مغربی نظام میں استحکام کا محور و مداد، فرسودہ بادشاہی نظام ہے جس کا کوئی عقلی اور منطقی جواز نہیں ہے اور صرف خون اور وراثت اس کی بنیاد ہے۔ لیکن اسلام کی دینی فکر میں "عدالت اور فقاہت" ہے، دو ایسی شرطیں جو علم اور صداقت کو مد نظر رکھتی ہیں۔
بہت سارے مسلمان بھی سازشوں سے دوچار ہوئے کیونکہ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ دوسرے مسلمان ایسا کام بھی کر سکتے ہیں! یہ مسئلہ یہودیوں اور ریاست ہائے متحدہ کے سلسلے میں دوسری سازشوں کا سبب بنا۔
رولی لعل نے کہا: 11 ستمبر کے واقعے میں 3000 امریکیوں کی ہلاکت بہت سوں کے لئے ناقابل یقین تھی۔ اس واقعے نے ثابت کیا کہ امریکی فوجی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی ناقص اور اس کے اندازے غلط تھے۔ امریکی اچانک مسلمانوں اور مسلمانوں سے شباہت رکھنے والوں پر بدظن ہو گئے۔ جس کی وجہ سے سکھوں پر بہت سارے حملے ہوئے جو جو سر پر دستار رکھتے تھے، نیز مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے غیر محفوظ ہو گئے۔
مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں مقاومت کے معرض وجود میں آنے کی برکت سے محور مقاومت نے عظیم کامیابیاں حاصل کیں؛ شام کے خلاف بین الاقوامی سازش مقاومت کی مدد سے ناکام ہوگئی اور امریکہ، یورپ، ترکی اور سازشی عرب حکمرانوں سے وابستہ مسلح ٹولوں کو شکست ہوئی۔
اسرائیل رو بہ زوال ہے، وہ ہر روز پہلے سے زیادہ، اپنی تسدیدی قوت کھو رہا ہے اور حتیٰ کہ اپنی حفاظت کرنے اور مقاومت کو براہ راست جواب دینے سے عاجز ہے؛ وہ لبنان کی حزب اللہ کے سامنے بے بس ہوچکا ہے وہ غزہ کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائی کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ حملے کی صورت میں اسے دندان شکن جوابی کاروائی کا سامنا ہوگا۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد - جس نے فلسطین کو ایک بار پھر بین الاقوامی مسئلے میں تبدیل کر دیا - حالیہ دہائیوں میں مقبوضہ سرزمین پر قائم غاصب ریاست کی عملداری میں نہ امن و سکون ہے اور نہ ہی خوشحالی۔ حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت اور صہیونی ریاست کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں صہیونی ریاست کا اندرونی محاذ نشانے پر رہا ہے۔
بین الاقوامی امور کا تجزیہ کار: آج کی صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی مزید یہ کہتے ہوئے نہیں دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیلی فوج "ناقابل شکست" ہے؛ بلکہ آج ایک "ناقابل شکست عزم" کی بات ہو رہی ہے جو مقاومت (مزاحمت) کی صورت میں ظہور پذیر ہؤا ہے۔
آیت نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناو یعنی ان کے ساتھ معاملات میں خود کو کمزور مت سمجھو، البتہ آیت یہ نہیں کہتی کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ گفتگو اور مذاکرات نہ کرو، ان کے ساتھ بالکل تعلقات نہ رکھو، بلکہ آیت میں تاکید اس بات پر ہے کہ ان کے مقابلے میں خود کو ضعیف مت سمجھو ۔
صہیونی ریاست پوری دنیا پر یہودی نسلی برتری کے تصور پر استوار ہے، وہ نیل سے فرات تک کے علاقے کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے؛ اور اس صورت میں دوستی اور برابر کے تعلق کا تصور ہی ممکن نہیں چنانچہ زور زبردستی کے ذریعے آقا اور غلام کا تعلق ہی قائم ہو سکتا ہے