حیران کن بات یہ ہے کہ اس زمانے کے خواص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سن چکے تھے کہ "بنی امیہ کی حکومت حرام ہے" اور "اگر تم معاویہ کو منبر پر بیٹھے دیکھا تو اسے اتار کر قتل کرو"، اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بھی صراحت کے ساتھ انہیں اس فرمان نبوی کی یاد دہانی کرا چکے تھے؛ تاہم معاشرے کے خواص جو سقیفہ کی سازش کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے راستے سے منحرف ہوچکے ہیں۔
حکومت حق عوام کے تعاون کے بغیر قائم نہیں ہؤا کرتی؛ جب کوفہ نے حکومت حق کے قیام کا ارادہ ظاہر کیا تو امام حسین علیہ السلام پر واجب ہؤا کہ ان کی دعوت قبول کریں۔
یہ جو اب ہم افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن (اس سے پہلے) کسی نے بھی جو بائیڈن کی طرح ایک المناک فوجی پسپائی کا انتظام نہیں کیا تھا اور "یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں ہماری شرمساری کا سب سے بڑا واقعہ ہے"۔
یزید کی ماں عیسائی تھی ’میسون‘ اس کا نام تھا معاویہ نے یزید کی ماں کو اپنے دربار سے نکال کر اس کے قبیلے میں واپس بھیج دیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے غلام سے ناجائز تعلقات رکھتی تھی اور یزید بھی انہیں ناجائز تعلقات کا نتیجہ تھا جو میسون اپنے غلام سے رکھتی تھی۔
بعض مسائل ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کو کریدا جائے تو اس سے داستان کربلا کے تقدس کو نقصان پہنچے گا اور اس کا واحد نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ کہیں گے "یہ مسئلہ اگر جھوٹا تھا تو وہ دوسرا مسئلہ بھی یہی ہے" اور اس قسم کی تحقیق کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ بھی نہيں ہوگا۔
اگر عزاداری کی مجالس و محافل 200 سال پہلے کی سی صورت میں باقی رہتیں اور اگر ہمارے لوگ عمومی طور پر 200 سال پہلے کی طرح سوچتے تو کیا اسلامی نظام قائم ہو جاتا؟ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اچھی طرح نہیں سمجھا جاسکا ہے۔
آیت اللہ رضا استادی نے کہا: امام حسین علیہ السلام کا قیام اور عاشورا، ایک عظیم واقعہ ہے جو بنی نوع انسان کے تمام زمانوں کے لئے نئے پیغام اور نئے پروگرام کا حامل ہے چنانچہ اس واقعے پر کسی قسم کا حرف نہیں آنا چاہئے۔
میں یہ کہوں گا کہ صہیونیوں نے بنیادی طور پر ہی یہ غلطی کی ہے کہ انہوں نے اپنے لیے ایک الگ ملک بنایا اور اس کا نام اسرائیل رکھا۔
یروشلم کسی ایک مذہب یا دین کے ماننے والوں کا نہیں ہے، یروشلم میں عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں سب کا حصہ ہے۔