بالی ووڈ والے ہالی ووڈ کی فلموں کی چربہ سازی کے دیوانے ہیں؛ گویا ان کی خواہشوں کی انتہا یہی ہے کہ ہالی ووڈ کی کسی فلم کو اٹھا کر اس میں رقص و موسیقی کی چاشنی بھر دیں اور اس میں موجودہ معاشقے اور رونے پیٹنے کے مناظر کو چند گنا کرکے، پیش کریں۔
بین الاقوامی صہیونیت کے اندر ایک قاعدہ ہے کہ جو بھی صہیونیوں کا مخالف ہو وہ اسے آخرالزمان کے واقعات سے جوڑ دیتی ہے اور شر یا بدی کی قوت قرار دیتی ہے۔
البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہودی سینما کا آخرالزمانی تفکر بظاہر دانیال نبی(ع) کی کتاب، ارمیاء اور حزقی ایل کی کتابوں نیز آخرالزمان کے حوالے سے یوحنا کے مکاشفات سے ماخوذ ہے۔ ان کاوشوں میں آخرالزمان کے تصورات کے سانچے علامتی ہیں چنانچہ ان کی گوناگوں تفسیریں اور تاویلیں ممکن ہیں۔
بہر کیف! اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ حالیہ چند سالوں میں اسرائیل میں میڈیا و ذرائع ابلاغ سے جڑے ادارے بہت مضبوط ہوئے ہیں اور اسرائیل کے سٹلائیٹ چنیل کی فزونی کی مقدار اور پے در پے انکی بنیاد و تاسیس اسی بات کی بیان گر ہے ۔
مختصر یہ کہ الہی رسولوں کے سلسلے میں اس طرح کی ہلکی پھلکی، بے بنیاد اور سیکولر دید اور نظر رکھنا، انبیاء کی حقیقی تاریخ میں تحریف ہے، پیغمبروں کی عصمت پر سوالیہ نشان اٹھانا ہے۔
یہ فلم در حقیقت مغربی زندگی کی حیراں و سرگرداں بھوبلییوں کی عکاسی کرتی ہے کہ جہاں پر ہزار طرح کے پیچ و خم رکھنے والے راستے سے گزرنے کے بعد بھی انسان ایک بڑے بھولبلییاں میں داخل ہو جاتا ہے کہ جس سے نہ صرف اس کو نجات نہیں ملتی بلکہ اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
مغربی طرز زندگی ہمیشہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ لوگوں کو زندگی کی مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کے بجائے انہیں مشکلات کو نظر انداز کر کے جینا سکھائے۔ در حقیقت خود پرستی اور اخلاقی فقر، اجتماعی زندگی کی وہ مشکلات ہیں جو ڈسنی کمپنی کی فملوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔