سعودی اپوزیشن راہنما:

سلمان اور ان کا بیٹا برائی کی جڑ ہیں / محمد بن نائف کو الٹا لٹکایا گیا

سلمان اور ان کا بیٹا برائی کی جڑ ہیں / محمد بن نائف کو الٹا لٹکایا گیا / حرم نبوی کے آس پاس فحاشی کے اڈے قائم کئے گئے / مغربی-سعودی ذرائع ایرانی بلؤوں کو الٹ پلٹ کر پیش کرتے ہیں / سعودی ریاست 12 سالہ بچے کو تلوار سے سر قلم کرنے کی دھمکی دیتی ہے / فیس بک میں پوسٹ لائیک کرنے پر پھانسی کی سزا / مکہ اور مدینہ کے اراضی کی یہودیوں کو فروخت / امریکی ریاض اور ولی عہد پر مسلط ہیں

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سعودی اپوزیشن راہنما علی بن ہاشم نے العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایم بی ایس (محمد بن سلمان) کے مبینہ ترقیاتی پروگرام ایک وہم کے سوا کچھ نہیں ہے؛ ایم بی ایس نے سرزمین وحی کو صہیونیوں کی جولانگاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔
علی بن ہاشم ایم بی ایس حرمین کی زمینیں یہودیوں کو بیچ رہے ہیں اور سعودی ریاست قبل ازیں انتہاپسندی کی ترویج کے لئے مذہبی مبلغین کو استعمال کرتی تھی اور اب صہیونی ریاست کے تعلقات کی بحالی کے لئے بے پردگی کا اوزار استعمال کر رہی ہے۔ سعودی ریاست نے غاصب یہودی ریاست کے ساتھ تعقات معمول پر لانے کے لئے اس ریاست کے ساتھ وسیع پیمانے پر اقتصادی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔
انھوں نے کہا: سعودی ریاست نے ایک پوسٹ کے لائیک کرنے پر ایک 15 سالہ بچے کو پھانسی کی سزا سنائی ہے- سعودی عملداری میں بے شمار کم سن بچے اسیر بنائے گئے ہیں اور بہت سوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے لیکن مغربی ممالک اور ذرائع ابلاغ انسانی حقوق کی اتنی وسیع خلاف ورزی پر [مجرمانہ] خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
انٹرویو کی تفصیل:
سوال: سعودی ریاست کے بارے میں بہت سارے مسائل پر بات کی جا سکتی ہے۔ ہم انسانی حقوق سے شروع کرتے ہیں: انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے، کیا آپ ان رپورٹوں کو درست مانتے ہیں؟ کیا سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کی تعداد بتا سکتے ہیں؟

جواب: سنہ 2018ع‍ میں سعودی قیدخانوں میں سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں قید کئے جانے والے افراد کی تعداد 54000 سے 58000 تک تھی۔ سعودی حکام نے الشرقیہ کے علاقے شیعہ آبادیوں پر اور جنوب میں زیدیہ اور اسماعیلیہ آبادیوں، مختلف علاقوں میں اعتدال پسند سنی علماء نیز اعتدال پسند اور حتی کہ انتہاپسند سلفی علماء پر بےشمار حملے کئے ہیں، اور مذہبی یا سماجی حوالے سے ہر با اثر شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان میں مختلف اقوام و مذاہب کے دانشور، مصنفین، صحافی، اور ثقافتی اور سیاسی، سماجی اور مذہبی تعلیمات کے مروجین شامل ہیں۔ یہاں تک کہ اس وقت یہ سرزمین مفید اور لائق افراد سے خالی ہو چکی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کے بعد سیاسی کارکنوں کی گرفتاری
سوال: عدالتوں کی طرف سے ان 58 ہزار افراد پر کیا الزامات لگائے گئے ہیں؟
جواب: سعودی عرب میں الزامات محدود اور رائج ہیں: ولی امر کے خلاف خروج، دہشت گرد ٹولوں سے وابستگی، غیر ملکی انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطہ وغیرہ۔ مثلا شیخ حسن فرحان المالکی نے کویت کے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا تو انہیں “دشمن کے ساتھ سازباز” کا ملزم ٹہرایا گیا؛ اور العالم چینل کے ساتھ گفتگو کے بعد ان پر دہشت گرد جماعتوں کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا گیا۔
انسانی حقوق کی سرگرم خاتون کارکن لوجین ہذلول الہذلول (Loujain al-Hathloul) جو ہیلسنکی میں انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ تعاون کرتی تھیں، پر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا گیا۔ یعنی ہر وہ چیز جو سعودی ریاست پر تنقید یا انسانی حقوق کے مطالبات پر مشتمل ہو، سعودی قانون میں دہشت گردی سمجھی جاتی ہے۔
سعودی عرب کے کسی بھی قیدخانے میں وکیل نہیں ہوتا!
سوال: کیا سعودی قانون میں ملزمین کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے؟
جواب: جی ہاں! وہ وکیل کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں مگر وکیل کو فوری طور پر گرفتار کیا جاتا ہے۔ ہم نے قطیف کے گرفتار افراد کے اہل خانہ سے رابطہ کیا ہے لیکن انھوں نے کہا کہ کوئی بھی وکیل ان کی وکالت اپنے ذمے لیتا ہے، فوری طور پر گرفتار اور اس کا لائسنس منسوخ کیا جاتا ہے۔ یا پھر سیکورٹی ادارے اسے گرفتاری کی دھمکی دیتے ہیں؛ اور آخرکار اور اس کا دفتر بھی بند کیا جاتا ہے۔
کسی بھی سیاسی قیدخانے میں وکیل کا انتظام نہیں ہے۔ طٰہٰ الحاجی واحد وکیل تھے جنہوں نے سیاسی اسیروں کے سلسلے میں کام کیا ہے اور انہیں جرمنی میں پناہ لینا پڑی ہے۔ انھوں نے معاوضہ لئے بغیر 2011 سے 2015 تک شہید النمر اور بعض دوسرے شیعہ اور سنی اسیروں کی وکالت کی تھی لیکن ان پر الزام لگایا گیا کہ گویا انہیں بیرونی حمایت حاصل ہے، چنانچہ انہیں سعودی عملداری سے نکلنا پڑا اور انھوں نے علی الدبیسی اور عادل السعید سمیت القطیف کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کی ایک تنظیم قائم کر لی۔
بحرینی خلیفی حکومت کے خلاف مظاہرے کے جرم میں 12 سالہ بچہ گرفتار
سوال: حال ہی میں سیاسی اسیروں کے ساتھ ساتھ کم سن بچوں کو پھانسیاں دینے کے سلسلے میں اضافہ ہؤا ہے؛ ایک 14 یا 15 سالہ بچے پر سعودی عدالت میں کس قسم کا الزام لگایا جاتا ہے؟ کیا ان پر بھی ولی امر کے خلاف خروج یا شہزادے کی عدم اطاعت الزام لگایا جاتا ہے؟
جواب: آپ کی بات کی اصلاح کرنا چاہوں گا کیونکہ سب سے کم عمر قیدی القطیف کا رہائشی 12 سالہ بچہ ہے جو سنہ 2012ع‍ میں والدین کے ساتھ تفریح کے لئے بحرین کے سفر پر تھا، اور وہاں خلیفی حکمرانی کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی؛ اور وطن واپس آیا تو بحرین کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور اس وقت سعودی قیدخانے میں ہے۔
السبیتی سمیت آٹھ بچوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے جن کی عمریں 12 سے 15 سال کے درمیان ہیں: سب سے چھوٹا 12 سالہ اور سب سے بڑا 15 سالہ۔
ان بچوں کی عمریں آج 20 سال سے اوپر ہیں۔ ان پر دہشت گرد حلقہ تشکیل دینے اور ولی امر کے خلاف خروج کا الزام دھرا گیا ہے۔ ان میں سے ایک پندرہ سالہ بچے پر الزام ہے کہ اس نے 10 سال قبل “مردہ باد آل سعود” کے عنوان سے ایک پوسٹ کو لائیک کیا تھا۔ اس کو پانچ سال قبل گرفتار کیا گیا تھا اور اور اب اس کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
ایم بی ایس کی اصلاحات کی حقیقت
سوال: انسانی حقوق کے حوالے سے ہی، ایم بی ایس کے اصلاحی پروگرام کا تذکرہ آتا ہے، کیا یہ قوم کے مفاد کے لئے ایک حقیقی منصوبہ ہے؟
جواب: سنہ 2016ع‍ سے سعودی عرب میں اصلاحات، ترقی اور وژن 2030 کا افسانہ سنایا جا رہا ہے۔ سعودی وزیر اسکان (Minisyrt of Housing) نے 2016ع‍ میں کہا تھا کہ 2020ع‍ میں کوئی بھی سعودی شہری بے گھر نہ رہے گا، لیکن آج 2022ع‍ ہے اور عجب یہ کہ کسی سعودی شہری کے پاس اپنا گھر نہیں ہے۔ بلکہ مذکورہ وزیر کے دعوے کے برعکس آج جدہ، مکہ، مدینہ اور القطیف کے باشندے بالکل بے گھر ہوچکے ہیں اور ان شہریوں کے گھر ویران کئے جا چکے ہیں جن کا پس اپنا گھر تھا۔
سعودی نے جدہ میں بہت سے محلات کو ویران کیا جس کی وجہ سے وہاں کے رہائشی بے گھر ہوگئے، اور انہیں معاوضہ اور ہرجانہ بھی نہیں دیا گیا۔ مدینہ اور مکہ میں بھی اس طرح کے واقعات بکثرت رونما ہوئے ہیں۔

 

جاری