکن صہیونی ریاست میں اکثریت تمہاری ہوگی، اور ایک بہت طاقتور فوج تمہاری حفاظت کرے گی”۔
لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد – جس نے فلسطین کو ایک بار پھر بین الاقوامی مسئلے میں تبدیل کر دیا – حالیہ دہائیوں میں مقبوضہ سرزمین پر قائم غاصب ریاست کی عملداری میں نہ امن و سکون ہے اور نہ ہی خوشحالی۔ حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت اور صہیونی ریاست کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں صہیونی ریاست کا اندرونی محاذ نشانے پر رہا ہے۔
اصولی طور پر سنہ 2006ع‍ کی 33 روزہ جنگ کے بعد ہی صہیونی ریاست کا اندرونی محاذ کھل گیا۔ 2006ع‍ سے پہلے صہیونی ریاست کو اس بات پر فخر تھا کہ اس کی تاسیس سے لے کر اب (2006ع‍ کے آغاز) تک کوئی بھی اس ریاست کے اندر تک حملہ نہیں کر سکا ہے اور یہ ریاست جنگوں کو ہمیشہ پڑوسی ممالک کی حدود میں لڑتی رہی ہے۔ 33 روزہ جنگ میں غاصب ریاست کے بہت سے علاقے حزب اللہ کے میزائلوں کا نشانہ بنے اور اس کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ کئی جنگوں میں بھی غاصب یہودیوں نے پناہ گاہوں میں طویل عرصہ گذار کر بمباریوں اور میزائلوں کے حملوں کا نشانہ بننے کا مزہ چکھ لیا اور اپنے گھروں اور فوجی اور سرکاری ٹھکانوں کو تباہ ہوتے دیکھا اور انہیں پہلی مرتبہ اپنے غاصب باشندوں کی لاشیں اٹھانا پڑیں؛ جبکہ اس سے پہلے پڑوسی ممالک اور مسلم عرب اقوام کو یہ تمام مصیبتیں برداشت کرنا پڑتی رہی تھیں۔
چنانچہ 2006ع‍ کے بعد غاصب ریاست کو اندرونی محاذ کی تقویت پر توجہ مبذول کرنا پڑی۔ تاہم صہیونی فوجی اور سیکورٹی اداروں کو بےشمار فوجی مشقوں کے دوران معلوم ہؤا کہ اندرونی محاذ کی کمزوریاں دور کرنا گویا ممکن نہیں ہے؛ چنانچہ اس کا امن و سکون کا وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔
معاشرہ سازی ایک ریاست کا بنیادی جزو ہے لیکن غاصب ریاست کو دنیا بھر کو ان یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین منتقل کرنا پرا جو غیر متجانس تھے، مختلف ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھتے تھے جن سے بے شمار ٹکڑیوں سے تشکیل یافتہ موزائیک معاشرہ (Mosaic society) تشکیل پایا، جس کے اجزاء بالکل متفاوت اور زبان اور رنگ و نسل کے لحاظ سے بالکل مختلف ہیں، اور اب غاصب ریاست کے اندر ان ٹکڑیوں کے درمیان نسلی امتیازی رویے دکھائی دے رہے ہیں۔ مثال کے طور ایتھوپیا سے آنے والے فلاشا یہودی ہر وقت نسلی امتیاز کا بنتے آ رہے ہیں، کیونکہ یہودی تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی یہودی سیاہ فام بھی ہو سکتا ہے! اور پھر روسی یہودی، یورپی یہودی، جنوبی امریکی یہودی، ایشیائی یہودی اور افریقی یہودی بھی ہیں جن کے درمیان مختلف قسم کے نسلی تنازعات چل رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ صہیونی ریاست میں مختلف ممالک سے آنے والے یہودیوں کی اپنی اپنی سیاسی جماعتیں ہیں اور ان جماعتوں نے صہیونی ریاست کے سیاسی نظام کو زد پذیر کر دیا ہے۔ یہ جماعتیں اتنی زیادہ ہیں کہ صہیونیوں کے کم آبادی ولے معاشرے میں اب کوئی بڑی جماعت بنانا ممکن نہیں ہے لہٰذا کوئی بھی جماعت دوسروں سے اتحاد کئے بغیر حکومت تشکیل دینے پر قادر نہیں ہے؛ اور اتحادی حکومتیں بھی دیرپا نہیں ہیں اور حکومتیں اپنی چار سالہ مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی تحلیل ہو جاتی ہیں؛ اتحاد بھی تحلیل ہو جاتے ہیں اور دوبارہ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا اعلان کرنا پڑتا ہے؛ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریاست اندر سے عدم استحکام اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہاں کی اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمان کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود اتحاد سے الگ ہو کر حکومت کی تحلیل کے اسباب فراہم کر سکتے ہیں؛ اور یہ کسی حکومت کے لئے المیے سے کم نہیں ہے۔
مذکورہ بالا صورت حال کے ہوتے ہوئے، صہیونی ریاست کی بقاء کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، نئے پناہ گزینوں کے مقبوضہ فلسطین میں آنے کی طرف راغب کرنا، ناممکن ہو جاتا ہے؛ ان حقائق کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ اسرائیل رو بہ زوال ہے۔ صہیونی کسی وقت غزہ اور لبنان پر آسانی سے حملہ کر سکتے تھے لیکن آج – امام خامنہ ای کے مطابق، – مار کر بھاگنے کا دور گذر گیا ہے اور ہر چھوٹے بڑے اقدام کا پورا پورا حساب دینا پڑتا ہے۔ جعلی ریاست سنہ 2006ع‍ کے بعد لبنان پر حملے کی ہمت نہیں کر سکی ہے؛ غزہ کے مجاہدین کی سیف القدس نامی کاروائی کے بعد، اسے غزہ کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتا ہے اور آخرکار بھی فیصلہ یہی ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی کاروائیوں کا جواب نہ دیا جائے اور مسئلے کے بھلا دیا جائے۔ اب حالیہ تین روزہ جنگ میں ایک چھوٹی سی مجاہد جماعت “جہاد اسلام” کے ہاتھوں پٹائی کے بعد تو اسے مزید خفتیں اٹھانا پڑیں گی۔ صہیونی اس وقت اس مکمل یقین تک پہنچ گئے ہیں کہ حتی اگر ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ بھی لڑنا پڑے تو اسے ہزاروں نئے میزائلوں کی بارش کا سامنا کرنا پڑے گا۔