اس تناظر میں تحریک حماس کے رہ نما اور رہا ہونے والے قیدی حسین ابو کویک نے تصدیق کی ہے کہ فلم "امیرہ" اس کے بنانے والوں، پروڈیوسروں، پروموٹرز اور اس میں حصہ لینے والوں کی طرف سے زوال اور اخلاقی گراوٹ کی حالت کی نشاندہی کرتی ہے۔
گواہوں کے لئیے لازم ہے گونگے ہوں/ نہ انکے ہونٹ ہلتے ہوں/ نہ انکے ہاتھ چلتے ہوں / اشارے انکے الٹے ہوں
یہ فلمیں درحقیقت افسانے ہیں، اور ان سب کا انجام بخیر ہوجاتا ہے اور اگرچہ ممکن ہے کہ ہیرو کی زندگی کے دشوار مراحل دیکھنے والوں کے آنکھوں سے آنسو جاری کر دے مگر آخرکار ہیرو اور ہیروئن کی خوش بختی یقینی ہے۔
ہالی ووڈ کا ایک کردار سپنے دکھانے سے عبارت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہالی ووڈ کے سپنے دکھانے کا مقصد کیا ہے؟ جس چیز نے امریکہ اور دنیا کی ثقافت کو بدل دیا، وہ یہی ہالی ووڈ کا خواب دکھانے کا رجحان ہے۔
ایک مشہور نقاد نے کسی وقت ان فلموں کے بارے میں کہا تھا: "میں مزید کبھی بھی بالی ووڈ کی سوپرہیرو فلم نہیں دیکھوں گا، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد میں حقیقی سوپر ہیروز پر اپنا ایمان کھو جاؤں گا"۔
اس فلم کا سب سے زیادہ مضحکہ خیز حصہ، اس کا آخری حصہ ہے، جس میں عورت کا روپ دھارنے والا شخص اپنی سابقہ بیوی تک پہنچنے کے لئے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر نہ صرف ٹریفک کے قواعد کو پامال کرتا ہے بلکہ فطرت کے قوانین کو بھی توڑ کر رکھ دیتا ہے۔
ہالی ووڈ کی فلم تین غیر شادی شدہ مردوں کی کہانی پر مشتمل ہے جو اپنے گھر کی پشت میں پڑے ایک بچے کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کے ساتھ جذباتی تعلق پیدا کرکے اس سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔
اس فلم کا آخری منظر بھی دزنی کے ریچھوں کے ساتھ رقص کے برابر، بےمعنی اور مبالغہ آمیز ہے؛ دھماکوں، پروازوں اور مار دھاڑ سے بھرپور؛ وہی منظر جس کے لئے ہندی فلم بین جان تک دے دینے کے لئے تیار ہیں۔
ب ایک تخریب کار اور پیشہ ور سماج دشمن شخص کو قتل و غارت کے بیچوں بیچ ترچھا ٹیڑھا اور ناچتا گاتا دیکھتے ہیں، تو یہ عجیب آمیزے کی تخلیق سے صرف بالی ووڈ والے ہی عہدہ برآ ہوسکتے ہیں!