یہود شہید مطہری کی کاوشوں میں- 2

بنی نوع انسان کی شہ رگوں پر یہودیوں کا تسلط

قرآن کی گواہی کے مطابق، یہودی تحریف اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ آج پہلے سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 

1۔ یہودیوں نے دنیا پر مصائب کے پہاڑ توڑے ہیں۔
2۔ قرآن کی گواہی کے مطابق، یہودی تحریف اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ آج پہلے سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔
3۔ یہودی شاید دنیا کے ذہین ترین لوگ ہوں، ایک بہت زیادہ ذہین نسل جو انتہائی جھوٹی، جعل ساز اور دھوکے باز ہے۔ [ذہانت کو جعل سازی اور دھوکہ دہی پر صرف کرنے والے لوگ]۔
4۔ اس ذہین مگر جعل ساز اور فریبی قوم کا ہاتھ ہمیشہ سے انسانی برادری کی شہ رگ پر رہتا ہے، اور یہ ہمیشہ دنیا کی معاشی اور ثقافتی شہ رگوں پر مسلط ہوتی ہے۔
5۔ آج کے زمانے میں [یعنی کم از کم 50 سال قبل] دنیا کے بڑے خبر رساں اداروں – جو بنی نوع بشر کی بہت اہم شہ رگ ہے – کی باگ ڈور یہودیوں کے ہاتھ میں ہے؛ اس لئے کہ وہ دنیا کو ہر وہ بات پہنچا سکیں جو وہ چاہتے ہیں اور جو ان کے مفاد میں ہے۔
6۔ ہر ملک میں یہودیوں کی کوشش رہتی ہے کہ ان شہ رگوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیں: جنہیں آج کے زمانے میں اجتماعی رابطے ذرائع، اخبارات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ ہر اس ادارے اور ہر اس چیز پر قابض ہونے چاہتے ہیں جن کے ذریعے سے افکار کو بدلا جا سکتا ہے، مروڑا جا سکتا ہے، اپنی مرضی کے افکار و عقائد کی ترویج کی جاسکتی ہے، نیز معاشی شہ رگیں، [جن پر یا تو قابض ہیں یا پھر قابض رہنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
7۔ قدیم الایام سے ان کا کام یہی تھا۔ خدائے متعال قرآر کریم میں ارشاد فرماتا ہے: “أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ؛ کیا تمہیں اس کی توقع ہے کہ یہ تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو اللہ کا کلام سنتے ہیں اور پھر اسے سمجھنے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کر دیتے ہیں”۔ (سورہ بقرہ، آیت 75)۔
یعنی اے مسلمانو! کیا تم ان سے ایمان لانے کی توقع رکھتے ہو؟ کیا تم انہیں نہیں جانتے ہو؟ یہ وہ لوگ ہیں (یعنی آج بھی ان کی روح وہی پرانی روح ہے، ورنہ برے باپ کی اولاد لازماً بری نہیں ہوتی، انھوں نے اپنے اجداد کی روح کو آج تک اپنے اندر محفوظ رکھا ہؤا ہے)، یہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بھی تو تھے؛ اور اس وقت بھی یہ اللہ کا کلام سنتے تھے لیکن جب پلٹ کر آتے تھے تو اللہ کے کلام کو اپنی مرضی سے بدل دیتے تھے۔ اور یہ کام وہ انجانے میں نہیں کرتے تھے بلکہ سمجھ بوجھ کر اور حقیقت کا ادراک کرکے، ایسا کرتے تھے۔ [مسلمانوں کو یاددہانی کرائی جا رہی ہے کہ یہ آج بھی جھوٹے، فریبی اور اللہ کا کلام بدلنے والے اور ناقابل اعتماد ہے جن سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی، اور جو ان کے ساتھ سازباز کرتے ہیں اور ان سے خیر کی توقع رکھے، وہ امت کے غدار ہیں]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد شہید مرتضی مطہری، سیری در سیرۂ نبوی (سیرت نبویہ میں ایک سفر)، ص137-138۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔