سعودی میں انگریزی پالیسی، تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو

میرے خیال میں، بن نائف اور سابق بادشاہ عبداللہ امریکیوں کی من و عن اطاعت نہیں کرتے تھے، مثلا انھوں نے یمن کی پچھلی جنگ میں زمینی جارحیت سے اجتناب کیا۔ گوکہ سعودی طیارے یمن پر مسلسل بمباری کرتے تھے اور سعودی ادارے بھی جنگ کے حامی تھے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سعودی عرب نے یمن میں بھی وہی کچھ دہرانے کی کوشش کی لیکن یمنی عوام اللہ کے فضل سے عراق اور شام کے واقعات سے آگاہ تھے؛ انھوں نے اثنا عشری اور زیدی کے نام پر اور پھر ہاشمی اور غیر ہاشمی کے نام پر یمن میں فتنہ ڈالنے کی کوشش کی، علیحدگی پسندوں کی خدمات حاصل کیں، شمالی اور جنوبی یمن کے دیرینہ اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہا لیکن ناکام ہو گئے۔ اندرونی سطح پر سعودی ریاست الشریقہ کے عوام سے کہتی ہے کہ تم شیعہ ہو اس لئے ہمارے لئے ناقابل قبول ہو [کیونکہ حکومت وہابیوں کی ہے]، اور وہابی اور سنی تمہیں قتل کریں گے اور تمہاری خواتین کو قید کر لیں گے، اور سنیوں اور وہابیوں سے کہتے ہیں کہ تم آل سعود کی حکومت کو تسلیم نہیں کرو گے تو شیعہ ایران کی حمایت سے تمہیں مار ڈالیں گے اور تمہاری خواتین کو قید کر لیں گے!
وصال اور صفا نامی چینلز ریاض سے اپنے پروگرام نشر کرتے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ وصال ٹی وی کا ایک کلپ سائبر اسپیس پر گردش کر رہا ہے جس میں اینکر اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ اگر سعودی حکومت نہ ہوتی تو ہم القطیف اور الاحصاء کے شیعوں پر لشکر کشی کرتے اور نوزائیدہ بچوں کو بڑوں سے پہلے ذبح کرتے!
یہ اشتعال انگیزیاں حکومت کے اندر سے منظر عام پر آتی ہیں۔ ایک دفعہ ہم مدینہ جا رہے تھے، راستے میں القصیب سے گذرنا پڑ رہا تھا، کیونکہ مدینہ کی طرف کوئی سیدھا راستہ نہیں تھا۔ ایک جگہ پیٹرول ڈلوانے کے لئے کھڑے ہو گئے تو مسجد بھی قریب تھی۔ میں اور میرا دوست مسجد میں نماز کے لئے کھڑے ہو گئے، لیکن میں کچھ فکرمند سا ہؤا اور دوست سے کہا کہ چلئے نماز آگے جاکر کہیں پڑھتے ہیں۔ کیونکہ یہ علاقہ تشدد پسندی اور انتہاپسندی کے حوالے سے مشہور ہے، اور داعش کے اکثر مہرے یہیں پروان چڑھے ہیں۔ میرے دوست نے نماز پڑھنے پر اصرار کیا اور میں باہر نکلا۔ تو اچانک کچھ لوگوں نے خنجر سے میرے دوست پر حملہ کیا کیونکہ ہم [مالکی] شیعوں کی طرح ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں۔
سوال: تو کیا سعودی بھی انگریزی پالیسی، تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو پر عمل پیرا ہیں؟
جواب: جی ہاں! یہ سعودی ریاست کی دائمی پالیسی ہے۔
امریکی تعین کرتے ہیں کہ کس کو ولی عہد اور کس کو بادشاہ ہونا چاہئے
سوال: بن سلمان کے اعلان کردہ منصوبوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں بادشاہ بننے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ان کی حکومت کی راہ میں علماء رکاوٹ بنیں گے یا شہزادے؟
جواب: یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ سعودی عرب میں امریکی بادشاہ اور ولی عہد کا تعین کرتے ہیں۔ سابق ولی عہد محمد بن نائف ایم بی ایس سے بھی زیادہ جابر و ظالم تھے جو اپنے والد نائف بن عبدالعزیز اور شاہ عبداللہ کے بیٹوں – یعنی نیشنل گارڈ کے کمانڈر متعب، امیر نائف اور امیر محمد – کے ساتھ مل کر حکومت، فوج، وزارت داخلہ اور جنرل سیکورٹی سمیت ریاست کے تمام شعبوں پر مسلط تھے۔ لیکن ایک رات ٹرمپ اور ان کا داماد جیراڈ کشنر آئے اور سب کچھ بدل گیا۔ محمد بن نائف کو ولایت عہدی سے ہٹایا اور مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہد اور ایم بی ایس کو ولی عہد بنایا۔ بعدازاں کشنر آیا اور اس نے حکومت کی کایا پلٹ کا اہتمام کیا۔ محمد بن نائف اور ان کے حامیوں کو محل میں محصور کیا اور بہت سارے لوگ گرفتار ہوئے۔ امریکہ نے ولی عہدی کا منظرنامہ لکھا۔ امریکی کمپنی بلیک واٹر کے گماشتے اس وقت سے لے کر آج ریاض کے مالک بنے بیٹھے ہیں، ولی عہد ایم بی ایس ہیں جو مقامی سیکورٹی اداروں پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ ریاض کے قصور اور محلات (Palaces) کی حفاظت سبکدوش امریکی فوجیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اب ہیں جو کہتے کون بادشاہ ہو اور کون ولی عہد ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم بی ایس امریکیوں کے قابو میں ہیں، اور یہ بات غیر حقیقی نہیں ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ سابق ولی عہد محمد بن نائف آہنی مکہ ہے جس نے “القاعدہ” کے 15000 دہشت گردوں کا قتل عام کیا، ہزار کارکنوں کا قتل عام کیا، 11000 جیلوں میں تھے اور 4000 یمن بھاگ کر چلے گئے۔ محمد بن نائف چھوٹے سے جرائم کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے، وہ بہت ظالم، جابر، آمر اور خونخوار تھے لیکن انھوں نے امن و امان کو آہنی مکے سے بحال رکھا۔ [گوکہ استبدادی ریاستوں میں آہنی مکے سے ہی امن کیا جاتا ہے]۔
محمد بن نائف کی معزولی کا سبب
سوال: تو پھر محمد بن نائف کو کیوں ہٹایا گیا؟
جواب: میرے خیال میں، بن نائف اور سابق بادشاہ عبداللہ امریکیوں کی من و عن اطاعت نہیں کرتے تھے، مثلا انھوں نے یمن کی پچھلی جنگ میں زمینی جارحیت سے اجتناب کیا۔ گوکہ سعودی طیارے یمن پر مسلسل بمباری کرتے تھے اور سعودی ادارے بھی جنگ کے حامی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یمن پر زمینی جارحیت کی صورت میں، یمنی ریاض تک ان کا تعاقب کریں گے۔ انھوں نے تاریخی تجربے سے سبق لیا؛ لیکن ٹرمپ آیا اور حکم دیا کہ یمن میں داخل ہوجاؤ، ایم بی ایس ٹرمپ کےمطیع مطلق تھے؛ چنانچہ انھوں یمن پر زمینی جارحیت کا آغاز بھی کیا اور سینکڑوں ارب ڈال بھی ٹرمپ کی جیب میں ڈال دیئے۔