تحریف یہودیوں کا ہزاروں سال پرانا شیوہ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ:
1۔ تحریف اور حقائق کی الٹ پلٹ کئی ہزار سالوں سے یہودیوں کی بنیادی اوصاف و خصوصیات میں شامل رہی ہے۔
2۔ یہ لوگ ہر قوم میں پہنچ کر ان ہی کے بھیس میں اور ان ہی کے طرز زندگی اپنا کر، ظاہر ہوتے ہیں، اور اپنے افکار اعتقادات کو اسی قوم کے لوگوں کی زبان سے عوام میں پھیلا دیتے ہیں؛ اپنے عزائم [اور خفیہ دسیسوں) کو ان ہی لوگوں کی زبان سے بیان کرتے ہیں۔
3۔ وہ عرصہ دراز سے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اختلاف و انتشار پھیلانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، لیکن وہ خود آ کر اپنے یہ عزائم اپنی زبان سے ہرگز بیان نہیں کرتے، مثال کے طور پر ایک سنی [یا شیعہ] کا اعتماد حاصل کرکے، اس کے ذریعے سے اپنی بات کر ڈالتے ہیں، مثلا ایک سنی شخص اچانک وہی باتیں کرنے لگتا ہے اور جہاں تک ممکن ہو شیعیان اہل بیت پر بہتان تراشی کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ [وہ کچھ جو یہودی کہلوانا چاہتا ہے]۔
4۔ بلا شبہ حقیقت کا دفاع ضروری ہے اور جھوٹ اور فریب کو بہرصورت مسترد کرنا چاہئے، لیکن یہودی مسلمانوں میں نفوذ کرکے مثال کے طور پر “الخطوط العریضہ” نامی کتاب کے مؤلف (محب الدین الخطیب) کو ڈھونڈ نکالتے ہیں، تاکہ وہ بھی آگر آکر چار پانچ جھوٹی نسبتیں خود بھی اہل تشیع پر دھر لے۔ یہودی اِس کی زبان سے اُس پر اور اُس کی زبان سے اِس پر جھوٹ منڈھتے ہیں۔
5۔ یہودیوں کی یہ خصوصیت اتنی گہری ہے کہ انھوں نے اپنی توریت کو اس طرح کے جھوٹوں سے بھر دیا ہے۔ مثال کے طور پر سابقہ امتوں کی داستانوں کو توریت نے ایک انداز سے نقل کیا ہے اور قرآر کریم نے دوسرے انداز سے، انھوں نے تورات میں ان داستانوں تک کو الٹ پلٹ دیا ہے اور قرآن میں جب دیکھا جاتا ہے تو ان قصوں اور داستانوں میں یہودیوں کی تحریف بالکل آشکار ہو جاتی ہے۔
6۔ قرآن میں تحریف ممکن نہ تھی چنانچہ انھوں نے قرآن کریم کو – العیاذ باللہ – جھٹلانے کی کوشش کرتے ہوئے کچھ احادیث اور روایت گھڑ لی ہیں اور انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، ائمہ طاہرین (علیہم السلام) یا پھر بعض صحابہ سے نسبت دی ہے، اور قرآنی قصوں میں تحریف کرکے انہيں تحریف شدہ توریت سے مطابقت دینے کی کوشش کی ہے، اور یہ کام انھوں نے اپنی مہارت سے سرانجام دیا ہے، کہ کوئی یہ نہ سمجھ سکے کہ حقیقت کیا ہے۔
7۔ قوم عمالقہ (Amalek) کے بارے میں ان کی تحریف شدہ رپورٹ یا روایت – جو عبرت آموز بھی ہو سکتی ہے – یہودی تحریف کا شاہکار کہلا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد شہید مرتضی مطہری، سیری در سیرۂ نبوی (سیرت نبویہ میں ایک سفر)، ص138۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں